پاکستان میں روایتی سیاست اپنے عروج پر ہے۔ اپوزیشن حکومت کو گھر بھیجنے کے دعوے کر رہی ہے اور حکومت دوبارہ الیکشن کروانے کا اعلان کر رہی ہے۔ ایک بہت بڑے کاروباری صاحب‘ جو نون لیگ سے وابستگی رکھتے ہیں‘ نے چند دن قبل مجھے کھانے پر مدعو کیا۔ جب میں پہنچا تو نیوز چینلز پر خبر چل رہی تھی کہ حکومت پی ڈی ایم کے جلسوں میں کرسیاں اور ٹینٹ فراہم کرنے والوں پر مقدمات درج کروائے گی۔ میزبان نے پوچھا کہ حکومت کو کیا مسئلہ ہے جو اپوزیشن کو جلسے نہیں کرنے دے رہی؟ میں نے جواب دیا کہ اس حکومت کو بھی وہی مسئلہ ہے جو نواز شریف حکومت کو تھا۔ نواز شریف بھی تو عمران خان کو جلسے کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ اُن صاحب کا پارہ چڑھ گیا لیکن لاجواب ہونے کے بعد شاید مزید گفتگو کی ہمت نہ رہی تھی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ دل ہی دل میں یہ سوچ رہے ہوں کہ یہ تو تحریک انصاف کا سپورٹر ہے۔ جو میرے نزدیک محض ایک الزام ہے‘ حقیقت قطعاً نہیں۔بعض لوگوں کی نظر صرف سیاسی وابستگیوں تک ہی محدود رہتی ہے۔ ان کی نظر میں آپ یا تو نون لیگ کے سپورٹر ہیں یا تحریک انصاف کے، وگرنہ وہ پیپلز پارٹی کے یاکسی اور سیاسی و مذہبی پارٹی سے آپ کا تعلق بنا دیتے ہیں۔ یہ اندازہ وہ عموماً گفتگو سے لگاتے ہیں۔ آپ کی بات کتنی متوازن اور سچی ہی کیوں نہ ہو‘ آپ کا تعلق کسی نہ کسی پارٹی سے جوڑ دیا جائے گا۔ میرے ساتھ بھی شاید ایسا ہی ہوا لیکن ان صاحب نے سمجھداری دکھائی اور مجھ سے سیاست پر مزید کوئی سوال نہیں کیا۔پھر بھی میں نے جاتے ہوئے ان کے گوش گزار کر دیا کہ میرے خیال میں حکومت کہیں نہیں جا رہی۔ ویسے اس گفتگو کا میرے آج کے کالم سے کوئی تعلق نہیں ہے‘ ایسے ہی دل چاہا کہ سیاسی حالات، عوامی رویوں اور حالاتِ حاضرہ پر رائے زنی کی جائے کیونکہ آج کل ہر ڈرائنگ روم کا یہی موضوعِ گفتگو ہے۔ آئیے! اب آج کے موضوع کی جانب آتے ہیں۔ سال 2020ء ختم ہو رہا ہے اور پاکستان کے معاشی اشاریے بھی تیزی سے بدل رہے ہیں لیکن اس ایک سال میں ڈالر کی کیا پوزیشن رہی اور یہ کس طرح پاکستانی معیشت اور عوام پر اثر انداز ہوا، اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
پاکستانی معیشت اور ڈالر کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ویسے تو پاکستان کی آفیشل کرنسی روپیہ ہے لیکن یہاں طوطی ڈالر کا بولتا ہے۔ بعض لوگوں کا تو دل چاہتا ہے کہ ملک کی آفیشل کرنسی ڈالر ہی کر دی جائے لیکن کیا کریں! پہلے معاشی طور پر اس قابل تو ہو جائیں کہ معاشی میدان میں ترقی یافتہ ممالک کا مقابلہ کرسکیں۔ جہاں تک بات ہے عوام کی تو وہ ڈالر کی آنیاں اور جانیاں ہی دیکھتے رہیں گے‘ شاید مقدر یہی ٹھہرا۔
جب 2020ء کا آغاز ہوا تھا تب ڈالر کی قیمت 154 روپے تھی اور آج یہ 160 سے اوپر ٹریڈ ہو رہا ہے، گو کہ یہ فرق اتنا زیادہ نہیں ہے لیکن ایک سال میں اتار چڑھاؤ خوب آئے ہیں۔ اس کا اندازہ آپ اس سے لگا لیں کہ اس سال ڈالر 170 روپے میں بھی بیچا گیا ہے۔ مارکیٹ میں افواہ اُڑ گئی کہ ڈالر دو سو روپے تک جائے گا۔ موقع پرستوں نے ڈالر جمع کرنے شروع کر دیے۔ وہ تو بھلا ہوا ایف اے ٹی ایف بل کا، جس نے لوگوں کے دلوں میں ڈر ڈالا کہ اب ڈالر سمگل کرنا تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔ اگر خرید بھی لیے تو رکھو گے کہاں؟ بیرونِ ملک لے جا نہیں سکتے‘ اندرونِ ملک جب بینک یا منی چینجر پر بیچنے جائو گے توایف بی آر اور ایف آئی اے والے حساب مانگ لیں گے۔ ان حالات میں ڈالر جمع کرنے کے بجائے بیچ دیا جائے‘ تو زیادہ بہتر ہے۔ عوام میں اس ڈر نے روپیہ تگڑا کر دیا۔ دوسری طرف جعلی منی چینجرز نے راتوں رات بوریا بستر لپیٹا اور جو ڈالر ان کے پاس پڑے تھے‘ وہ مارکیٹ میں بیچ دیے اور اپنی جان چھڑا لی۔ جان ان کی چھوٹی ہے یا نہیں‘ یہ تو حکومت آنے والے دنوں میں فیصلہ کرلے گی لیکن اس کا حتمی فائدہ پاکستانی حکومت اور روپے کو ہوا ہے۔ چند دنوں میں ڈالر 170 سے کم ہو کر 158 پرآ گیا اور اب ایک سو ساٹھ کے ارد گرد گھوم رہا ہے۔
ایف اے ٹی ایف کے بل نے بیرونِ ملک پاکستانیوں کے لیے بھی کئی غیر قانونی راستے بند کر دیے ہیں۔ پہلے تو حوالہ ہنڈی سے پیسے پاکستان بھیج دیے جاتے تھے لیکن یہ بل پاس ہو جانے کے بعد ڈالرز آفیشل چینلز کے ذریعے پاکستان بھیجے جا رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے ڈالر ذخائر میں بہترین اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ تقریباً پچھلے پانچ ماہ سے لگا تار دو ارب ڈالر سے زیادہ ترسیلاتِ زر موصول ہو رہی ہیں‘ جو ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے۔ بطور ٹیکس کنسلٹنٹ‘ میرا رابطہ اندرون اور بیرونِ ملک کلائنٹس سے رہتا ہے۔ لندن میں مقیم ایک کلائنٹ نے مجھ سے رابطہ کیا کہ پاکستان میں چند لاکھ روپے بھجوانے ہیں‘ میری پاس مطلوبہ رقم پونڈز میں موجود ہے لیکن میں نے وہ برطانیہ میں ڈکلیئر نہیں کیے ہوئے۔ پہلے دیگر طریقے استعمال کر کے پیسہ بھجوا دیتا تھا لیکن اب وہ ناممکن ہو گیا ہے۔ اگر آپ کا کوئی دوست لندن میں ہے تو میں اسے پونڈز دے دیتا ہوں اور آپ پاکستان میں پونڈز کے برابر روپے میرے گھر بھجوا دیں۔ کافی مشکلوں سے رقم کی ادائیگی تو ممکن ہو گئی لیکن اسے یہ بتا دیا کہ اب دوبارہ یہ ممکن نہیں ہو سکے گا، اپنا قبلہ درست کر لو۔ اس نے یہ کہہ کر ہامی بھر لی کہ اب تو سیدھے راستے پر آنا ہی پڑے گا۔یہ صرف ایک شخص کی کہانی نہیں ہے بلکہ ہزاروں افراد ایسی صورتِ حال سے دو چار ہیں جس کا حتمی فائدہ ملکی معیشت کو ہورہا ہے۔
ڈالر کا بڑھنا تو معمول ہے لیکن دس سے بارہ روپے ڈالر کے ریٹ میں کمی ایک ریکارڈ ہے۔ خوش قسمتی سے یہ ریکارڈ اسی سال بنا ہے۔ اس سے پہلے 2013ء میں جب نون لیگ کی حکومت آئی تو چند ماہ میں ڈالر کی قیمت نوے سے بڑھ کر پہلے سو اور پھر ایک سو دس روپے تک پہنچ گئی۔ اسحاق ڈار صاحب وزیر خزانہ تھے اور شیخ رشید صاحب عمران خان کے ساتھ اپوزیشن میں بیٹھے تھے۔ اسحاق ڈار میڈیا کی شدید تنقید کی زد میں تھے۔ شیخ رشید نے اعلان کیا تھا کہ نون لیگ نالائق، نکمی اور نکھٹو ہے اور یہ چاہتے ہوئے بھی ڈالر کو واپس سوروپے پر نہیں لا سکتی۔ اگر اسحاق ڈار ڈالر کو سو روپے تک لے آیا تو میں مستعفی ہو جائوں گا۔ اسی دوران حکومتِ پاکستان کو سعودی عرب سے امداد کی مد میں دو ارب ڈالر موصول ہوئے۔ ڈار صاحب نے ان ڈالروں کو پاکستانی روپے کو مستحکم کرنے اور ڈالر کی قیمت نیچے لانے کے لیے استعمال کر لیا اور ملکی خزانے سے ڈالر نکال کر مارکیٹ میں پھیلا دیے، نتیجتاًڈالر سو روپے تک آ گیا‘یہ غیر معمولی کمی تھی۔ تقریباً دس روپے کی کمی ایک ریکارڈ تھا۔ اسحاق ڈار نے اعلان کیا کہ ہم نے ڈالر سو روپے کا کر دیا ہے اب شیخ رشید سے کہیں کہ وہ استعفیٰ دے۔ شیخ صاحب یہ کہتے ہوئے پلٹ گئے کہ میری وجہ سے قوم کا فائدہ ہو گیا ہے، استعفیٰ کیوں دوں‘ میری وجہ سے ہی تو معیشت کو فائدہ ہوا ہے۔ مجھے نیچا دکھانے کے لیے ہی سہی‘ لیکن حکومت نے کوئی اچھا کام تو کیا۔ اس وقت اسحاق ڈار کی بلے بلے ہو گئی لیکن معصوم عوام کو یہ نہیں علم تھا کہ ڈالر میں کمی مصنوعی طریقے سے کی گئی تھی جس کا نقصان بہرحال پاکستان کو ہی ہوا۔ ہاتھ سی لگائی گئی گرہیں دانتوں سے کھولنا پڑیں‘ بلکہ آج تک کھولنی پڑی رہی ہیں۔ اس کے مقابلے میں اب پاکستان میں جو ڈالر کی قیمت کم ہو رہی ہے وہ مارکیٹ کے اصولوں کے عین مطابق ہے۔ حکومت نے اپنی جیب سے ڈالر انجیکٹ نہیں کیے بلکہ برآمدات بڑھنے اور ترسیلاتِ زر میں اضافے سے ریٹ خود بخود کم ہورہا ہے۔ (جاری)