ڈالر کے پاکستانی معیشت پر اثرات …(2)

ان اقدامات پر حکومت کی تعریف نہ کرنا سرا سر زیادتی ہے۔ ایف اے ٹی ایف بظاہر تو پاکستان کا دشمن ہے لیکن اللہ نے اس میں سے بھی خیر نکال دی ہے۔ سخت سزائیں مختص کرنے اور منی لانڈرنگ کو قانون شکنی کے زمرے میں لانا آسان نہیں تھا۔ پوری اپوزیشن اس بل کے خلاف تھی۔ اپوزیشن نے اڑتیس شقوں میں سے چونتیس شقوں کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا تھا جو کہ منی لانڈرنگ کے بارے میں تھیں۔ حکومت نے انکار کیا اور اپوزیشن نے اسمبلی میں اسے نامنظور کروانے کے لیے مہم چلائی۔ اصولی طور پر پارلیمنٹ کے جوائنٹ سیشن میں حکومت کے پاس بل پاس کروانے کے لیے مطلوبہ تعداد موجود نہیں تھی۔ اپوزیشن اکثریت میں تھی‘ لیکن حکومت نے واضع اکثریت سے یہ بل منظور کروا لیا۔ اپوزیشن منہ تکتی رہ گئی اور ایف اے ٹی ایف بل قانون بن گیا۔ یقینا حکومت نے اپوزیشن کے کچھ لوگوں کو توڑا ہو گا تا کہ ملک کے بہتر مفاد میں فیصلے کیے جا سکیں۔ میرے خیال میں اگر کسی کو خرید کر بھی اس طرح کے فیصلے کرنا پڑیں تو یہ غلط نہیں ہو گا کیونکہ جب جائز کام کے لیے گھی سیدھی انگلی سے نہ نکلے تو انگلی ٹیڑھی انگلی استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ 
ڈالر کی قیمت کنٹرول میں آنے کی ایک اور وجہ قرضوں کی ادائیگی میں ملنے والا ریلیف ہے۔ پاکستانی معیشت قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔ ہر آنے والے دن کے ساتھ اس میں اضافہ ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ جب سے تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے ڈالر کی قیمت میں ہو شربا اضافے نے قرضوں کی مالیت تقریباً پچاس فیصد تک بڑھا دی ہے۔ بلکہ ہمارے بجٹ کا بڑا حصہ ان قرضوں کے سود کی ادائیگی میں ہی صرف ہو جاتا ہے۔ ایک قرض ادا کر کے فارغ نہیں ہوتے کہ دوسرے کی باری آ جاتی ہے۔ اب چونکہ قرض ڈالروں میں لیے ہوتے ہیں اس لیے واپس بھی ڈالروں میں ہی کرنا پڑتے ہیں چاہے روپے کی قیمت کچھ بھی ہو۔ ڈالرز میں ادائیگی سے ملکی ذخائر میں موجود ڈالرز کم ہو جاتے ہیں جس کے نتیجے میں روپیہ کمزور ہوتا ہے اور ڈالر کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ وزارت خزانہ کے اعدادوشمار کے مطابق نومبر دسمبر‘ جنوری اور فروری میں تقریباً سات ارب ڈالر کے قرضوں کی ادائیگی کرنا تھی‘ ان میں دو ارب ڈالر سعودی عرب‘ دو ارب ڈالر متحدہ عرب امارات اور تین ارب ڈالر چین کو واجب الادا تھے۔ پاک سعودی تعلقات میں تناؤ کے باعث اسی سال سعودی عرب نے تین ارب ڈالرز میں سے پاکستان سے ایک ارب ڈالر واپس مانگ لئے تھے۔ پاکستان چونکہ اس پوزیشن میں نہیں تھا ‘لہٰذا سعودی عرب کا خیال تھا کہ پاکستان دباؤ میں آ جائے گا اور ہمارے مطالبات پر سر تسلیم خم کر دے گا‘ لیکن پاکستان نے چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو استعمال کیا اور ایک ارب ڈالر چین سے لے کر سعودی عرب کو دے دیے۔ یہ عمل سعودی عرب کے لیے حیران کن تھا۔ اس ادائیگی کا پاکستانی معیشت پر کوئی اثر نہ پڑا بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ دنیا کو یہ پیغام گیا کہ چین پاکستان کے ساتھ ہر برے وقت میں کھڑا ہو گا تو غلط نہیں ہو گا۔ اس عمل نے سرمایہ کاروں کا بھی پاکستان پر اعتماد بڑھایا۔ چند دن پہلے تک یہ اندازہ لگایا جا رہا تھا کہ سعودی عرب اور یو اے ای کو ڈالرز کی ادائیگی کے نتیجے میں ڈالر کی قیمت بڑھ جائے گی۔ مافیاز نے ڈالر خریدنا بھی شروع کر دیے تھے جس کے باعث چند دن ڈالرز کی قیمت بڑھتی ہوئی دکھائی دی۔ یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ اگر سعودی عرب نے ایک ارب ڈالر واپس لے لیے ہیں تو دو ارب ڈالر بھی واپس لے گا‘ لیکن وہ یہ اندازہ لگانے میں ناکام ہو گئے کہ دنیا میں امریکی الیکشن کے باعث صورتحال بدل رہی ہے۔ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی ہار اور جو بائیدن کی جیت نے پوری دنیا کے سفارتی تعلقات کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ اس کا اثر پاک سعودی تعلقات پر بھی پڑا ہے۔ اگر آپ ماضی میں جھانکیں تو آپ کو یہ اندازہ لگانے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا کہ باراک اوباما کی پالیسیاں جو بائیدن کے مشورے کے بغیر ادھوری تھیں۔ جو بائیڈن مسلسل آٹھ سال تک باراک اوباما کے دور میں نائب صدر رہے ہیں ۔ امید یہ ہے کہ مستقبل میں ممکنہ امریکی پالیسیاں ماضی کی پالیسیوں کی ایکسٹینشن ہوں گی۔ اوباما کا جھکاؤ ایران کی جانب تھا۔ ایران سے ہونے والا جوہری معاہدہ بھی باراک اوباما کی بدولت ممکن ہوا تھا۔ 
ایران پر سے پابندیاں ہٹ گئیں‘ اس کا تیل دنیا میں بکنے لگا‘ بلکہ یورپ کی مارکیٹ نے سعودی عرب کا تیل بند کر کے ایران کا تیل استعمال کرنا شروع کر دیا۔ ان حالات میں سعودی عرب تنہائی کا شکار ہو گیا تھا۔ سعودی معیشت دن بدن گر رہی تھی‘ یہاں تک کہ سعودی حکومت نے بڑی تعداد میں غیر ملکی مزدوروں کو ملک بدر کیا‘ کمپنیاں بند کرنا پڑیں اور امریکہ سے تعلقات بہتر کرنے کی بھی کوشش کی گئی‘ لیکن جب تک باراک اوباما کی حکومت رہی یہ تعلقات بہتر نہیں ہو سکے۔ بلکہ اوباما انتظامیہ سعودی عرب کو یہ کہہ کر بلیک میل کرتی رہی کہ ایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق نائن الیون حملوں میں سعودی حکومتی خاندان ملوث تھا‘اگر ایران کے لیے مشکلات پیدا کیں تو خفیہ رپورٹ جاری کر دیں گے۔ سعودی عرب کے حالات میں بہتری اس وقت آئی جب ڈونلڈ ٹرمپ حکومت میں آئے اور یورپ اور برطانیہ کی مخالفت کے باوجود ایران پر پابندیاں لگا دی گئیں۔ نیوکلیئر معاہدہ ختم کر دیا اور سعودی عرب نے اس کے بدلے اربوں ڈالر کی دفاعی ڈیل امریکہ سے سائن کر لی۔ یہ سارا پس منظر بتانے کا مقصد یہ ہے کہ جو بائیڈن کی جیت کے بعد سعودی عرب کو اندازہ ہو گیا ہے کہ آنے والے دنوں میں وہ علاقائی تنہائی کا شکار ہو سکتا ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ اگر کل کو امریکہ ایران تعلقات بہتر ہوتے ہیں اور پاکستان کا جھکاؤ بھی ایران کی جانب ہو گیا تو سعودی دفاعی طاقت کمزورپڑ سکتی ہے۔ ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے پاکستان سے چار ارب ڈالر واپس لینے کا ارادہ تبدیل کر دیا ہے۔ فی الحال سعودی عرب اور یو اے ای نے ایک سال کے لیے ادئیگیاں مؤخر کی ہیں اور جہاں تک بات ہے چین کے تین ارب ڈالر کے قرضوں کی تو وقت آنے پر ان سے بھی درخواست کر کے رول اوور کروائے جا سکتے ہیں۔ سعودی جانتے ہیں کہ پاکستان ممکنہ طور پر چین اور باقی دوست ممالک سے مانگ کر ادائیگی تو کر دے گا‘ لیکن ہم پاکستان کو بلیک میل کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہیں گے۔
بین الاقوامی تبدیلیوں نے پاکستان کے ڈالر ذخائر کو کم ہونے سے بچا لیا ہے۔ ڈالرز کی ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے طلب اور رسد میں فرق زیادہ نہیں بڑھ سکا جس کی بدولت ڈالر کے مقابلے میں روپیہ مستحکم رہا اور ڈالر کی قیمت نہیں بڑھ سکی۔اس کے علاوہ جی 20 ممالک کی جانب سے پاکستان کو دیے گئے ریلیف نے بھی ڈالر کی قیمت کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ تقریباً 800 ملین ڈالرز کا ریلیف پاکستان کو دیا گیا ہے اور تقریباً ایک ارب ڈالر کا ریلیف لینے کی کو ششیں جاری ہیں۔ یہاں ایک بات مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ قرضوں میں ریلیف اور قرضوں کی معافی میں فرق ہوتا ہے۔ آج اگر ادا نہیں کرنے پڑ رہے تو کل اکٹھے ادا کرنا پڑیں گے‘ بلکہ جو نئے قرض لیے جا رہے ہیں ان کے ساتھ یہ بھی ادا کرنا پڑیں گے۔ اُس وقت ڈالر کی صورتحال کیسی ہو گی اور کن ذرائع سے یہ ادائیگی کی جائے گی‘ اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے تا کہ وقت آنے پر مشکلات سے بچا جائے اور ڈالر کی قیمت بڑھا کر عوام کو مزید مشکلات میں گرنے سے بچایا جا سکے۔(ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں