2020ء میں تحریکِ انصاف کے بہتر معاشی منصوبے

میں نے 19دسمبر 2020ء کو''کنسٹرکشن ایمنسٹی سکیم کی مدت میں توسیع کی جائے‘‘کے عنوان سے کالم لکھا تھا۔ اس حوالے سے حکومتی حلقوں اور وزرا سے بات بھی ہوئی اور وزیراعظم تک بھی پیغام پہنچایا گیا۔ حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ وزیراعظم صاحب نے اس معاملے کی نزاکت اور افادیت کو سمجھتے ہوئے ایمنسٹی سکیم میں 31 دسمبر 2021ء تک توسیع کر دی ہے۔اس مدت میں کنسٹرکشن سیکٹر میں جو بھی سرمایہ کاری ہو گی اس کے ذرائع آمدن نہیں پوچھے جائیں گے۔ بلڈرز کے لیے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کے سیکشن 111 سے چھوٹ سمیت دیگر مراعات کا بھی اعلان کیا گیا ہے جس کے مطابق ٹیکس حکام کو کسی بھی شخص کے ٹیکس ذرائع کے بارے میں استفسار کرنے کا اختیار نہیں دیا گیا۔ نو ماہ میں 163 ارب روپے کے 186 تعمیراتی منصوبے ایف بی آر کے پاس رجسٹرڈ ہو چکے ہیں۔116 ارب کے منصوبے اندراج کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق صرف پنجاب میں 1500 ارب روپے کی معاشی سرگرمیاں پیدا ہو نے کی امید ہے۔ بینکوں نے بھی 378 ارب روپے کنسٹرکشن شعبے کے لیے 31 دسمبر 2021ء تک مختص کر دیے ہیں۔ حکومت کم آمدن والے شہریوں کے لیے سستے گھروں کی مد میں 30 ارب روپے سبسڈی دے گی۔ اس کے علاوہ پہلے ایک لاکھ گھر خریدنے والوں کو تین لاکھ روپے کی گرانٹ بھی دی جائے گی۔ صدارتی آرڈر کے ذریعے ان تبدیلیوں کو لاگو کیا جائے گا۔اس فیصلے سے تعمیراتی شعبے سے جڑے تمام سٹیک ہولڈرز خوش دکھائی دیتے ہیں۔ چالیس سے زیادہ صنعتوں کی ترقی اور کروڑوں لوگوں کے روزگار میں اضافے کی امید پیدا ہوئی ہے۔بیرون ِملک پاکستانی بھی کنسٹرکشن شعبے کی سرمایہ کاری میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ اس فیصلے کی حوصلہ افزائی ضروری ہے۔
دوسری طرف پاکستان کو درپیش لاتعداد مسائل میں سے انتہائی اہم معاملہ اشیا کی قیمتوں میں بے جا اضافہ ہے۔ آپ آٹوموبائل سیکٹرکی ہی مثال لے لیجیے۔ 45 لاکھ کی جو گاڑی پاکستان میں مہیا کی جا رہی ہے اس کی کوالٹی ٹین ڈبہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ بیرونِ ملک ایک معمولی سی گاڑی میں بھی کم از کم چار ائیر بیگز مہیا کیے جاتے ہیں جبکہ پاکستان میں تین لاکھ ڈالرز کی گاڑی میں بھی صرف دو ائیر بیگز لگائے جاتے ہیں اور اکثر دیکھا گیا ہے کہ حادثات کے وقت وہ ائیر بیگز کھلتے بھی نہیں ہیں۔قیمتیں ہر تین سے چھ ماہ میں بڑھائی جا رہی ہیں۔ ایسا کیوں ہے‘ کوئی پوچھنے کو تیار نہیں۔ اگر فرنچائزز سے رابطہ کریں تو ڈالر کی قیمت میں اضافہ اس کی وجہ بتائی جاتی ہے‘لیکن سوال یہ ہے کہ پچھلے چھ ماہ سے ڈالر کی قیمت کم ہو رہی ہے ۔ اس کے برعکس گاڑیوں کی قیمت کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ رہی ہے۔اس کی وجہ قیمتوں اور کوالٹی پر چیکس کا نہ ہونا ہے۔
سال 2020 ء میں کچھ کام حکومت کی طرف سے اچھے ہوئے ہیں اور کچھ حالات نے بھی ساتھ دیا ہے۔ کمپیٹیشن کمیشن آف پاکستان کی بحالی بھی ایسا ہی ایک عمل ہے۔ میں اپنے قارئین کو بتاتا چلوں کہ سال 2009ء میں حکومت ِپاکستان نے اشیا کی قیمتوں میں توازن برقرار رکھنے اور قیمت کے مطابق کوالٹی مہیا کرنے کے لیے سرکاری سطح پر اس ادارے کی تشکیل کا فیصلہ کیا ۔ ایک امید پیدا ہوئی کہ عوام کی ترجمانی کرنے والا کوئی ادارہ ہے لیکن وہی ہوا جو آج تک ہمارے ملک میں ہوتا آیا ہے‘جن سیکٹرز کو ڈر تھا کہ ان کے خلاف ایکشن لیا جائے گا اورجنہوں نے اشیا کی قیمتیں بے اصولی کے تحت بڑھائی ہوئی تھیں وہ اس کے خلاف عدالت چلے گئے اور اسلام آباد ہائیکورٹ سے اس کے قیام کے خلاف سٹے لے لیا۔ سب سے پہلے سیمنٹ سیکٹر نے سٹے لیا۔ کسی سیانے نے مشورہ دیا کہ تمام بڑی صنعتوں کو چاہیے کہ وہ بھی سٹے لے لیں۔ مہنگے وکیلوں کی خدمات لیں۔ تاریخوں کے نظام کا سہارا لیں۔ ایک صنعت ایک گراونڈ پر سٹے لے‘ دوسری صنعت کسی دوسری گراونڈ کی بنیاد پر سٹے لے اور تیسری کسی اور بنیاد پر۔ ایک گراونڈ پر ایک سٹے ختم ہو گا تو پندرہ سولہ سٹے پھر بھی موجود رہیں گے۔ اس طرح بحال ہوتے ہوئے تقریباً دس سے پندرہ سال لگ جائیں گے۔ اس دوران جتنی چاہے قیمتیں بڑھاؤ اور جتنا چاہے مال کماؤ کوئی پوچھنے والا نہیں ہو گا۔ اس فارمولے کے تحت سب سے پہلے سیمنٹ انڈسڑی نے سٹے لیا‘ پھر فارماسوٹیکل‘ آٹوموبائل‘ کنسٹرکشن‘ شوگر‘ آٹا‘ چاول اور رئیل سٹیٹ سمیت کئی اداروں نے عدالتوں کا رخ کیا۔ سب کو سٹے ملا جو گیارہ سال جاری رہا اور سال 2020 میں ختم ہوا۔ اس کے خاتمے کے ساتھ ہی حکومت نے سب سے پہلے سیمنٹ سیکٹر پر ایکشن کیا جہاں بہت سی کمپنیوں کے دفاتر پر چھاپہ مار کر ریکارڈ قبضے میں لیا گیا۔ان کے خلاف شکایت تھی کہ سیمنٹ کی قیمتوں میں بے جا اضافہ کیا جا رہا ہے۔ حوصلہ افزا عمل یہ ہے کہ حکومت نے کمیشن کی بحالی کے بعد فوراً بعد ایکشن میں آنے کا فیصلہ کیا۔ حیلے بہانوں کی بجائے عملی قدم اٹھایا ہے‘ جس سے یہ امید پیدا ہو گئی ہے کہ مستقبل میں بغیر کسی مضبوط توجیہ کے قیمتوں میں اضافہ روکا جا سکے گا۔ اگر اضافہ ہو گا تو معیار بھی بہتر مہیا کرنا ہو گا ورنہ سرکار ایکشن لے گی۔ 
تیسری اچھی خبر یہ ہے کہ دنیاجدید ٹیکنالوجی کے استعمال کی طرف بڑھ رہی ہے جس میں پاکستانی بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔ صرف فری لانسنگ میں پاکستانی دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے‘ لیکن سرکاری سطح پر پشت پناہی کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی جو سال 2020 ء میں دیکھنے میں آئی ہے۔ وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چودھری نے اعلان کیا ہے کہ حکومتِ پاکستان نوے ارب ڈالر کی گیمنگ اینڈ اینی میشن انڈسٹری میں داخل ہونے کے لیے تیار ہے۔حکومت پاکستان جلد ہی اینی میشن اینڈ گیمنگ سرٹیفکیشنز شروع کرنے والی ہے۔یہ بیان ایک تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان اس شعبے سے سالانہ پچیس ملین ڈالرز کماتا ہے اور آٹھ ہزار سے زائد لوگ اس کے ساتھ براہ راست منسلک ہیں۔ کچھ پاکستانیوں نے گیمنگ انڈسٹری میں اتنا نام بنایا ہے کہ ان کی گیمز ایک ارب سے زائد مرتبہ ڈاؤن لوڈ کی گئی ہیں۔ سی این این‘ بی بی سی‘ فاکس نیوز‘ فنانشل ٹائمز سمیت پوری دنیا کے تمام بڑے میڈیا ہاؤسز ان کے انٹرویوز کر چکے ہیں۔ یہ ساری کامیابیاں نجی شعبے نے اپنی مدد آپ کے تحت حاصل کی ہیں۔ اب چونکہ حکومت اس میں اپنا حصہ ڈالنے جا رہی ہے تو امید کی جا سکتی ہے کہ مستقبل میں مزید گیمنگ ہیروز پاکستان سے اُبھریں گے اور ملک کا نام روشن کریں گے۔ اگر موجودہ حالات کی بات کی جائے تو نجی شعبے کو گیمنگ سیکٹرز میں بہت سے مسائل بھی ہیں جنہیں ایڈریس کئے جانے کی ضرورت ہے۔ گیمنگ اینڈ اینی میشن ایک مہنگا شعبہ ہے‘ کسی آئیڈیا کو عملی شکل دینے کے لیے نجی شعبے کی طرف سے زیادہ حوصلہ افزائی دیکھنے میں نہیں آتی۔ بہت سے متاثر کن سٹارٹ اپس صرف اس لیے فیل ہو جاتے ہیں کہ فنانشل سپورٹ نہیں ہوتی۔ حکومت پاکستان نے اس حوالے سے بھی پروگرام تشکیل دیے ہیں‘ جن میں سٹارٹ اپ پاکستان پروگرام شامل ہے۔ اس پروگرام کا آغاز یونیورسٹی طالب علموں سے کیا گیا ہے‘ جس میں ٹریننگ کے ساتھ آئیڈیاز کی سپورٹ کے لیے طالب علموں کو پچاس لاکھ روپے تک کا بجٹ دینے کی منظوری دی گئی ہے۔ یعنی اگر کوئی نوجوان گیمنگ یا کسی اور شعبے میں سٹارٹ اپ شروع کرنا چاہتا ہے تو اسے مالی مدد دینے کا بھی بھرپور انتظام کیا گیا ہے۔ عمران خان ملکی معیشت کی بہتری کے اس طرح کے اقدامات اٹھانے پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں