حکومتی حلقوں میں بازگشت ہے کہ گاڑیوں کی فروخت پر پریمیم یعنی اون منی کو ختم کرنے کے لیے اضافی ٹیکس لگایا جا سکتا ہے۔ تجویز یہ ہے کہ نئی گاڑی خریدنے کے تین ماہ تک اگر اسے بیچا جائے تو پچاس ہزار سے دو لاکھ روپے تک اضافی ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔ پہلے خریدار سے دوسرے خریدار کو منتقل کرنے کے لیے یہ قانون لاگو ہو گا‘مگر یہ واضع نہیں کیا گیا کہ دوسرے خریدار سے تیسرے خریدار کو منتقلی کے لیے بھی یہی اصول لاگو ہو گا یا نہیں۔ کیا حکومت یہ قانون نافذ کروا سکے گی ؟ اس کا علم آنے والے دنوں میں ہو جائے گا۔ فی الحال یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اون منی یا پریمیم کیا ہوتا ہے اور اسے وصول کیوں کیا جاتا ہے۔ آئیے سب سے پہلے مارکیٹ کا جائزہ لے لیں تا کہ بات سمجھنے میں آسانی رہے۔
پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں کار خریدنے والے زیادہ اور بنانے والے یا درآمد کرنے والے کم ہیں۔ پاکستان میں اس وقت چار آٹو کمپنیاں زیادہ کام کر رہی ہیں اور ایک اندازے کے مطابق مارکیٹ کا نوے فیصد شیئر بھی انہی کے پاس ہے ‘جبکہ گاڑیوں پر پریمیم ان کی ڈیمانڈ اور سیل کے مطابق ہوتا ہے‘ اس لیے یہ سروے آپ کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔پریمیم یا اون منی دراصل وہ اضافی رقم ہوتی ہے جو فوراً گاڑی خریدنے کے لیے ادا کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر گاڑی کی کمپنی قیمت تیس لاکھ روپے ہے۔ اگر آپ آج بکنگ کروائیں گے تو تین ماہ بعد گاڑی آپ کو مل سکے گی اور اگر فوری گاڑی چاہیے تو پچاس ہزار سے پانچ لاکھ روپے ایکسٹرا ادا کرنا ہوں گے۔ اس رقم کو پریمیم یا اون منی کہا جاتا ہے۔ یہ رقم گاڑی کی انوائس پرائس کے علاوہ ہوتی ہے اور عمومی طور پر کیش میں وصول کی جاتی ہے‘ چیک یا پے آرڈر نہیں بنوایا جاتا تا کہ اس اضافی رقم کی وصولی کا ثبوت سرکار تک نہ پہنچ سکے۔ یہ اضافی رقم نہ تو آپ اپنی ویلتھ سٹیٹمنٹ میں ظاہر کر سکتے ہیں اور نہ ہی ٹیکس ریٹرن میں اس کا اندراج ہو سکتا ہے کیونکہ آپ کے پاس کوئی ثبوت موجود نہیں ہوتا۔ اگر اضافی رقم کا ثبوت حاصل کر بھی لیا جائے تو اس پر انکم ٹیکس ادا نہ کرنے کا اعتراض اُٹھ جائے گا۔ اس اضافی رقم پر انکم ٹیکس بھی ادا کرنا پڑ سکتا ہے لہٰذا اسے ظاہر نہیں کیا جاتا۔ اس کے علاوہ جب آپ گاڑی بیچنے جائیں گے تو اس اضافی رقم کا اس وقت بھی کوئی فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ اس وقت بات یہ چل رہی ہوتی ہے کہ انوائس پرائس کیا ہے نہ کہ آپ نے اصل میں ادائیگی کتنی کی تھی۔
طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ ابتدائی طور پر کچھ رقم بکنگ کے لیے جمع کروائی جاتی ہے جو کہ عمومی طور پر گاڑی کی قیمت کا چوتھا حصہ ہوتی ہے‘ یعنی پچیس فیصد رقم کا پے آرڈر بنا کر جمع کروا دیا جاتا ہے‘ بقیہ ادائیگی ڈیلیوری کی تاریخ سے ایک ماہ قبل کی جاتی ہے۔ ایک ماہ قبل ہی ڈیلر شپ سے سٹاف آپ کو فون کرنے لگتا ہے کہ بقیہ رقم جمع کروا دیں ورنہ گاڑی تاخیر سے ملے گی۔ اکثر اوقات تو ایسا ہوتا ہے کہ اگر آپ نے یہ سب کام مقررہ وقت پر کر بھی دیے ہوں تو بھی گاڑی مقررہ وقت پر نہیں ملتی ۔ بتایا جاتا ہے کہ ڈیمانڈ زیادہ اور سپلائی کم ہے اس لیے مزید انتظار کرنا پڑے گا۔ یہ حالت انتہائی تکلیف دہ ہوتی ہے۔ میں یہاں اپنے قارئین کو بتاتا چلوں کہ حکومتِ پاکستان کے قانون کے مطابق کوئی بھی رجسٹرڈ کار مینوفیکچرنگ کمپنی مکمل رقم وصول کرنے کے ایک ماہ تک گاڑی ڈیلیور کرنے کی پابند ہے۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں کمپنی کو جرمانہ ادا کرنا ہوتا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ لوگ گاڑی تاخیر سے ملنے پر صرف خفا ہوتے ہیں لیکن کوئی عملی قدم نہیں اٹھاتے۔ وہ شاید یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ جو کچھ ہمارے ساتھ ہو رہا ہے یہ ہماری قسمت ہے یا اس خیال میں ہوتے ہیں کہ اتنی بڑی کمپنی کے خلاف کون ایکشن لے گا۔ اگر شکایت کرنے کا ارادہ کر بھی لیں تو یہ علم میں نہیں ہوتا کہ کس ادارے میں شکایت کرنا ہو گی۔ عوامی سست رد عمل کا فائدہ یہ کمپنیاں اٹھاتی ہیں۔ گاڑیوں کی تاخیر سے ڈیلیوری کو باقاعدہ مارکیٹ کرتی ہیں تا کہ یہ تاثر بن سکے کہ فلاں برانڈ کی گاڑی تو مل ہی نہیں رہی۔ اس کی ڈیمانڈ ہی اتنی زیادہ ہے کہ کمپنی آرڈرز پورے نہیں کر پا رہی۔ جیسے ہی یہ تاثربنتا ہے تو پھر اصل کھیل شروع ہو جاتا ہے اور وہ ہے پریمیم یا اون منی کی وصولی۔ اس معاملے میں عوامی نفسیات سے کھیلا جاتا ہے۔ سٹیٹس کے نرغے میں آئے عوام ایسی گاڑی کو خریدنے کے لیے سب سے زیادہ لپک رہے ہوتے ہیں جس کی ڈیلیوری وقت پر نہ ہو رہی ہو اور اس مقصد کے حصول کے لیے وہ گاڑی کی اصل قیمت سے زیادہ رقم دینے کو بھی تیار ہو جاتے ہیں۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کمپنی جان بوجھ کر پروڈکشن کم کرتی ہے یا حقیقت میں اس کی کیپسٹی نہیں ہوتی یا پروڈکشن کر کے ڈیلیوری کرنے میں تاخیری حربے استعمال کیے جاتے ہیں تا کہ اون منی مل سکے؟ جہاں تک کمپنی کی بات ہے تو یہ واضع ہے کہ مینوفیکچرنگ کمپنی کا اون کی رقم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ وہ اتنی ہی رقم وصول کر سکتی ہے جو انوائس پر لکھی ہے‘ اس کے علاوہ اگر وہ کوئی رقم وصول کرے گی تو وہ جرم کے زمرے میں آئے گا۔ سوال یہ ہے کہ پھر یہ رقم جاتی کہاں ہے؟ یہ رقم دو طرح کے لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہوتی ہے‘ ایک ڈیلر شپ اور دوسرا بیرونی انویسٹر۔ صورت حال یہ ہوتی ہے کہ ڈیلر شپ کا کمپنی سے معاہدہ ہوتا ہے کہ اس نے مخصوص تعداد میں گاڑیاں بیچنی ہیں۔ گاڑی بکے یا نہ بکے ڈیلر شپ ادائیگی کر کے گاڑیاں منگوا لیتی ہے ‘جس کے لیے وہ کروڑوں روپے ادا کرتی ہے۔ اب ظاہر ہے کہ جب کروڑوں روپے ادا کیے ہیں تو اس پر منافع کمانے کی خواہش بھی رہتی ہے۔ ڈیلر شپ گاڑیوں کی مصنوعی قلت پیدا کرنے لگتی ہے۔ کوئی بھی کسٹمر گاڑی لینے کے لیے رابطہ کرے تو جواب دیا جاتا ہے کہ گاڑی نہیں ہے۔کسٹمر اگر سنجیدہ ہے تو وہ کوئی راستہ نکالنے کی گزارش کرتا ہے۔ کچھ دیر انتظار کے بعد کمپنی میں بات کرکے راستہ نکالنے کی امید دلائی جاتی ہے۔ پھر کسٹمر کو بتایا جاتا ہے کہ ایک دو گاڑیاں کھڑی ہیں جو کہ ڈیلر شپ مالکان نے اپنے لیے منگوائی ہیں۔ وہ آپ کو مل سکتی ہے لیکن اون ادا کرنا ہو گا۔ گاڑی کی اصل قیمت پر تو بات ہو نہیں سکتی لیکن اون منی پر بحث کی جاتی ہے۔ رقم طے ہونے پر گاڑی کی اصل قیمت عمومی طور پر پے آرڈر سے وصول کی جاتی ہے اور اون منی کی ادائیگی کیش میں ہوتی ہے۔
دوسری طرح کے لوگ بیرونی انویسٹر ہوتے ہیں۔ ان کا ڈیلرشپ مالکان سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ یہ سیلز منیجرز کے ساتھ تعلقات قائم کرتے ہیں اور ان کے ذریعے اون منی کماتے ہیں۔ طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ کوئی بھی شخص اپنے نام پر گاڑی بُک کرواتا ہے۔ جب وہ گاڑی ڈیلرشپ پر پہنچ جاتی ہے تو سیلزمین سے طے کیا جاتا ہے کہ یہ گاڑی بیچ دو۔ چونکہ نئی گاڑی تین ماہ بعد ملنی ہوتی ہے اس لیے فوراً گاڑی خریدنے کے خواہش مند حضرات کو اون منی کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔ انویسٹر سے بات کرکے رقم طے کی جاتی ہے اور جب ڈیل ہو جاتی ہے تو انویسٹر کو بلا کر سائن انگوٹھے کروا لیے جاتے ہیں‘ اور رقم ان کے اکائونٹ میں ٹرانسفر کر دی جاتی ہے۔ یہاں اس بات کی کوئی بندش نہیں ہوتی کہ اصل رقم کا پے آرڈر اور بقیہ رقم کیش میں ادا کی جائے۔ انوسٹرز اور خریدار کا جو بھی معاہدہ ہو جائے وہ قابل قبول ہوتا ہے۔ اس ڈیل میں زیادہ لوگ پیسے کماتے ہیں۔ سب سے پہلے تو سیلزمین کو فائدہ ہوتا ہے۔ جتنی گاڑیاں وہ بُک کرتا ہے ڈیلرشپ کی جانب سے اتنا ہی کمیشن بڑھ جاتا ہے۔ دوسرے مرحلے پر جب بیرونی انویسٹر کی گاڑی اون پر بیچی جاتی ہے تو سیلزمین اس میں سے اپنا کمیشن رکھ لیتا ہے جو عمومی طور پر انویسٹر کے ساتھ طے ہوتا ہے‘ یعنی سیلزمین دونوں اطراف سے پیسے کماتا ہے۔ اس کے بعد انوسٹر بھی اچھے پیسے کما لیتا ہے۔ (جاری)