اون منی سیریز کا یہ چوتھا کالم ہے۔ بہت سے لوگوں نے مجھ سے رابطہ کیا اور اپنے مسائل کے بارے میں بتایا۔ ایسے کئی پہلو سامنے آئے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ایک صاحب بتانے لگے کہ غیر رجسٹرڈ ڈیلرشپس پر لوگوں کو یہ کہہ کر بھی لوٹا جاتا ہے کہ آپ ہمارے ساتھ سرمایہ کاری میں حصہ ڈالیں، آپ پے آرڈر ہمارے پاس جمع کروائیں، ہماری ایک کمپنی ہے جس کے ذریعے گاڑیاں خریدی اور بیچی جاتی ہیں، آپ کی گاڑیاں بھی اس کمپنی کے ذریعے بیچی جائیں گی۔ جیسے ہی پے آرڈر جمع کروایا جائے گا، آپ کو دس ہزار روپے کیش منافع دیا جائے گا اور جب گاڑی بک جائے گی تب پورا منافع دیا جائے گا۔ جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ گاڑی کی ڈیل میں خریدنے والے اور بیچنے والے کو آمنے سامنے بٹھایا جائے گا تب یہی جواب ملتا ہے کہ ضرور بٹھایا جائے گا لیکن جب گاڑی بکنے کا وقت آتا ہے تو مالک سے پوچھا بھی نہیں جاتا اور سودا کر کے گاڑی نکال دی جاتی ہے۔ جو اون منافع وہ بتاتے ہیں‘ چُپ چاپ وہی رکھنا پڑتا ہے کیونکہ جھگڑا کرنے سے نقصان چھوٹے سرمائے دار کا ہی ہوتا ہے۔ سائن‘ انگوٹھوں کے نشان گاڑی کی خرید و فروخت میں کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتے۔ اس کے علاوہ یہ خوف بھی گھیرے رکھتا ہے کہ اگر میرے ساتھ فراڈ ہو گیا تو میں کیا کروں گا کیونکہ نجی ڈیلرز کے پیچھے کار کمپنیوں جیسا نظام تو ہوتا نہیں کہ فراڈ کی صورت میں ان کی سکیورٹی ضبط کر کے عوام کے پیسے واپس کیے جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ نجی کار ڈیلرز کے ہاتھوں لُٹ چکے ہیں۔ میں یہاں ہرگز یہ نہیں کہہ رہا کہ تمام نجی کار ڈیلرز اس طرح دھوکا دہی کرتے ہیں لیکن اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ جب عام آدمی ان کے ساتھ کاروبار شروع کرتا ہے تو بات لڑائی جھگڑوں تک پہنچ جاتی ہے اور اکثر فیصلے تھانہ کچہری اور پنچایتوں میں ہو رہے ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ کار کمپنیوں کی رجسٹرڈ ڈیلر شپس پر جب گاڑیاں آتی ہیں تو انہیں گوداموں یا کھلی جگہ پر کھڑا کیا جاتا ہے۔ اسی دوران کچھ گاڑیوں پر خراشیں آ جاتی ہیں اور رنگ وغیرہ بھی خراب ہو جاتا ہے۔ اس صورتِ حال میں گاڑی پر اون منافع ملنا تو دور، گاڑی کی اصل قیمت ملنا بھی مشکل ہو جاتی ہے۔ اس لیے ڈیلر شپ ان خراشوں کو پینٹ کے ذریعے ٹھیک کرتی ہے اور اکثر نئی گاڑی لینے والے اس پہلو کی طرف دھیان ہی نہیں دیتے کہ ان کی گاڑی پر دوبارہ پینٹ ہوا ہے یا نہیں۔ وہ یہ سوچ کر گاڑی لے جاتے ہیں کہ رجسٹرڈ شو روم سے گاڑی خرید رہے ہیں، پینٹ خراب نہیں ہو سکتا۔ البتہ کچھ تجربہ کار کسٹمرز تفصیلی جائزہ لیتے ہیں اور دھوکا نہیں کھاتے بلکہ گاڑی کے مالک کو بھی شو روم کی چالاکیوں سے آگاہ کرتے ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں سیلز مین پروں پر پانی نہیں پڑنے دیتا اور مالک کو یقین دلاتا ہے کہ گاڑی بلکل ٹھیک ہے۔ میں اسے بیچ کر دکھاؤں گا۔ پھر وہ سادہ لوح افراد اور ناتجربہ کار کسٹمرز کو دوبارہ پینٹ کی گئی گاڑی بیچ دیتا ہے اور اون منی کا حصہ وصول کرتا ہے۔ یاد رکھیے کہ جن ڈیلر شپس کے مالکان اون منی میں سے شیئر نہیں لیتے وہ گاڑی کے ڈیمیج ہونے کی صورت میں سارا ملبہ سیلز مین پر ڈال دیتے ہیں کہ اتنے دن ہو گئے گاڑی آئے، یہ کسٹمر کو ڈیلیور کیوں نہیں کی گئی۔ گاڑی کا نقصان سیلز مین پر ڈال دیا جاتا ہے۔ اس صورتِ حال سے بچنے کے لیے وہ کسی نہ کسی صورت میں گاڑی بیچ ہی دیتا ہے۔ عام آدمی نقصان اٹھاتا ہے لیکن اون منی کا کاروبار کرنے والے فائدے میں رہتے ہیں۔ حالانکہ یہ سراسر دھوکا ہے‘ جس کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے۔
اس کاروبار میں دلچسپ صورتِ حال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب گاڑی کا مالک سیلز مین سے زیادہ ہوشیار ہو اور گاڑی کا کسٹمر خود ہی ڈھونڈ لائے۔ ہوتا یوں ہے کہ سرمایہ دار ایسی کار کمپنی کی رجسٹرڈ ڈیلر شپ پر گاڑی بُک کرواتا ہے جہاں مالک انویسٹرز سے اون منی کا شیئر وصول نہیں کرتے اور گاڑیاں بھی بیس سے پچیس دن کھڑی رہیں تو اعتراض نہیں کیا جاتا۔ جب گاڑی ڈیلیور ہونے میں تین سے چار دن رہ جاتے ہیں تو مختلف آن لائن ویب سائٹس اور سوشل میڈیا فورمز پر گاڑی بیچنے کا اشتہار لگا دیا جاتا ہے۔ یہ اشتہار زیادہ مہنگا نہیں ہوتا۔ پندرہ سو روپے سے لے کر تین‘ چار ہزار روپے تک ایک مہینے کے لیے اشتہار لگ جاتا ہے۔ فون آنے لگتے ہیں‘ ریٹس طے کیے جاتے ہیں۔ یہ کام چونکہ مالک خود کر رہا ہوتا ہے اس لیے ڈیلر شپ کے سیلزمین کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ یہ صورتِ حال سیلزمین کے لیے بہت تکلیف دہ ہوتی ہے۔ تین جگہ سے جو کمیشن اور حصہ ملنا تھا وہ نہیں ملتا۔ اس لیے وہ اس طریقے کو پسند نہیں کرتا لیکن تعلقات برقرار اور خوشگوار رکھنے کے لیے مالک تھوڑا بہت چائے پانی دے دیتا ہے۔ کیونکہ ایک مرتبہ تو اچھا کسٹمر مل گیا لیکن ضروری نہیں کہ ہر بار ایسا ہی ہو۔ اگر کسٹمر نہ ملے تو سیلزمین ہی پہلی اور آخری امید رہ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ جب کسٹمر کو فائنل گاڑی دکھانے کے لیے شو روم لے جایا جاتا ہے تو سیلزمین سے ہی درخواست کی جاتی ہے کہ گاڑی کو اچھی طرح دھلوا کر صاف ستھرا کر کے کھڑی کرے تا کہ کسٹمر کسی قسم کا کوئی اعتراض نہ کر سکے۔
اب ایک نظر ڈیلر شپ کی اقسام، اون منی کا کام کرنے اور معصوم شہریوں کو دھوکا دینے کے طریقہ کار پر ڈال لیتے ہیں۔ پاکستان میں دو طرح کی ڈیلر شپس کام کرتی ہیں؛ ایک کمپنیوں کی رجسٹرڈ ڈیلر شپس ہوتی ہیں جو کمپنی اصولوں کی پابند ہوتی ہیں۔ دوسری قسم نجی شو رومز کی ہے۔ فیکٹری سے گاڑیاں سب سے پہلے رجسٹرڈ ڈیلر شپس کے پاس اترتی ہیں اور یہاں سے گاڑیاں چلا کر نجی شو رومز والیاپنے شو رومز میں لے جاتے ہیں۔ وہاں جا کر گاڑی کا میٹر پیچھے کر کے ریڈنگ صفر پر لے آتے ہیں۔ جب کسٹمر خریدنے کے لیے آتا ہے تو اس سے نسبتاً تھورا کم اون چارج کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ فیکٹری سے گاڑی سیدھی یہاں آئی ہے۔ عام آدمی کو چونکہ اس پراسیس کا علم نہیں ہوتا لہٰذا وہ دھوکا کھا جاتا ہے اور ایک طرح سے استعمال شدہ گاڑی کو نئی سمجھ اور اون منی دے کر لے جاتا ہے۔
یاد رکھیے کہ ڈیلر شپ سے گاڑی اس وقت تک نہیں نکل سکتی جب تک وہ کسی کے نام پر رجسٹرڈ نہ ہو۔ اگر کوئی شخص ذاتی استعمال کا کہہ کر گاڑی بُک کروا لے اور گاڑی آنے کے بعد پہلی رجسٹریشن کسی اور کے نام سے کروانے کی درخواست دے تو ڈیلر شپ اس کی اجازت نہیں دیتی کیونکہ ان کے مطابق یہ گاڑی اون پر بیچی گئی ہے اور ڈیلر شپ کو حصہ نہیں دیا گیا۔ ڈیلر شپ کی بلیک میلنگ سے بچنے کے لیے لوگ اپنے نام پر گاڑی رجسٹرڈ کروا کر اور اسے نمبر پلیٹ لگوا کر ڈیلر شپ سے نکلوا کر لے جاتے ہیں۔ اپنے شو روم پر لے جا کر نمبر پلیٹ اتار کر گاڑی کھڑی کر دی جاتی ہے۔ میٹر پیچھے کروایا جاتا ہے اور رجسٹرڈ کروانے کی ڈیل کر کے گاڑی بیچی جاتی ہے۔ یہ طریقہ بھی کافی فائدہ مند رہتا ہے۔ گو کہ اون نسبتا کم ہوتا ہے لیکن ڈیلر شپ پر گاڑی بیچنے کی نسبت زیادہ پیسے بچ جاتے ہیں کیونکہ اس میں اون منی کی طرح چالیس فیصد حصہ نہیں دینا پڑتا۔ مثال کے طور پر باہر لا کر گاڑی تین لاکھ اون منی کے بجائے ڈھائی لاکھ میں بیچ دی جاتی ہے۔ اگر ڈیلر شپ میں بیچیں تو چالیس فیصد حصہ دینے کے بعد تقریباً ایک لاکھ اسی ہزار روپے بچتے ہیں یعنی ستر ہزار روپے کا خالص منافع۔ اس سیریز کے اگلے اور آخری کالم میں مذکورہ مسائل کا حل پیش کروں گا۔ (جاری)