مہنگائی، سینیٹ الیکشن، خسارہ اور بابوؤں کی موجیں

پاکستان ادارۂ شماریات کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق ماہِ فروری میں مہنگائی کی شرح آٹھ اعشاریہ سات فیصد تک بڑھ گئی جو پچھلے چار ماہ میں سب سے زیادہ تھی۔ اگر پی بی ایس حالیہ رپورٹ نہ بھی جاری کرتا تو سینیٹ الیکشن میں ہونے والی تجارت سے بھی مہنگائی کا اندازہ ہو جانا تھا۔ البتہ عمومی مہنگائی زیادہ ہوئی ہے یا ضمیر کی قیمت بڑھی ہے‘ یہ طے کرنا ابھی باقی ہے۔ ہم بھی کس قدر بے حس معاشرے کا حصہ ہیں جہاں سرعام عوامی نمائندے خریدے اور بیچے جاتے ہیں لیکن کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کوئی ایکشن لینے والا نہیں‘ کوئی انہیں عدالت میں لے کر جانے والا نہیں اور کوئی یہ تک کہنے کو تیار نہیں کہ آپ نے غلط کیا ہے بلکہ الٹا مبارکبادیں بانٹی جا رہی ہیں کہ ریٹ اچھا لگ گیا ہے‘ جیسے مویشی منڈی میں جانوروں کا ریٹ لگا ہو۔ آج تک یہ بات سمجھ نہیں آ سکی کہ اسے ہارس ٹریڈنگ یعنی گھوڑوں کی تجارت کیوں کہا جاتا ہے۔ حالانکہ ان میں گھوڑوں والی ایک بھی خوبی نہیں۔ اگر اسے بکروں کی تجارت کا نام دیں تو شاید زیادہ مناسب رہے لیکن عام آدمی کو اس سب سے کیا لینا دینا۔ اس کے تو مسائل ہی کچھ اور ہیں۔ ایک ماہ میں مہنگائی میں تین فیصد اضافے نے عوام کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ کھانا تین وقت کے بجائے دو وقت کر دیا جائے تا کہ محدود بجٹ میں پورا مہینہ گزر سکے۔ ذہن نشین رکھیں کہ جنوری میں یہ شرح پانچ اعشاریہ سات فیصد تھی جس پر حکومت نے خوب شادیانے بجائے تھے۔ وزیراعظم صاحب نے تقریر بھی کی تھی اور اسد عمر صاحب نے قوم کو مبارک باد دی تھی کہ جب ہم نے حکومت سنبھالی تو مہنگائی کی شرح پانچ اعشاریہ آٹھ فیصد تھی‘ ڈھائی سال بعد اسے ایک فیصد نیچے لانا حکومت کی بڑی کامیابی ہے۔ میری محترم وزیر سے گزارش ہے کہ آج بھی پریس کانفرنس کریں اور بتائیں کہ اب اس ناکامی کا ذمہ دار کون ہے۔
ادارۂ شماریات کی رپورٹ کے مطابق‘ ایک سال میں بجلی کی قیمتیں 43 فیصد بڑھی ہیں۔ گندم، آٹا چینی سمیت اشیا خور ونوش کی قیمتوں میں 'ڈبل ڈیجٹ‘ اضافہ ہوا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مہنگائی کے اعداد وشمار جاری ہونے سے تین دن پہلے ہی وزارتِ خزانہ نے بتایا تھا کہ ماہِ فروری میں مہنگائی کی شرح پانچ اعشاریہ پانچ فیصد سے سات اعشاریہ پانچ فیصد تک رہے گی‘ یعنی وزیر خزانہ کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ بات بہت آگے بڑھ چکی ہے۔ اب بھی یہی تسلی دی جا رہی ہے کہ آنے والے دنوں میں مہنگائی میں کمی واقع ہوجائے گی اور مسلسل یہی تلقین کی جا رہی ہے کہ سب سے پہلے تو عوام نے گھبرانا نہیں ہے۔ حکومت کو شاید علم نہیں ہے کہ فوڈ انفلیشن شہروں میں دس اعشاریہ آٹھ فیصد ہو چکی ہے جو ایک ریکارڈ ہے۔ ایک ماہ میں انڈوں کی قیمت میں اڑتالیس فیصد، چکن میں چھتیس فیصد اور آئل میں پندرہ فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ جب بھی حکومتی عہدیداران سے بات کی جائے تو وہ اس کا ذمہ دار عالمی منڈی میں تیل و گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو قرار دیتے ہیں۔
اگر تجارتی خسارے کی بات کی جائے تو ماہِ فروری میں پچھلے سال ماہِ فروری کی نسبت چوبیس فیصد اضافہ ہوا ہے جو دو اعشاریہ پانچ بلین ڈالر بنتا ہے۔ یہ لگاتار دوسرا مہینہ ہے جس میں برآمدات کم ہو رہی ہیں۔ برآمدات میں کمی کی یہ صورتحال صرف ماہِ فروری کی نہیں‘ بلکہ جنوری میں بھی تجارتی خسارے میں اضافہ دیکھا گیا تھا۔ دسمبر 2020ء میں حکومتی عہدیداروں نے سوشل میڈیا اکائونٹس اور کچھ الیکٹرانک میڈیا ہائوسز پر بھرپور کمپین لانچ کی تھی جس میں بتایا جا رہا تھا کہ برآمدات بڑھ گئی ہیں، درآمدات کم ہو گئی ہیں اور روپیہ مضبوط ہو رہا ہے۔ وزیراعظم کے مشیر جناب رزاق دائود صاحب نے اس موقع پر عوام کو کتنی ہی مبارکبادیں دی تھیں۔ میں نے اس وقت بھی نشاندہی کی تھی کہ یہ صرف اعداد وشمار کا گورکھ دھندا ہے اور کچھ نہیں ہے۔ میڈیا پر تشہیر کے لیے آدھا سچ بتایا جاتا ہے تا کہ یکطرفہ مشہوری ہوتی رہے لیکن کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے سے اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ بلی آپ کو نہیں کھائے گی تو یہ فقط آپ کی غلط فہمی ہے۔ پچھلے سال برآمدات میں ہونے والا اضافہ دراصل روپے کی قدر گرنے کے اثرات کے باعث تھا۔ اس کے علاوہ سب سے زیادہ اضافے کا دعویٰ ٹیکسٹائل برآمدات میں کیا گیا تھا جس کی اگر سالانہ اوسط نکال لی جائے تو وہ آٹے میں نمک کے برابر تھا بلکہ 2020ء کی ٹیکسٹائل برآمدات 2019ء کی ٹیکسٹائل برآمدات سے کم تھیں، لیکن حکومت کی طرف سے عوام کو محض دسمبر کے مہینے کے اعداد وشمار بتا کر گمراہ کیا جاتا رہا۔ شاید یہ ادھورا سچ ہی ہم عوام کے مقدر میں لکھا ہوا ہے کہ جو بھی آتا ہے، قوم کو ادھورا سچ بتا کر ندھیرے میں ہی رکھتا ہے۔
اگر پچھلے چار سالوں کا حساب سامنے رکھیں تو آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ مسلم لیگ (ن) کے دور میں بھی برآمدات اوسطاً دو بلین ڈالر رہی ہیں بلکہ کچھ مہینوں میں دو اعشاریہ تین بلین ڈالرز تک بھی ریکارڈ کی گئیں۔ تحریک انصاف کی حکومت میں روپے کی قدر میں تیس فیصد کمی ہونے کے باوجود بھی برآمدات دو بلین ڈالر ہی ہیں۔ اگر موجودہ حکومت پچھلے تسلسل کو برقرار رکھتی تو اس وقت برآمدات دو ارب تیس کروڑ ڈالر ہونی چاہیے تھیں۔ اگر مزید باریکیوں میں جایا جائے تو ایک نظر ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کو دی گئی سبسڈیوں پر بھی ڈال لیتے ہیں۔ عمومی طور پر انڈسٹری کو بجلی کا ایک یونٹ پچیس سے تیس روپے کا چارج ہوتا ہے جبکہ ٹیکسٹائل سیکٹر کو یہ یونٹ نو روپے میں ملتا ہے۔ حکومت کو ایک یونٹ تقریباً سات روپے میں پڑتا ہے‘ دو روپے منافع پر یہ یونٹ ٹیکسٹائل کو بیچا جاتا ہے جبکہ باقی انڈسٹری سے تئیس روپے منافع چارج کیا جاتا ہے۔ اتنی دریا دلی کے بعد بھی ٹیکسٹائل برآمدات کا نہ بڑھنا انتہائی مایوس کن ہے۔ باقی شعبوں میں بھی حالات ایسے ہی ہیں لیکن ان کا جواز بھی درست ہے کہ حکومت نے ہمیں دیا ہی کیا ہے۔ سب کچھ ٹیکسٹائل کو ہی دیا ہے اب ان سے پوچھیں‘ ہم سے نہیں۔
ان حالات میں حکومت نے وفاقی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں پچیس فیصد اضافے کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا ہے۔ ایسا کون سا کارنامہ کر دیا ہے سرکاری ملازمین نے کہ ان کی تنخواہیں بڑھانے کی ضرورت پیش آ گئی۔ ایک طرف بجٹ خسارہ بڑھتا جا رہا ہے، برآمدات کم ہو رہی ہیں، ملک چلانے کے لیے نئے قرض لینے کی فہرستیں تیار ہو رہی ہیں اور دوسری طرف سرکاری بابوؤں کی موجیں لگا دی گئی ہیں۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ سب ایک جیسے ہوتے ہیں لیکن سرکاری افسران کا حال وہ لوگ بہتر جانتے ہیں جن کا سرکاری محکموں سے پالا پڑتا رہتا ہے۔ یکم مارچ کو یہ تحفہ ان کے حضور پیش کیا گیا۔ حکومت سے گزارش ہے کہ جس رفتار سے آپ سرکاری ملازمین پر مہربانیاں کر رہے ہیں اسی رفتار سے کبھی ان کی کارکردگی کی رپورٹ بھی لے لیا کریں۔ وہ کتنے گھنٹے دفتر بیٹھتے ہیں، کتنا کام کرتے ہیں اور کتنی تیزی سے ان کے اثاثوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ امید ہے کہ اس رپورٹ کے آنے کے بعد ان کی تنخواہیں بڑھانے کا فیصلہ فی الفور واپس لے لیا جائے گا۔ عجب بات ہے! کسی پرائیوٹ کمپنی میں روزانہ کی بنیاد پر پرفارمنس ایویلیوایشن ہوتی ہے‘ جو ملازم فائدہ مند ثابت نہیں ہو رہا ہوتا‘ اسے نکالنے میں دیر نہیں کی جاتی جبکہ کارِ سرکار میں نظام الٹا ہے۔ جو جتنا بے کار ہے‘ اس کی اتنی بڑی تنخواہ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ مال مفت دل بے رحم والا معاملہ ہے۔ اگر ملک کو حکومت اور وزرا اپنی ذاتی کمپنی کی طرح چلائیں تو شاید کبھی اس غلطی کا ارتکاب نہ ہو۔
موجودہ حالات کے پیش نظر کوئی نہیں بتا سکتا کہ ملک کس سمت چل رہا ہے۔ شاید سمت کا تعین ابھی تک ہوا ہی نہیں‘ البتہ بہتری کی امید وابستہ رکھنے کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ بھی نہیں ہے۔ مایوسی کفر ہے اور اللہ سے اچھے کی امید ہی رکھنی چاہیے کہ حالات جلد بہتر ہو جائیں گے۔ زیادہ منفی سوچیں پالنے اور ڈپریشن میں جانے سے بہتر ہے کہ مثبت سوچیں؛ تاہم اگر خوش رہنے کا کوئی دوسرا راستہ آپ کے پاس ہے تو ضرور بتائیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں