پاکستانی معیشت آئی ایم ایف کی نظر میں

پاکستان کے لیے چھ ارب ڈالر کا مالی پیکیج بحال کرنے کے دو ہفتے بعد آئی ایم ایف نے پاکستان سے متعلق رپورٹ جاری کی ہے جس میں معیشت کے تقریباً تمام پہلوؤں کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کا سب سے اہم ہدف ٹیکس اکٹھا کرنا ہے۔ پچھلے سالوں میں جو ہدف دیے گئے تھے وہ حاصل نہیں ہو سکے تھے۔ اگلے سال کا ٹیکس ہدف ممکنہ طور چھ کھرب روپے ہے جسے مکمل کرنے کی یقین دہانی حکومت پاکستان نے کروا رکھی ہے۔ یہ ہدف پچھلے سال کی نسبت 27 فیصد زیادہ ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس یقین دہانی کی بنیاد نظام کی درستی پر ہے یا پرانے ٹیکسوں کے اوپر نئے ٹیکس لگانے ہیں؟ آئی ایم ایف کی دستاویزات کے مطابق انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس میں اضافہ ہدف حاصل کرنے کا بڑا ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے شعبوں میں ٹیکس چھوٹ کو ختم کیا جا رہا ہے۔ تنخواہ دار طبقے کی آمدن سے زیادہ ٹیکس کاٹا جائے گا اور سیلز ٹیکس چھوٹ ختم ہونے سے اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہو جائے گا۔ مالی سال 2022ء کے لیے پٹرولیم مصنوعات سے ٹیکس کولیکشن کا ہدف 607 ارب روپے ہے۔ موجودہ مالی سال کا ہدف 450 ارب روپے تھا۔ کم ہدف کی وجہ کورونا تھا۔ اس سال کاروبار بند ہونے سے فیکٹریوں اور دیگر صنعتوں میں تیل کی کھپت بھی کم رہی۔ اس کے علاوہ پوری دنیا میں تیل کی قیمتیں نچلی ترین سطح پر آ گئی تھیں لیکن نومبر 2020ء کے بعد حالات بہتری کی جانب جانا شروع ہو گئے جس کے پیش نظرعالمی مالیاتی ادارے نے ہدف کو بڑھا کر 511 ارب روپے کر دیا ۔ اگلے مالی سال کا ممکنہ بجٹ سات اعشاریہ سات کھرب روپے ہو سکتا ہے۔ اگر ترقیاتی کاموں کے بجٹ کی بات کریں تو 626 ارب روپے اس کے لیے مختص کئے گئے ہیں جو کہ تقریبا ًپٹرولیم ٹیکس کے برابر بنتے ہیں‘ لیکن آئی ایم ایف کے مطابق حکومت پاکستان تیسرے سال کا ٹیکس ٹارگٹ بھی پورا نہیں کر سکے گی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اگلے سال کی ٹیکس آمدن کا آدھے سے زیادہ حصہ قرضوں اور سود کی ادائیگی میں چلا جائے گا۔
میمو رنڈم آف اکنامک اینڈ فنانشل پالیسیز کے مطابق پاکستان نے ہمیشہ کی طرح tax base کو بڑھانے اور ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو کو بہتر کرنے کا وعدہ کیا ہے۔MEFP ایک پالیسی ڈاکومنٹ ہوتا ہے جو وزیر خزانہ اور گورنر سٹیٹ بینک بورڈ میٹنگ سے پہلے آئی ایم ایف کو جمع کرواتے ہیں جس میں وہ وعدے درج ہوتے ہیں جن کے بدلے آئی ایم ایف قرض کی منظوری دیتا ہے۔ اس دستاویز کے مطابق مالی سال 2022ء میں انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس کے ریٹس تبدیل کر دیے جائیں گے جس سے جی ڈی پی کا 1.1 فیصد یا 570 ارب روپے ٹیکس اکٹھا ہو گا۔ اس کے علاوہ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی اور کسٹم ڈیوٹی میں بھی اضافہ کیا جائے گا جس سے عوامی ٹیکس کا بوجھ 700 ارب روپے تک بڑھ جائے گا۔یہ بھی یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ شیڈول پانچ کے تحت جن چیزوں پر ٹیکس ریٹ صفر ہے وہ ختم کر دیا جائے گا اور نارمل ٹیکس ریٹ لگایا جائے گا۔ ان میں برآمدات اور کیپٹل مشینری جیسی اشیا شامل نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ شیڈول آٹھ کے تحت جن اشیا پر سیلز ٹیکس کم ہے انہیں بھی سٹینڈرڈ سیلز ٹیکس ریٹ پر لایا جائے گا۔اس کے علاوہ شیڈول چھ کے تحت جو ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے وہ بھی ختم کر دی جائے گی اور 17 فیصد سیلز ٹیکس چارج کیا جائے گا۔ ادویات‘ کھانے پینے کی بنیادی چیزوں‘ گوشت اور صحت سے متعلق کچھ اشیا پر ٹیکس چھوٹ موجود رہے گی۔ رپوٹ کے مطابق حکومت نائن شیڈول بھی ختم کرنے جارہی ہے جس سے موبائل فونز پر خصوصی ٹیکس ریٹ ختم کر کے اسے بھی 17 فیصد پر لایا جائے گا۔ جنرل سیلز ٹیکس قانون میں تبدیلیوں سے سالانہ بنیادوں پر جی ڈی پی کا صفر اعشاریہ سات فیصد یا 390 ارب روپے مزید ٹیکس آمدن حاصل ہو سکے گی۔ انکم ٹیکس کے حوالے سے ٹیکس بریکٹ گیارہ سے کم کر کے پانچ کر دی جائے گی اور انکم سلیب کا سائز کم کر دیاجائے گا۔ وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ اس سے ٹیکس کا نظام سادہ اور آسان ہو سکے گاجس سے جی ڈی پی کا صفر اعشاریہ چار فیصد یا 208 ارب روپے ٹیکس اکٹھا ہو سکے گا۔
آئی ایم ایف کے مطابق شرح نمو ایک اعشاریہ پانچ فیصد رہے گی جبکہ حکومت پاکستان کے مطابق شرح نمو دو اعشاریہ ایک فیصد رہے گی جبکہ سٹیٹ بینک کے مطابق شرح نمو تین فیصد رہے گی۔ اگر ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ پر نظر ڈالیں تو یہ شرح ایک اعشاریہ تین فیصد رہے گی۔ اب کون درست کہہ رہا ہے اور کون غلط اس کا اندازہ آنے والے دنوں میں ہو جائے گا‘ لیکن زیادہ امکانات آئی ایم ایف کے اعدادوشمار درست ہونے کے ہیں۔ یاد رہے کہ مالی سال 2020ء کے لیے شرح نمو منفی 4فیصد تھی۔تقریباً دنیا کے تمام ممالک 2020ء میں شرح نمو کے حوالے سے متاثر ہوئے تھے‘ پاکستان بھی ان میں سے ایک ہے۔ کورونا کے باعث پیدا ہونے والی صورتحال معیشت کا درست اندازہ لگانے کے لیے مناسب نہیں ہو سکتی لہٰذا یہ دعویٰ درست نہیں ہے کہ منفی چار سے مثبت ایک اعشاریہ پانچ شرح نمو ہو جانا کامیابی ہے۔ نارمل حالات میں ایسا ہونا بہتر پالیسی قرار دیا جا سکتا ہے لیکن غیر معمولی حالات رائے قائم کرنے کے لیے موزوں نہیں ہوتے۔آئی ایم ایف ورلڈ اکنامک آؤٹ لک 2021ء کے مطابق گلوبل اکانومی پانچ اعشاریہ پانچ فیصد کے حساب سے بڑھے گی۔انڈیا میں شرح نمو گیارہ اعشاریہ پانچ فیصد‘چین میں آٹھ اعشاریہ ایک فیصد‘ ملائیشیامیں سات فیصد‘ ترکی چھ فیصد‘ فرانس پانچ اعشاریہ پانچ فیصد‘امریکہ پانچ اعشاریہ ایک فیصد‘ میکسیکو چار اعشاریہ تین فیصد اورنائجیریا میں ایک اعشاریہ پانچ فیصد رہے گی‘ یعنی پاکستان اور نائجیریا شرح نمو کے حوالے سے ایک صف میں کھڑے ہیں جو کہ تشویشناک بات ہے۔ بھارت کی گروتھ سب سے زیادہ دکھائی گئی ہے۔جس کی وجہ مستقبل کے حوالے سے بہتر معاشی پالیسیاں بتائی جاتی ہیں۔ اس میں کسی حد تک بھارتی کورونا ویکسین کی تیاری اور فروخت کا بھی عمل دخل دکھائی دیتا ہے۔
پا کستان میں بے روزگاری کے حوالے سے بھی رپورٹ کے دعوے زیادہ اچھے نہیں ہیں۔آئی ایم ایف کے مطابق موجودہ سال بے روز گاری میں ڈیڑھ فیصد اضافہ ہو گا۔کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کا ایک اعشاریہ پانچ فیصد رہے گا لیکن حکومت پاکستان کے مطابق ایک اعشاریہ چھ فیصد تک جائے گا۔ یہاں آئی ایم ایف پاکستان کی نسبت بہتر حالات کی پیش گوئی کر رہا ہے جو کہ عموماً کم ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق اگلے سال کی شرح نمو بھی چار فیصد رہنے کی امید ظاہر کی گئی ہے جو کہ حکومت پاکستان کے اعداد سے مطابقت رکھتی ہے جبکہ اس پر ورلڈ بینک کی رائے زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہے‘ لیکن وزیر خزانہ حماد اظہر اگلے سال کے لیے بہت پر امید نظر آتے ہیں۔ جب وہ صنعت اور پیداوار کے وفاقی وزیر تھے تو لارج سکیل مینوفیکچرنگ یونٹس کی پیداوار میں تقریباً سات فیصد اضافہ ہوا تھا۔ اس کے علاوہ ایف اے ٹی ایف میں بھی ان کی کارکردگی حوصلہ افزا رہی ہے۔ایف اے ٹی ایف کی شرائط پر من و عن عمل کروانا اور بین الاقوامی میٹنگز میں پاکستان کا کامیابی سے دفاع کرنا ایک مشکل کام ہے جسے ماضی میں بہتر طریقے سے سرانجام دیا گیا ہے۔ شایدیہی وجہ ہے کہ انہیں خزانہ کی وزارت دی گئی ہے۔ ہم دعا گو ہیں کہ وزیر خزانہ کے اعدادوشمار درست ثابت ہوں اور آنے والے دن کامیابی اور خوشی کا پیغام لے کر آئیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں