ورلڈ بینک سے مزید قرض اور سخت شرائط

یہ بات بہت پریشان کن ہے کہ اس وقت پاکستانی معیشت قرضوں کی بدولت چل رہی ہے۔ اس سے بھی زیادہ تشویش ناک صورتحال یہ ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ قرضوں کی مقدار بڑھتی جا رہی ہے۔ خاص طور پر آئی ایم ایف کے پانچ سو ملین ڈالرز وصول ہونے کے بعد قرضوں کا گراف یکدم اوپر گیا ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ ہر ملک قرض لیتا ہے‘ حتیٰ کہ امریکا کی معیشت بھی قرضوں کے سہارے کھڑی ہے۔ اگر امریکا تمام ممالک سے لیا گیا قرض واپس کر دے تو اس کی اکانومی کریش کر جائے گی۔ یہ بات درست ہے لیکن پاکستان جیسے ملک کے لیے یہ مزید قرض لینے کی دلیل نہیں ہو سکتی۔ امریکا جو قرض لیتا ہے وہ ملک کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے اور پچھلے قرضوں کی واپسی کے لیے نئے قرض نہیں لیتا، ملک چلانے کے لیے برآمدات پر انحصار کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا کی بلین ڈالرز کمپنیوں میں سے نوے فیصد سے زائد امریکا میں ہیں جبکہ پاکستان میں نیا قرض پرانے قرضوں کی ادائیگی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ برآمدات بڑھ نہیں رہیں، آمدن کے نئے ذرائع تلاش نہیں کیے جا رہے، بیرونی سرمایہ کاری میں کمی ہو رہی ہے۔ جب کمانے کے راستے بند ہو جائیں تو مانگنے کے راستے کھل جاتے ہیں۔ اس وقت پاکستانی معیشت میں مانگنے کے تقریباً تمام راستے کھل چکے ہیں‘ اب شاید کوئی ایک بھی پہلو ایسا نہیں بچا جہاں سے قرض مل سکتا ہو۔ موٹرویز، ایئر پورٹس، پبلک پارکس، پی ٹی وی اور ریڈیو کی عمارتوں سمیت کئی اثاثوں کو گروی رکھوا کر قرض لیے گئے ہیں۔ جب یہ آپشن کم پڑنے لگے تو بجلی کے ریٹ مہنگے کرنے کا وعدہ کر کے آئی ایم ایف سے مزید قرض لے لیا گیا کیونکہ قرض دینے والا گارنٹی چاہتا ہے کہ اس قرض کی واپسی کیسے ہو گی؟ حکمران یقین دہانی کرواتے ہیں کہ بائیس کروڑ عوام پر ٹیکس لگائیں گے اور اس اضافی ٹیکس سے قرض ادا کر دیں گے۔ یقین دہانی کے لیے قرض ملنے سے پہلے ٹیکس لگا کر وصول کیا جاتا اور عالمی اداروں کو دکھایا جاتا ہے۔ آئی ایم ایف کے قرض کی قسط ملنے سے پہلے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا تھا اور مستقبل میں بھی قیمتیں بڑھانے کا وعدہ کیا گیا ہے۔
اس وقت پاکستان آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک سمیت کئی بیرونی کمرشل بینکوں سے قرض لے چکا ہے‘ انہیں ادا کیسے کرنا ہے‘ اس کی کوئی پالیسی واضح نہیں ہے لیکن ورلڈ بینک سے مزید ڈیڑھ کروڑ ڈالر قرض لینے کی درخواست دائر کر دی گئی جسے مسترد کر دیا گیا۔ بارہا درخواست کے بعد ورلڈ بینک نے انتہائی سخت شرائط پر قرض دینے کی ہامی بھری ہے۔ ان شرائط میں سب سے نمایاں اور تکلیف دہ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی ڈیمانڈ ہے۔ اس کے علاوہ پاور اور ٹیکس پالیسیز کو بدلنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ جون 2021ء تک بجلی کی فی یونٹ قیمت میں ایک اعشاریہ انتالیس اور جولائی 2021ء تک دو اعشاریہ اکیس روپے فی یونٹ اضافے کی شرط رکھی گئی ہے۔ یاد رہے کہ آئی ایم ایف سے بھی اسی شرح سے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا وعدہ کیا جا چکا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کو اب کس مقصد کے لیے قرض چاہیے۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق حکومت پاکستان جون 2021ء تک بجٹ سپورٹ کی مد میں تین قرضے حاصل کرنا چاہتی ہے۔ آر آئی ایس ای 2، ایچ آئی ایف ٹی 2 اور پی اے سی ای پروگراموں کے تحت ٹوٹل 1500 ملین ڈالر قرض کی درخواست کی گئی ہے۔ ہر ایک پروگرام سے 500 ملین ڈالر قرض وصول ہو گا۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق یہ مالی سال 2021ء کے27 بلین ڈالرز کے بیرونی قرضہ جات کا حصہ ہے۔ حماد اظہر جانے سے پہلے اس ایشو پر تفصیلی میٹنگ کر چکے ہیں لیکن ان مسائل سے نکلنا کیسے ہے‘ اس حوالے سے کوئی لائحہ عمل طے نہیں کیا گیا بلکہ سارا زور اس بات پر ہے کہ کسی بھی قیمت پر قرض حاصل کیے جائیں۔ نتیجتاً سٹیٹ بینک کے 16 ارب ڈالر کے بیرونی کرنسی کے ذخائر قرضوں پر کھڑے ہیں۔ گیارہ ارب ڈالر کے قرض چین سے لے رکھے ہیں۔ ان حالات میں امید کی ایک کرن بیرونِ ملک پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی ترسیلاتِ زر ہیں جو مسلسل گیارہ مہینوں سے دو ارب ڈالر سے زیادہ ہیں۔
ورلڈ بینک کو فی الحال یہ بتایا گیا ہے کہ اس طرح کی سخت شرائط آئی ایم ایف نے بھی رکھی تھیں جن پر نظر ثانی کی جا رہی ہے لیکن آئی ایم ایف کی ترجمان کے مطابق ابھی تک حکومت پاکستان نے ایسی کوئی باضابطہ درخواست جمع نہیں کرائی ہے۔ نئے وزیر خزانہ شوکت ترین صاحب کی تعیناتی کی ایک بڑی وجہ ان کی آئی ایم ایف پروگرام اور طے کیے گئے نئے معاہدوں پر تنقید بھی ہے۔ ان کے مطابق بہت سخت شرائط پر قرض بحال کروائے گئے ہیں جن کی بظاہر کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اب دوبارہ معاہدے کیے جائیں گے۔ بظاہر یہ بات خوش آئند ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پچھلے معاہدے کیسے فائنل ہو گئے؟ کیا وزیراعظم سے پوچھے بغیر ہی معاملات طے کر لیے گئے؟ عملی طور پر اس طرح کے ایشوز ایک دن میں فائنل نہیں ہوتے بلکہ کئی مہینوں تک ان پر بات ہوتی ہے۔ کابینہ میں انہیں ڈسکس کیا جاتا ہے، میڈیا کو بتایا جاتا ہے۔ میں چونکہ اس معاملے پر پہلے دن سے لکھ رہا ہوں اس لیے جانتا ہوں کہ بجلی کی قیمتیں بڑھانے کا شور کئی مہینے پہلے سے مچایا جا رہا تھا۔ وزیراعظم صاحب کو نہ صرف آگاہ کیا گیا تھا بلکہ تفصیلی مشاورت کے بھی کئی دور ہوئے۔ اس کے علاوہ کابینہ میں بھی کئی ماہ تک یہ معاملہ زیر بحث رہا۔ اب سارا ملبہ حفیظ شیخ پر ڈال دینا غلط ہے۔ ان تمام لوگوں سے بھی سوال پوچھے جانے چاہئیں جن کی منظوری اور مشاورت سے تمام معاملات طے پائے۔ یاد رہے کہ آئی ایم ایف سے درخواست کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسے منظور بھی کیا جائے گا‘ ممکن ہے کہ زیادہ اصرار کرنے پر بقیہ قسطیں روک لی جائیں، اگر ایسا ہوا تو ورلڈ بینک سمیت دیگر مالیاتی ادارے بھی مزید قرض دینے سے معذرت کر سکتے ہیں۔
ورلڈ بینک نے یہ شرائط بھی رکھی ہیں کہ پورے ملک میں جنرل سیلز ٹیکس کا ایک ہی ریٹ مقرر کیا جائے، جی ایس ٹی ریٹ بڑھانے پر بھی بات ہو رہی ہے، پرائز بانڈز کی خرید وفروخت شناختی کارڈ کے ذریعے کی جائے، پرائز بانڈز رجسٹرڈ کروائے جائیں، ملک بھر میں پیدائش اور اموات کے ریکارڈ کو نادرا سے منسلک کر کے رئیل ٹائم بنیادوں پر اَپ ڈیٹ کیا جائے، مختلف شیڈولز کے تحت دی جانے والی ٹیکس چھوٹ کو ختم کیا جائے، آئی ایم ایف کی شرائط بھی اس سے مماثلت رکھتی ہیں بلکہ بہت سے قوانین میں رعایتیں آرڈیننس جاری کر کے ختم بھی کی جا چکی ہیں جس کا سب سے زیادہ نقصان نئی انڈسٹری لگانے والوں کو ہوا ہے۔ حکومت نے ایک ہی جھٹکے میں آرڈر پاس کر دیا لیکن جن لوگوں نے پرانے قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے درآمدات کے آرڈرز بک کروا رکھے تھے کہ انہیں ٹیکس چھوٹ ملے گی‘ ان کو کھربوں روپوں کا نقصان ہوا ہے۔ جن کمپنیوں نے آرڈیننس جاری ہونے سے پہلے آرڈر بک کرائے ہوئے تھے‘ انہیں ٹیکس چھوٹ دی جانی چاہئے۔ حکومت سے گزارش ہے کہ وہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی چنگل سے نکلنے کا راستہ ہموار کرے۔ قرض لینے پر فوکس کرنے کے بجائے کاروباری طبقوں کو سپورٹ کرنے کی پالیسی اپنائے تاکہ برآمدات میں اضافے کی امید اجاگر ہو اور ملک میں ڈالرز آمدن کے ذریعے آ سکیں نہ کہ قرض کی شکل میں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں