ورلڈ بینک سے مزید 1500 ملین ڈالر قرض لینے سے متعلق میں نے پچھلے کالم میں ذکر کیا تھا‘ پہلے اس حوالے سے آپ کو بتانا ضروری ہے‘ پھر آج کے موضوع کی جانب آؤں گا۔
ورلڈ بینک نے بجلی مہنگی اور ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کے حوالے سے کئی سخت شرائط رکھی تھیں۔ امید یہ کی جارہی تھی کہ عوامی حالات کے پیش نظر صرف 1500 ملین ڈالرز کے لیے حکومت سخت شرائط پر عملدرآمد سے انکار کر دے گی لیکن حالات کسی اور طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ وزراتِ خزانہ کے مطابق حکومت نے ان کی شرائط پر عمل درآمد کرنے کے لیے وقت مانگ لیا ہے۔ شوکت ترین صاحب نے ورلڈ بینک کی منیجنگ ڈائریکٹر آپریشنز سے ورچیول میٹنگ کی ہے جس میں مہلت مانگی گئی ہے کہ جون 2021ء سے پہلے تمام شرائط پر عمل درآمد کر لیا جائے گا‘ لیکن ورلڈ بینک نے کہا ہے کہ جون کے آخری ہفتے میں بورڈ اجلاس ہے جس میں آپ کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے گا اس لیے 10 مئی 2021ء تک مطلوبہ نتائج دیے جائیں۔ یعنی اعتراض صرف وقت پر ہے شرائط پر نہیں‘ لہٰذا پاکستانی عوام مزید مہنگائی کے لیے تیار رہیں۔ آئیے اب آج کے موضوع کی طرف چلتے ہیں۔
حکومت پاکستان جولائی 2018ء سے مارچ 2021ء تک قرضوں کی ادائیگی اور معاشی ترقی کے نام پر 33 ارب ڈالر قرض لے چکی ہے۔جس سے شرح نمو کم ہونے اور ملک کے دیوالیہ ہونے کے امکانات بڑھتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔اگر موازنہ کیا جائے تو تحریک انصاف مسلم لیگ (ن) کے پانچ سالہ دور حکومت میں لیے گئے بیرونی قرضوں کا 78 فیصد سے زائد قرض پونے تین سال میں لے چکی ہے۔انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی ریفارمز نے پچھلے بیس سالوں کے بیرونی قرضہ جات کا جائزہ پیش کیا ہے۔ مالی سال 2021 ء چونکہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے اس لیے مالی سال 2020ء تک کے اعدادوشمار سامنے رکھے گئے ہیں لیکن حقیقی جائز ہ پیش کرنے کے لیے میں آپ کے سامنے مارچ 2021ء تک کے اعدادوشمار رکھ رہا ہوں۔ تحریک انصاف نے32.9 بلین ڈالر قرض لیا ہے۔اس میں یوروبانڈز بھی شامل ہیں۔ 25 ارب ڈالر یا ٹوٹل قرض کا 76 فیصد بجٹ اور بیلنس آف پیمنٹ کے لیے لیا گیا ہے۔سٹیٹ بینک کے ڈیٹا کو سامنے رکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ 15 ارب ڈالر بیرونی عوامی قرضوں میں شامل ہوئے ہیں جس کا مطلب ہے کہ بقیہ رقم قرضوں کی ادائیگی میں استعمال ہوئی ہے۔ جولائی 2020ء سے مارچ 2021ء تک صرف نو ماہ میں دس اشاریہ تین ارب ڈالر قرض لیا گیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے پانچ سالوں میں42.4 ارب ڈالر قرض لیا تھاجس کا 64 فیصد یا 27 ارب ڈالر بجٹ سپورٹ کے لیے حاصل کیا گیا۔پچھلی حکومت نے پانچ سالوں میں تقریباً 24 ارب ڈالر قرض واپس کیا۔
( ن) لیگ اور تحریک انصاف کی حکومتوں نے ریکارڈ قرضے لیے ہیں جس کی وجہ بیرونی سرمایہ کاروں کو ملک میں لانے کے لیے مناسب سہولتیں فراہم نہ کرنا ہے۔ ساری توجہ قرض لینے پر مرکوز رہی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے بھی قرض لینا پڑ رہا ہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ قرض لینے کی خبر کو فخر یہ انداز میں پیش کیا جاتا ہے جبکہ یہ ناکامی کے زمرے میں آتا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی ریفارمز نے بیس سالہ رپورٹ: ''Foreign Aid and Its Purpose: Pakistan must slowdown external borrowing‘‘ میں خطرے کی گھنٹی بجاتے ہوئے حکومت پاکستان کو خبردار کیا ہے کہ اگر کوئی ملک خود قرض دینے کی پیش کش کرتا ہے یا کم شرح سود پر بھی قرض مل رہے ہیں تب بھی مزید قرض لینے سے گریز کریں۔ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ قرضوں اور سود کی ادائیگی ہے۔ بھاری قرضوں کی واپسی کے باوجود واجب الادا قرضوں کا سٹاک بہت زیادہ ہو گیا ہے۔
یاد رکھیے کہ قرض اگر عوامی فلاح کے لیے حاصل کیے جائیں تو ان سے آمدن آنے کی توقع ہوتی ہے اور کسی حد تک قرضوں کی قسطیں اسی میں سے ادا ہو سکتی ہیں‘ لیکن اصل مسئلہ وہ قرض ہے جو بیلنس آف پیمنٹ اور بجٹ سپورٹ کے لیے حاصل کیا جاتا ہے۔ پچھلے دو سالوں میں بجٹ اور بیلنس آف پیمنٹ کا گراف خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ اگر پچھلے دس سال پر نظر دوڑائی جائے تو بیرونی قرض جی ڈی پی کے ایک فیصد سے پانچ فیصد تک بڑھا ہے۔ اگر پچھلے سال کی بات کی جائے تو پرنسپل اور سود کی مد میں دو اشاریہ تین ٹریلین روپے بیرونی قرضوں کی ادائیگی میں خرچ کیے گئے ہیں جو کہ صوبائی اور مرکزی حکومت کے ٹوٹل ڈویلپمنٹ بجٹ سے زیادہ ہے۔
دنیا میں قرض اور ترقی میں براہ راست تناسب ہے لیکن پاکستان میں حساب الٹ ہے۔ جیسے قرض بڑھتے ہیں شرح نمو نیچے گرنے لگتی ہے۔مثال کے طور پر پاکستان نے 2000ء کی پہلی دہائی کے دوران پاکستان نے قرضوں اور امداد کی مد میں زیادہ رقوم حاصل کیں مگر اس دہائی کے دوران اوسط شرح نمو 1980 ء کے مقابلے میں کم تھی‘ جبکہ اِس وقت پاکستان میں شرح نمو درمیانی سطح سے بھی نچلی سطح پر آچکی ہے جبکہ قرضوں کا حجم بالائی حد کو پار کر چکا ہے۔ یہ مؤقف بھی کسی حد تک غلط دکھائی دیتا ہے کہ بیرونی امداد لانگ ٹرم میں فائدہ مند ثابت ہوتی ہیں‘ ترقی پذیر ممالک میں یہ صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ اس پیسے سے کامیاب پروجیکٹ بھی چلائیں اور اس سے حاصل آمدن سے قرض بھی ادا کر سکیں۔ یہ ماڈل ناکام رہا ہے اس لیے اس کو ختم کر دینا چاہیے کیونکہ آئی ایم ایف‘ ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک س معیشتوں کو ابھارنے اور انہیں راہ راست پر لانے میں ناکام رہے ہیں۔
بیرونی ممالک کا امداد یا قرض دینے کا ماڈل بھی کئی خامیوں کا شکار ہے۔ آج سے بیس سال قبل پراجیکٹس یا پروگرامز کے نام پر ڈالر دیے جانے کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ توقع یہ کی جارہی تھی کہ اس میں گورنمنٹ کے کھانچوں سے بچا جا سکے گا‘ لیکن نتیجہ اس توقع کے الٹ نکلا۔ آج بھی پروجیکٹ پر لگنے کی بجائے سرکاری افسران کی جیبوں میں پیسہ جاتا ہے اور اخراجات کو غیر ضروری طور پر بڑھا کر فائلوں کا پیٹ بھرا جاتا ہے۔ جس کا آڈٹ بھی لوکل کمپنیوں سے کرایا جاتا ہے۔ جو فرانزک آڈٹ کی صلاحیت ہی نہیں رکھتیں۔ جہاں تک بات رہ گئی فائلوں کا پیٹ بھرنے کی تو اس میں بیوروکریسی کاکوئی ثانی نہیں ہے۔ اس کی حالیہ مثال ٹڈی دَل کے خاتمے کے لیے حاصل ہونے والی امداد ہے جس کا بڑا حصہ گاڑیاں‘لیپ ٹاپ خریدنے اور نئے افراد کی بھرتی پر خرچ کیا جائے گاجبکہ ٹڈی دَل کے خاتمے کے لیے ادویات اور ریسرچ کی طرف توجہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔سارا فوکس غیر ضروری اخراجات پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ تو پچھلے سال ٹڈی دَل پر قابو پایا جا سکا اور نہ ہی اس سال بہتری کی کوئی امید دکھائی دے رہی ہے۔
مقامی سطح پر کرپشن کے علاوہ بیرونی اداروں کی صلاحیت پر بھی سوالیہ نشان کھڑا ہوتا ہے۔ ایک مرتبہ قرض یا امداد دینے کے بعد دوسری مرتبہ بھی امداد منظور کر دی جاتی ہیں اور پچھلی پرفارمنس کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پرفارمنس ظاہر کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ یہ ایشو بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ قرض دینے والے ادارے اپنی پالیسیز کو لاگو کروانے کے لیے نظام ڈیزائن کر کے دیتے ہیں جبکہ پاکستان جیسے ممالک میں حالات ان پالیسیز کے مطابق سازگار نہیں ہوتے ۔ یہاں وہی پالیسیز زیادہ بہتر چل سکتی ہیں جو مقامی لوگ بنائیں گے کیونکہ وہ زمینی حقائق سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں۔ امریکی ڈویلپمنٹ کے نظام کو پاکستان میں لاگو کرنا مطلوبہ نتائج نہیں دے سکتا۔ اس نظام کی خرابی میں جتنا ذمہ دار قرض لینے والے ہیں اتنے ہی ذمہ دار قرض دینے والے بھی ہیں۔ لیکن زیادہ نقصان قرض لینے والوں کا ہوتا ہے۔ اس لیے حکومت پاکستان سے گزارش ہے کہ قرضوں کی بلند عمارت کھڑی کرنے کی بجائے برآمدات بڑھانے کی طرف توجہ دیں۔ ملک کو بچانے کا آخری حل یہی ہے۔