آجکل بجٹ کا موسم ہے ۔وفاق اور پنجاب کے بعد صوبہ سندھ نے 1477.9ارب روپے کا بجٹ پیش کیا ہے جو کہ پچھلے سال پیش کیے گئے بجٹ سے 19 فیصد زیادہ ہے۔ پچھلے سال 1231 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا گیا تھا۔ بجٹ میں سب سے زیادہ پرکشش تجویز ملازمین کی تنخواہوں میں 20 فیصد اضافہ ہے۔ اپوزیشن اس امر کو سیاست سے جوڑتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی پچھلے نو سالوں سے سندھ میں مسلسل الیکشن جیت رہی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہی سرکاری ملازمین ہیں جو کہ سرکار کے ملازم کم اور پیپلز پارٹی کے پارٹی ورکر زیادہ ہیں۔ یہ پارٹی کی اصل طاقت ہیں۔ دراصل تنخواہیں بڑھا کر وہ پارٹی فنڈ دینے کی بجائے سرکاری خزانے میں سے ہی وظیفہ لگا دیتے ہیں۔ اپوزیشن کا یہ دعویٰ درست ہے یا غلط اس کا فیصلہ عوام نے کرنا ہے۔ اگر ہم سندھ کا عمومی جائزہ لیں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ چاہے سابقہ ایم کیو ایم ہو یا موجودہ پیپلز پارٹی‘سندھ میں سرکاری بھرتیاں سیاسی بنیادوں پر ہوتی رہی ہیں جس کی نشاندہی سپریم کورٹ آف پاکستان بھی کر چکی ہے۔ پچھلے دنوں عدالتی کارروائی کے دوران پتہ چلا تھا کہ ایک شخص سرکاری محکمے میں بھرتی ہوا‘ چند دن بعد بیماری کا بہانہ بنا کر چھٹیاں لیں اور تقریباً دس سال چھٹی میں گزارنے کے بعد ریٹائرمنٹ کی درخواست دے دی۔ ان سالوں میں اسے تنخواہ بھی ملتی رہی اور ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن بھی لگ گئی۔ یعنی پوری زندگی میں ایک ماہ بھی سرکاری نوکری نہیں کی لیکن تنخواہ وصول کرتا رہا اور پھر پنشن کا مطالبہ بھی کردیا۔ یہ صوبہ سندھ کا واقعہ ہے۔ دیگر صوبوں میں اس طرح کے بہت کم واقعات سننے کوملتے ہیں لیکن سندھ میں یہ کثرت سے رپورٹ ہوتے رہتے ہیں لہٰذا تنخواہوں میں غیر معمولی اضافے کو اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
دوسری تجویز جس کا زیادہ شور مچایا جا رہا ہے وہ ترقیاتی بجٹ ہے۔ 329 ارب کا بجٹ سالانہ ترقیاتی پروگرام کے نام پر پیش کیا گیا جو موجودہ مالی سال کی نسبت تقریباً دو گنا زیادہ ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ پچھلے سال کی کسر اس بجٹ میں نکالی گئی ہے جبکہ دوسری طرف عمومی موقف یہ ہے کہ ترقیاتی فنڈ سیاسی مقاصد کو مدنظر رکھ کر جاری کیے جاتے ہیں۔ الیکشن کا سال قریب ہے‘ اس سال پیسہ لگائیں گے تو الیکشن کے سال میں عوام کو کچھ دکھا کر ووٹ مانگنے کے قابل ہو سکیں گے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ بجٹ تو مختص کر دیا لیکن اسے صحیح معنوں میں استعمال کرنے کے لیے کونسی حکمت عملی اختیار کی گئی ہے؟ اگر پرانی روش پر ہی بجٹ خرچ ہونا ہے تو پھر شفافیت کی امید کم ہے۔ پچھلے تیرہ سالوں میں سندھ کی سڑکوں سے لے کر بسوں تک کی حالت انتہائی نازک ہے۔ روشنیوں کا شہر کراچی کوڑا کرکٹ کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکا ہے اور جس لاڑکانہ کے لیے اربوں روپوں کے فنڈ جاری کروائے گئے اس کی حالت بھی انتہائی نازک ہے۔عوام بھوک سے بلک رہے ہیں اور سندھ حکومت عوام دوست بجٹ پیش کرنے کا دعویٰ کر رہی ہے۔
تعلیم کے لیے پچھلے سال بجٹ میں 21.1 ارب روپے مختص کئے گئے تھے جبکہ اس سال 26 ارب روپے رکھے گئے ہیں‘ لیکن یہ پالیسی واضع نہیں کی گئی کہ کس طرح اس سے تعلیم کا نظام اور معیارِ تعلیم بہتر ہو گا؟ زراعت کا بجٹ پچھلے سال 14.8 ارب روپے تھا جو اس سال بڑھا کر15.26 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ یہ اضافہ کم دکھائی دیتا ہے‘ پاکستان کی 80 فیصد سے زائد آمدن کا انحصار زراعت پر ہے۔ رواں سال کپاس کی پیداوار بھی کم رہی اور گندم بھی درآمد کرنا پڑ رہی ہے۔ ان مسائل کے حل کے لیے عملی اقدامات کیے جانے کی ضرورت تھی لیکن یوں محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے گونگلوں پر سے مٹی جھاڑ دی گئی ہو۔ اگر کہا جائے کہ یہ ایک روایتی بجٹ ہے تو غلط نہ ہو گا۔
دوسری طرف اگر صوبہ خیبر پختونخوا کے بجٹ پر نظر دوڑائیں تو ملا جلا ردعمل دیکھنے کو ملتا ہے۔ 1118 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا گیا۔ ضم شدہ اضلاع کے لیے 199 ارب روپے جبکہ دیگر اضلاع کے لیے 999 ارب روپے کا بجٹ تخمینہ ہے۔ اس بجٹ کی بھی سب سے بڑی خبر ملازمین کی تنخواہوں میں مجموعی طور پر 37 فیصد اضافہ ہے جو کہ تمام صوبوں اور وفاق کی نسبت زیادہ ہے۔پنشن میں دس فیصد اضافہ اور ماہانہ کم از کم تنخواہ 21 ہزار روپے رکھی گئی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان ملازمین کی کارکردگی کو سخت معیار پر چیک کیا جاتا ہے یا نہیں؟ کیا ان کے ڈپارٹمنٹس منافع کما رہے ہیں؟ نجی کمپنیاں جب تک منافع نہ کما لیں متعلقہ ڈپارٹمنٹ کی تنخواہیں نہیں بڑھائی جاتیں‘ یہی معیار سرکاری ملازمین کے ساتھ ہونا چاہیے۔ مال ِمفت دل بے رحم والا معاملہ نہیں ہونا چاہیے۔ روایتی بجٹ کی طرح اے ڈی پی کا بجٹ بڑھا کر 371 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ یہ خیبرپختونخوا کی تاریخ کا سب سے بڑا ترقیاتی بجٹ ہے۔ اسے صوبائی وزیر خزانہ نے ڈویلپمنٹ پلس بجٹ قرار دیا ہے جس کی بظاہر وجہ بھی الیکشن ہے۔ بجٹ میں جو مثبت عمل دکھائی دیا وہ چھوٹے کاشتکاروں کے لیے ٹیکس چھوٹ ہے۔ وزیر خزانہ نے تجویز کیا ہے کہ چھوٹے کاشتکاروں کو ریلیف دینے کے لیے لینڈ ٹیکس کی شرح صفر کر دی جائے۔ اس سے تقریباً سات لاکھ کسانوں کو فائدہ ہو گا۔ ملک کی آمدن کا انحصار زراعت پر ہونے کی بنیاد پر دیکھا جائے تو یہ فیصلہ قابلِ تحسین ہے لیکن فائدہ اسی وقت ہو سکے گا جب اس پر صحیح معنوں میں عمل درآمد کیا جائے۔ تعلیم کے لیے 200 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے۔ صوبے میں 2100 سے زائد سکولوں کی تعمیر‘ بحالی اور اپ گریڈیشن کی جائے گی جس سے ایک لاکھ 20 ہزار بچوں کے داخلے کی گنجائش میں اضافہ ہوگا۔یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ ماضی میں صوبہ خیبر پختونخوا میں سینکڑوں سکولوں کو کاغذات کا حصہ بنا دیا گیا جبکہ حقیقت میں ان کا کوئی وجود نہیں تھا۔ اسی طرح ہزاروں بچوں کو طالب علم ظاہر کیا گیا جو کبھی سکول گئے ہی نہیں تھے۔ جب حقیقت کھلی تو متعلقہ سرکاری لوگوں کو ردوبدل کر کے خانہ پری کی گئی۔ نہ ہی احتساب ہوا نہ ہی سخت سزائیں دی گئیں‘ لہٰذا موجودہ بجٹ پر چیک اینڈ بیلنس رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔
صحت کے لیے 142 ارب روپے رکھے گئے ہیں جو کہ حوصلہ افزا ہے۔ صحت کارڈ کی تقریبا ًپورے صوبے میں فراہمی کے پی کے کی بڑی کامیابی ہے جسے سراہے جانے کی ضرورت ہے۔ سی اینڈ ڈبلیو کے لیے 58.789ارب روپے‘ انرجی اینڈ پاور کے لیے17.253 ارب‘ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے لیے ایک 1.9 ارب روپے کی تجویز دی گئی ہے۔ فنانس ڈپارٹمنٹ کے لیے 41.8 ارب تجویز کیے گئے ہیں‘ محکمہ داخلہ کے لیے 91.7 ارب‘ محکمہ صنعت کے لیے پانچ ارب اور محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ کے لیے 1.78 ارب روپے کی تجویز دی گئی ہے۔ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے لیے 2.58 ارب‘ آبپاشی کے 19.9 ارب اور محکمہ سیاحت و کھیل کے لیے20.5 ارب روپے کی تجویز دی گئی ہے۔ سیاحت کے بجٹ کو مزید بڑھائے جانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو امریکی اور برطانوی میگزین نے دنیا کا نمبر ون سیاحتی مقام قرار دیا ہے۔ دنیا اب پاکستان کا رخ کر رہی ہے لیکن انتہائی خوبصورت مقامات مناسب سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے زرمبادلہ کمانے کے قابل نہیں ہیں۔ تھوڑی سی توجہ ملکی معاشی حالات بدلنے کا سبب بن سکتی ہے۔