بجٹ پیش ہونے کے بعد حکومتی حلقوں میں خوشی کا سماں ہے۔ حکمران جماعت کے رویوں سے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ شاید تمام بڑے مسائل حل ہو گئے ہیں اور ملک درست راستے پر چل نکلا ہے۔ وزیر اعظم صاحب فرماتے ہیں کہ برا وقت ختم ہو گیا ہے اور اچھا وقت شروع ہو چکا ہے۔ جس کا ثبوت وہ بجٹ دستاویز کو قرار دیتے ہیں۔ شاید وہ نہیں جانتے کہ بجٹ کے کاغذات اور عوام کی نبض دو مختلف زاویے ہیں جن سے معیشت کو پرکھا جاتا ہے۔ بجٹ ایک تخمینہ ہے جسے جب دل چاہے بدلا جا سکتا ہے اور پاکستان میں بجٹ کو سال میں چار سے پانچ مرتبہ بدلے جانے کی روایت اب عام ہو چکی ہے۔ اس کی عملی مثال حالیہ بجٹ اور اس کے بعد کی گئی تبدیلیاں ہیں۔ پہلے موبائل فون کال‘ انٹرنیٹ اور میسج پر ٹیکس لگا یا گیا‘لیکن بجٹ پیش کرنے کے ایک گھنٹے بعد اسے ہٹا دیا گیا۔اب 25جو ن کو دبارہ موبائل فون کال پر ٹیکس لاگو کر دیا گیا ہے۔اب ہر پانچ منٹ کی کال پر 75پیسے ٹیکس لیا گیا ہے۔تنخواہ دار طبقے پر پہلے کوئی ٹیکس نہیں تھا لیکن اب دس ارب روپے مزید ٹیکس لگانے کی تجویز ہے۔ اعلان کیا گیا کہ فوڈ انفلیشن کم کی جائے گی جبکہ دودھ سے بننے والی اشیا پر سیلز ٹیکس 10فیصد برقرار رکھا ہے۔ پولٹری پر ٹیکس 17فیصد سے کم کر کے 10فیصد کر دیا گیا ہے اور گندم ‘ آٹا پر ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ اس فیصلے پر حکومت کتنی دیر تک قائم رہتی ہے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ میں نے پچھلے کالموں میں اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ حکومت ٹیلی کام ٹیکس کے فیصلے سے جلد یوٹرن لے سکتی ہے جس کی عملی شکل اب ہمارے سامنے ہے۔
آنے والے دنوں میں عوام پر مزید ٹیکس بوجھ ڈالے جانے کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ آئی ایم ایف کو صاف جواب دے دیا گیا ہے‘ اس مرتبہ ان کی کوئی بات نہیں مانی جائے گی۔ 27 میں سے 26 نکات پر عمل کے باوجود ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ پر رکھے جانے کے بعد یہ بات عیاں ہو رہی ہے کہ آئی ایم ایف کو صاف جواب دینے کا یہ پہلا نتیجہ ہے۔ بلکہ چھ مزید نکات تھما دیے گئے ہیں کہ ان پر بھی عمل درآمد کیا جائے۔ جس مدعے پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے وہ منی لانڈرنگ اور دہشت گرد تنظیموں کے مالی معاملات سے متعلق ہیں۔ اس کے علاوہ ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے بھی مزید قرض دینے کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنا شروع کر دی ہیں۔ پاکستان اور ورلڈ بینک کے درمیان بجٹ سپورٹ پروگرام کے تحت 500 ملین ڈالرزکے تین قرضوں پر معاملات طے پائے تھے جس کے تحت 28 جون کو ایک اعشاریہ پانچ بلین ڈالرز پاکستان کو دیے جانے تھے لیکن ورلڈ بینک نے نہ صرف 500 ملین ڈالرز کے ایک قرض کی منظوری روک لی ہے بلکہ موجودہ قسط میں سے صرف 800 ملین ڈالرز ادا کرنے کا پیغام پہنچا دیا ہے۔ اس کے علاوہ ایشیائی ترقیاتی بینک نے توانائی کے شعبے کے لیے طے شدہ 300 ملین ڈالرز کا قرض بھی روک لیا ہے۔ دونوں اداروں کو ملا کر ایک بلین ڈالرز پاکستان کو دینے سے انکار کر دیا گیا ہے۔اس کے علاوہ دیگر ممالک سے جو قرض مانگے جا رہے ہیں وہ بھی التوا کا شکار ہیں۔شاید اسی لیے بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے ملکی اثاثے گروی رکھ کر سکوک باند جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کا ذکر میں نے پچھلے کالم میں کیا تھا۔ اب دیکھنا ہے کہ حکومت کب تک دباؤ برداشت کرتی ہے اور عوام دوست بجٹ عوام دشمن بجٹ میں تبدیل نہیں ہوتا؟
یہ معاملات مستقبل میں کیا رخ اختیار کرتے ہیں اس کا اندازہ چند دنوں میں ہو جائے گا لیکن سیاسی جماعتیں خصوصی طور پر تحریک انصاف آجکل زیادہ خوش ہے کیونکہ پی ٹی آئی نے نئے بجٹ میں یہ تجویز رکھی ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو انکم ٹیکس ریٹرن جمع کروانے سے چھوٹ دی جائے گی‘ یعنی پیسہ کہاں سے آیا اور کہاں خرچ ہو گیا اس بارے ایف بی آر تحقیقات کرنے کا مجاز نہیں ہو گا۔یاد رہے کہ پی ٹی آئی کا فارن فنڈنگ کیس چل رہا ہے جس میں پارٹی کا لائسنس معطل ہونے کے خدشات بھی موجود ہیں‘ مگر اس قانون سے پارٹی کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ یہ تجویز فنانس بل کے ذریعے دی گئی۔ انکم ٹیکس آرڈیننس سیکنڈ شیڈول کے پہلے حصے اور شق 66 کے مطابق جو بھی رقم ٹرسٹ‘ سوسائٹیز‘ فاؤنڈیشن سے حاصل کی جائے گی وہ انکم ٹیکس سے مستثنیٰ ہو گی۔ اب سیاسی جماعتوں کو بھی اس میں شامل کرنے کی تجویز ہے۔ اسلامک نیا پاکستان سرٹیفکیٹ کمپنی‘ عبدالستار ایدھی فاؤنڈیشن‘انڈس ہسپتال‘ پرائیوٹائزیشن کمیشن آف پاکستان‘ فوجی فاؤنڈیشن‘ سکیورٹیزاینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان‘ علی زیب فاؤنڈیشن‘ آڈٹ اوورسائٹ بورڈ‘ میک آ وِش فاؤنڈیشن اینڈ دی سٹیزن فاؤنڈیشن جیسے ادارے اس لسٹ میں شامل ہیں۔ اس لسٹ میں سیاسی جماعتوں کو کس بنیاد پر شامل کیا جائے گا‘ اس بارے کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ فی الحال بظاہر کوئی مضبوط دلیل دکھائی نہیں دیتی۔
پاکستان میں اس وقت 127 سیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ساتھ رجسٹرد ہیں۔ 2020ء میں ان میں سے صرف دو پارٹیوں نے ایف بی آر میں ٹیکس ریٹرنز جمع کروائی ہیں جبکہ 127 پارٹیوں میں سے 27 ایف بی آر میں بھی رجسٹرڈ ہیں۔ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے سیکشن 114 سب سیکشن ایک اے ڈی کے مطابق تمام سیاسی جماعتیں انکم ٹیکس ریٹرن جمع کروانے کی پابند ہیں۔ ان حالات میں عام آدمی سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ قانون کی پاسداری کرے گا جب ملک کی 125 سیاسی جماعتیں آئین کے آرٹیکل پانچ‘ سب سیکشن دو کی خلاف ورزی کر رہی ہوں۔ اس سے زیادہ حیرت اس بات پر ہے کہ ایف بی آر نے ان پارٹیوں کے خلاف کوئی ایکشن بھی نہیں لیا ‘ جو کہ بڑا سوالیہ نشان ہے۔ جبکہ دوسری طرف حکومت ایف بی آر پر زور دے رہی ہے کہ وہ عوام کی ٹیکس معلومات دیگر سرکاری اور نجی اداروں کے ساتھ شئیر کرے جو کہ سیکشن 216 کی خلاف ورزی ہے۔ جس کے مطابق عوام کی ٹیکس معلومات ایف بی آر کے پاس امانت ہیں ۔یہ ایک خفیہ ڈاکومنٹ ہے جو کسی بھی ادارے کے ساتھ شیئر نہیں کیا جا سکتا۔ چیئر مین ایف بی آر نے اس پر سخت ردعمل دیا ہے اور ماننے سے انکار کر دیا ہے لیکن توقع ہے کہ بجٹ منظوری کے دوران اس قانون کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ذرائع کے مطابق اس حوالے سے کافی ورکنگ کی جا چکی ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزیراعظم صاحب کئی مرتبہ یہ اعلان کر چکے ہیں کہ جب تک ملک کا وزیراعظم خود کو احتساب کے لیے پیش نہیں کرے گا اس وقت تک حقیقی تبدیلی نہیں آ سکے گی‘ میں سب سے پہلے خود کو احتساب کے لیے پیش کروں گا‘ لیکن ان کے اعمال ان اعلانات سے مختلف ہیں۔ تین سال سے خود حکومت میں موجود ہیں اورحکمران ہوتے ہوئے الیکشن کمیشن میں فارن فنڈنگ کیس کو التوا میں ڈالنے کے ہر ممکن حربے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ جب بظاہر الیکشن کمیشن کی طرف سے مایوسی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو ایف بی آر کا سہارا لے کر بچنے کی کوشش ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ وزیراعظم فرماتے ہیں کہ مضبوط طبقہ اور مافیا کہتا ہے کہ ان سے نہ پوچھا جائے کہ پیسہ کہاں سے آیا۔ میرے مطابق وزیراعظم صاحب درست کہتے ہیں لیکن اس لسٹ میں تحریک انصاف کا نام بھی شامل کر لیا جائے تو بہتر ہو گا۔