مالی سال 2020-21ء مکمل ہو چکا ہے۔ حکومت دعویٰ کر رہی ہے کہ یہ سال کامیاب گزرا۔ کچھ وزرا یہ کہتے دکھائی دے رہے ہیں کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا بہترین سال تھا جس میں متعدد ریفامز کی گئیں اور بہت سے اہداف حاصل کیے گئے۔ آئیے ایک جائزہ لیتے ہیں کہ حکومتی دعووں میں کتنی سچائی ہے۔ حکومت نے مالی سال کے آغاز پر مہنگائی کا ہدف چھ اعشاریہ پانچ فیصد طے کیا تھا جو پاکستان ادارۂ شماریات کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق‘ سال کے اختتام پر اوسطاً تقریباً نو فیصد ریکارڈ کی گئی۔تحریک انصاف کی حکومت کا یہ مسلسل تیسرا سال ہے کہ وہ اپنے ٹیکس اہداف حاصل نہیں کر پا رہی۔ بجلی، گیس اور خوارک کی قیمتوں میں اضافے کے حکومتی فیصلوں کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے باوجود ورلڈ بینک سے بجلی کی قیمتیں مزید بڑھانے کا وعدہ کرلیاگیا ہے۔ موٹر فیول کی قیمتوں میں ایک سال میں چالیس فیصد اور بجلی کی قیمتوں میں 21.1فیصد اضافہ ہوا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ گندم اور چینی کی مانیٹرنگ کی ذمہ داری خود وزیراعظم صاحب نے لی تھی لیکن ان اشیا کی قیمتوں میں بھی‘ پی بی ایس کے مطابق‘ بالترتیب 19 فیصد اور 21.5 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مہنگائی کی مانیٹرنگ کرنے والوں سے پوچھ گچھ کیوں نہیں کی جا رہی؟ ان سے سوال کیا جانا چاہیے کہ مانیٹرنگ کے لیے کیا اصول و ضوابط طے کیے گئے تھے اور کن بنیادوں پر قیمتوں کو کنٹرول کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا ۔ اگر اقدامات کیے گئے تھے تو اشیا مہنگی کیسے ہو گئیں۔ ناکامی کی وجوہات کیا بنیں، اور سب سے بڑھ کر‘ ان کی ذمہ داری کس کے کاندھوں پر ڈالی جائے۔ اس حوالے سے کوئی رپورٹ سامنے نہیں آئی ہے۔ وزیراعظم صاحب وزرا کی کارکردگی کی بنا پر ان کی وزارتیں تبدیل کرتے رہتے ہیں لیکن مہنگائی میں اضافے کو نہ روک سکنے پر پوری حکومت کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان کھڑا ہو گیا ہے کہ حکومت اعلانات تو بہت سے کر رہی ہے مگر ابھی تک عوام کو ریلیف پہنچانے اور قیمتیں کم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔
حکومت کی جانب سے جس ادارے کی کارکردگی پر سب سے زیادہ داد سمیٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ ایف بی آر ہے۔ آئیے ایک نظر اس کی سالانہ کارکردگی پر بھی ڈال لیتے ہیں۔ ملک چلانے کے لیے آمدن کی ضرورت ہوتی ہے اور حکومتی آمدن عوام کے ٹیکسز ہوتے ہیں۔ ٹیکس اکٹھا کرنے کے محکموں میں سب سے اہم ایف بی آر یعنی فیڈرل بورڈ آف ریونیو ہے۔ مالی سال 2020-21ء کا ٹیکس ہدف 4.963 ٹریلین روپے تھا جبکہ ٹیکس کولیکشن 4.725ٹریلین روپے رہی یعنی ہدف سے 238 بلین کم اکٹھے ہوئے۔ صرف اس سال کی رپورٹ منفی نہیں ہے بلکہ تحریک انصاف کی حکومت کے تینوں سالوں میں ٹیکس اہداف حاصل نہیں کیے جا سکے۔ تین سالوں کا ٹیکس نقصان تقریباً 2.4 کھرب روپے ہے۔ جس کی بنیادی وجہ غیر حقیقی اہداف اور ٹیکس سسٹم میں ریفارمز نہ کرنا ہے۔ ٹیکس ڈپارٹمنٹ میں کوئی ایسی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی جس سے کارکردگی بڑھنے کی امید پیدا ہو سکے۔ صرف اِن ڈائریکٹ ٹیکسز لگا کر ٹیکس اکٹھا کرنے کی سٹریٹیجی اپنائی جاتی ہے۔ اِن ڈائریکٹ ٹیکسز سے چار اعشاریہ سات سو پچیس ٹریلین روپے اکٹھے کیے گئے جو پچھلے مالی سال سے 18 فیصد زیادہ ہیں۔ شاید منافع کی بنیاد پر ٹیکس اکٹھا کرنے کی اہلیت ریونیو کے محکمے میں ختم ہوتی جارہی ہے۔ اس لیے فروخت کی بنیاد پر ٹیکس لگا دیا جاتا ہے یعنی منافع ہو یا نقصان‘ یہ ٹیکس بہر صورت ادا کرنا ہے۔ پروڈکٹ بنانے کے لیے خام مال کی درآمد پر ٹیکس وصول کر لیا جاتا ہے‘ ان طریقوں سے ٹیکس کولیکشن آسان ہو جاتی ہے لیکن اس سے معیشت کمزور اور مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے۔
ایف بی آر کے کچھ اقدامات اچھے بھی ہیں جن کی تحسین کی جانی چاہیے۔ ایف بی آر کے مطابق‘ پچھلے مالی سال کی ریفنڈ کی ایک بھی درخواست ایسی نہیں ہے جس پر کام ہونا باقی ہو۔ جن ایکسپورٹرز نے ریفنڈ کی درخواستیں دے رکھی تھیں‘ وہ تمام کی تمام نمٹا دی گئی ہیں۔ ذرائع کے مطابق محکمے کا یہ دعویٰ بالکل درست ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مالی سال 2007ء سے 2019ء تک کی در خواستیں ابھی تک حل طلب ہیں اور ایکسپورٹرز کو ریلیف نہیں مل رہا۔ ان کے بارے میں سرکار کیا لائحہ عمل اختیار کر رہی ہے؟ کیا صرف ایک سال کی کارکردگی ماضی کی غلطیوں کو چھپا سکے گی؟ دوسری طرف ٹیکس ریفنڈ کرنے اور ٹیکس اکٹھا کرنے میں فرق ہوتا ہے۔ کارکردگی کا معیار ٹیکس اکٹھا کرنا ہوتا ہے نہ کہ ریفنڈ دینا۔ جن کمپنیوں کو ریفنڈ دیا جا رہا ہے وہ ان کا حق ہے۔ مالکان کو پیسہ واپس ملنے پر محکمے کی کاردگی کو کیسے سراہا جا سکتا ہے؟ ریٹ آف ریٹرن کے حساب سے تو یہ نقصان دہ امر ہے۔ اگر وقت پر انڈسڑی کو پیسے مل جاتے تو صنعت کی گروتھ پہلے سے بہتر ہوتی۔ ورکنگ کیپٹل میں مشکلات پیدا نہ ہوتیں اور ٹیکس اہداف بھی حاصل کرنے میں مدد مل سکتی تھی۔
پچھلے سال کی نسبت اس سال زیادہ ٹیکس اکٹھا کرنے کے اسباب کا جائزہ لیں تو علم ہوتا ہے کہ سیلز ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی کے اہداف حاصل ہوئے ہیں جبکہ اِنکم ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے اہداف حاصل نہیں ہو سکے۔ سب سے بری کارکردگی اِنکم ٹیکس میں دیکھی گئی جہاں اوریجنل ہدف سے 322ارب روپے کم اکٹھے کیے گئے۔ تحریک انصاف نے ٹوٹل ٹیکس میں اِنکم ٹیکس کی شرح 45 فیصد حاصل کرنے کا ٹارگٹ طے کیا تھا جبکہ صرف 36.4 فیصد ٹیکس اکٹھا کیا گیا۔ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں 284 ارب روپے حاصل ہوئے جو پچھلے سال کی نسبت 10 فیصد زیادہ ہے لیکن ہدف سے 77 ارب روپے کم ہے۔ ان حقائق کے ساتھ محکمے کی کارکردگی کو بہتر اور آئیڈل قرار دینا اور اس پر خوشی کے شادیانے بجانا عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف نہیں تو اور کیا ہے؟
پچھلے تین سال کے ٹیکس اہداف حاصل نہیں کیے جارہے اور اگلے سال کا ہدف پانچ اعشاریہ نواسی ٹریلین منظور کرلیا گیا ہے۔ ایف بی آر کو نئے مالی سال میں مزید 1.1 ٹریلین روپے 23.4فیصد کی شرح سے حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ پچھلے اہداف کی طرح یہ بھی غیر حقیقی ہدف ہے، جو ایک اندازے کے مطابق‘ حکومت کی صلاحیت سے تقریباً 350 ارب روپے زیادہ ہے۔بدقسمتی یہ ہے کہ اس کے حصول کے لیے بھی اِن ڈائریکٹ ٹیکسز بڑھا کر عوام کا خون چوسنے کی تیاری کر لی گئی ہے۔ پچھلے سال لگائے گئے ٹیکسز نے عوام کی قوتِ خرید کم کر دی ہے اب اگلے سال کے اختتام تک عوام کا معیارِ زندگی کیا رہے گا‘ اس بارے فی الحال کچھ کہا نہیں جا سکتا۔
ادارے کا دعویٰ ہے کہ ٹیکس ہدف حاصل کرنے کے لیے ایڈوانس ٹیکس کا سہارا نہیں لیا گیا اور نہ ٹیکس ریفنڈ کو آمدن بڑھانے کا ذریعہ بنایا گیا ہے بلکہ پچھلے سال کی نسبت زیادہ ٹیکس کا اکٹھا ہو جانا خالصتاً مثبت کوششوں کی بدولت ہے۔ کوئی بھی اہل کمپنی درخواست دے اور چند دنوں میں اس کے پیسے واپس مل جائیں گے۔ یہ قدم ایک رخ سے درست دکھائی دیتا ہے جبکہ دوسرے رخ پر اس میں کافی مسائل دیکھے جا رہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ پر ایف بی آر پر وفاقی حکومت کا دبائو ہے کہ ایکسپورٹرز خصوصاً ٹیکسٹائل والوں کی فائلیں رکنی نہیں چاہئیں۔ اس عمل میں بہت سے حقدار اپنا جائز حق لے کر جارہے ہیں لیکن بہت سی کمپنیاں ایسی بھی ہیں جو مطلوبہ معیار پر پورا نہیں اترتیں لیکن بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ چونکہ فائدہ لینے والوں میں بڑی تعداد سیاسی گھرانوں کی ہے اس لیے پسندیدہ لوگوں کو نوازے جانے کا سلسلہ رکتا دکھائی نہیں دے رہا۔ ادارہ ریفنڈ ضرور دے مگر جانچ پڑتال کا عمل سخت رکھے تا کہ حق داروں کو ان کا حق مل سکے اور حکومتی خزانے کو بھی کوئی نقصان نہ پہنچے وگرنہ آنے والے دنوں میں ایک نیا سیکنڈل اس کا منتظر ہو گا۔