پاکستان کی معاشی ترقی حکومت کی کارکردگی پر منحصرہے۔ حکومت اگر دعوے کرتی ہے تو کام بھی کیا جانا چاہیے۔ امیدوں اور نعروں سے الیکشن تو جیتے جا سکتے ہیں لیکن مسائل حل کرنے کے لیے عملی اقدامات کرنا ضروری ہوتا ہے۔ بجٹ پیش کرنے سے پہلے وزیرخزانہ نے اعلان کیا تھا کہ بجلی کی قیمتیں نہیں بڑھائی جائیں گی۔ میں نے اُس وقت بھی اپنے کالم میں بتایا تھا کہ حکومت غلط بیانی سے کام لے رہی ہے کیونکہ سرکار نے بجلی کی قیمت بڑھانے کے معاہدے بجٹ سے پہلے سے ہی کر رکھے ہیں۔اب نیپرا کو اختیارات دے دیے گئے ہیں کہ وہ جب چاہے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کر سکتی ہے‘ لہٰذا بجلی ابھی مزید مہنگی ہو گی۔ آئی ایم ایف سے کیے گئے وعدے کو پورا کرتے ہوئے نیپرا نے بجلی کی فی یونٹ قیمت دو روپے ستانوے پیسے بڑھانے کی منظوری دے دی ہے۔ اس میں ایک اعشاریہ پچیس روپے نیو سپیشل سر چارج کی مد میں شامل کیے گئے ہیں۔ یہ جرمانہ بجلی کی چوری روک نہ سکنے کی وجہ سے عائد کیا گیا ہے۔ نا انصافی یہ ہے کہ بجلی چوری ہونے کی سزا انہی ایماندار شہریوں کو دی جا رہی ہے جو باقاعدگی سے بجلی کا بل ادا کرتے ہیں۔ بجلی چور دندناتے پھر رہے ہیں مگر حکومت اور متعلقہ ادارے انہیں پکڑنے کے بجائے عوام پر سرچارج عائد کرتے جا رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ بجلی کی قیمت عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوتی جا رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ سرکار اس معاملے کو کب سنجیدگی سے لے گی؟ ان حالات کے پیشِ نظر یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ حکومت بجلی چوری روکنے میں مکمل طور ناکام ہو چکی ہے۔ بجلی مہنگی کرنا اس مسئلے کا مناسب حل نہیں ہے۔ بجلی چاہے کتنی ہی مہنگی کیوں نہ ہو جائے‘ چوروں کو فرق نہیں پڑتا۔ انہوں نے کون سا بل ادا کرنا ہوتا ہے؟ کمزور حکمت عملی اور بنیادی مسائل کو حل کرنے میں حکومت کی عدم دلچسپی کی وجہ سے پچھلے ایک سال میں گردشی قرضوں میں 498 ارب روپے کا اضافہ ہو چکا ہے۔ جب تحریک انصاف برسر اقتدار آئی تھی تو دسمبر 2020ء تک گردشی قرضے ختم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ تین سالہ دور حکومت میں‘ کم ہونے کے بجائے ان میں اضافہ ہوا ہے۔ جون 2018ء میں گردشی قرضہ ایک اعشاریہ ایک سو اڑتالیس ٹریلین تھا۔ جون 2021ء میں یہ بڑھ کر یہ دو اعشاریہ تین سو ستائیس ٹریلین ہو چکا ہے۔ ایک اعشاریہ ایک سو اناسی ٹریلین کا اضافہ حیران کن ہے۔ یعنی تحریک انصاف کے تین سالوں میں 103 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پہلے سال میں اضافہ 464 ارب، دوسرے سال میں 538 ارب اور تیسرے سال میں 498 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔
رواں سال 498 ارب روپے اضافے کی تقسیم کچھ یوں ہے کہ مالی سال 2020-21ء میں 138 ارب روپے کی کم سبسڈی دی گئی۔ آئی پی پیز کو تاخیر سے ادائیگیوں کی وجہ سے 72 ارب روپے جرمانے کی مد میں شامل ہوئے جو پچھلے سال کی نسبت 31 فیصد زیادہ ہیں۔ اسی طرح 37 ارب روپے پاور ہولڈنگ لمیٹڈ کو سود کی مد میں واجب الادا ہیں۔ یہ پچھلے سال سے 47 فیصد کم ہیں کیونکہ حکومت نے اپنے وعدوں کے برعکس بجلی کے بلوں میں اضافہ کر کے عوام کی جیبوں سے اربوں روپے نکلوائے ہیں۔ البتہ جنریشن اخراجات میں 82 فیصد بہتری دیکھی گئی ہے۔ پچھلے سال اس مد میں 270 ارب روپے شامل ہوئے تھے جبکہ اس سال صرف 48 ارب روپے شامل ہوئے ہیں۔ یہ فرق بھی بجلی کی قیمتیں بڑھا کر کم کیا گیا ہے۔اسے کامیابی کہا جائے یا ناکامی گرد انا جائے‘ اس کا فیصلہ آپ خود ہی کریں۔ کے الیکٹرک کی ادائیگیاں نہ ہونے کے باعث 83 ارب روپے بھی گردشی قرضوں کا حصہ ہیں۔انرجی کی تقسیم کار کمپنیوں نے 54 ارب روپے کے نقصانات بھی گردشی قرضوں میں شامل کیے ہیں۔ حکومت نے ریکوری میں 62 فیصد بہتری ظاہر کی ہے لیکن ہدف سے کم ریکوری ہونے کی وجہ سے 74 ارب روپے گردشی قرضوں میں شامل کیے گئے ہیں۔ یہ اعداد وشمار وزارتِ توانائی کے اپنے جاری کردہ ہیں۔
حکومت کا موقف ہے کہ ہم گردشی قرضے کم کرنے کے لیے بہت سے راستے تلاش کر رہے ہیں لیکن آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ بجلی کی قیمتیں بڑھا کر اس فرق کو ختم کیا جائے۔ یہاں پر حکومتی موقف عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف دکھائی دیتا ہے کیونکہ اگر گردشی قرضے حکومت کی پالیسیوں سے کم کیے جا سکتے ہیں تو آئی ایم ایف کو اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟ وہ کبھی بھی بجلی کی قیمتیں بڑھانے پر زور نہیں دے گا۔ دراصل حکومتی مشینری میں ہی اتنی جان دکھائی نہیں دیتی کہ وہ اس مسئلے کا کوئی قابلِ عمل اور دیر پا حل تجویز کر سکے۔ گردشی قرضوں کو کم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے نہ کہ آئی ایم ایف کی؟ جب حکومت ناکام ہو جاتی ہے تو آئی ایم ایف کو شیلڈ کے طور پر استعمال کرتی ہے۔
ایک طرف بجلی کی قیمت اور گردشی قرضے بڑھ رہے ہیں اور دوسری طرف حکومت نے عوام پر ٹیکس بم گرا دیا ہے۔ حکومت نے اعلان کیا تھا کہ اس سال کم آمدن والے افراد پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا جائے گا جبکہ حکومتی بچت سکیموں میں سرمایہ کاری کرنے والوں کی آمدن پر ٹیکس بڑھا دیا گیا ہے۔ اِنکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن 7b کے تحت فائلرز پر پانچ فیصد اضافے کے ساتھ پندرہ فیصد اور نان فائلرز پر دس فیصد اضافے کے ساتھ تیس فیصد ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے۔ سنٹرل ڈائریکٹریٹ فار نیشنل سیونگ نے یہ نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔ میں یہاں پر یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ سی ڈی ایف این ایس ڈپارٹمنٹ کا پچھلے تین سال سے کوئی سربراہ نہیں ہے‘ ان حالات میں محکمے کی کارکردگی کیسی ہوگی، آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ محکمہ بمشکل چار اعشاریہ تین ٹریلین کا پورٹ فولیو قائم نہیں رکھ پا رہا۔ اس فیصلے کے بعد بڑی رقوم نیشنل سیونگ سے نکل سکتی ہیں جس سے سراسر نقصان سرکار ہو گا۔ حکومتی بچت سکیموں میں سرمایہ لگانے والے افراد کی اکثریت بوڑھے افراد پر مشتمل ہوتی ہے جو خود کوئی کاروبار کرنے کی ہمت نہیں رکھتے، انہیں ہمہ وقت یہ ڈر رہتا ہے کہ اگر سرمایہ ڈوب گیا تو اس عمر میں مزید رقم کہاں سے لائیں گے، اس لیے بڑھاپے کا سہارا سمجھ کر وہ حکومتی سکیموں میں پیسہ لگا دیتے ہیں۔ پاکستان میں عمر رسیدہ افراد کی اکثریت نان فائلر ہے۔ ایک لاکھ میں سے اگر تیس ہزار سرکار لے جائے گی تو گزارہ کیسے ہو گا؟ کیا سرکار اس کے بدلے انہیں کوئی سہولتیں بھی دے گی یا ماضی کی طرح ٹیکس کا پیسہ حکمرانوں کی شاہ خرچیوں کی نذر ہو جائے گا؟ جن افراد کا سالانہ منافع پانچ لاکھ روپے سے کم ہے‘ ان پر ٹیکس نہیں لگایا گیا لیکن لاکھوں افراد ایسے ہیں جو ریٹائرڈ بھی ہیں، نان فائلر بھی ہیں اور پانچ لاکھ سے زیادہ منافع کماتے ہیں۔ اب اس عمر میں وہ خود کو فائلر بنوائیں یا ڈاکٹروں کے چکر لگائیں۔ حکومت سے گزارش ہے کہ بچت سرٹیفکیٹ سے منافع کمانے والے افراد میں فائلر ہونے کے لیے عمر کی معیاد مقرر کی جائے تا کہ عوام کو کچھ ریلیف مل سکے۔
حکومت کے آخری سالوں میں سرکار عوام دوست فیصلے کرتی ہے لیکن پاکستان میں جیسے جیسے الیکشن قریب آ رہے ہیں‘ تحریک انصاف عوام کے لیے معاشی مسائل پیدا کرتی دکھائی دے رہی ہے۔اس مالی سال میں مہنگائی کا ہدف تقریبا ًآٹھ فیصدمقرر کیا گیا ہے۔ اگر حکومت یونہی فیصلے کرتی رہی تواوسط مہنگائی ڈبل ڈیجٹ میں جا سکتی ہے۔ پچھلے سال تحریک انصاف نے مہنگائی کا ہدف چھ فیصد رکھا تھا جو سال کے اختتام پر اوسطاً نو اعشاریہ آٹھ فیصد ریکارڈ کی گئی تھی۔ اگلے سال اس شرح میں بہتری کے دعوے کس برتے پر کیے جا رہے ہیں‘ کسی کے علم میں نہیں ہے۔