پاکستان میں نئی آٹو پالیسی پیش کر دی گئی ہے۔ پہلی آٹو پالیسی 2016ء میں دی گئی تھی جو پانچ سال بعد جون 2021 ء میں ختم ہو گئی۔ اگلی آٹو پالیسی 2021 سے 2026ء تک ہے۔ حکومت شادیانے بجا رہی ہے کہ یہ پاکستان کی سب سے کامیاب آٹو پالیسی ہے۔ آیئے ایک جائزہ لیتے ہیں کہ حکومتی دعویٰ کس حد تک درست ہے۔ حکومت نے ایک ہزار سی سی تک کی گاڑیوں پر اڑھائی فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ختم کر دی ہے۔ اس کے علاوہ جنرل سیلز ٹیکس بھی سترہ فیصد سے کم کر کے ساڑھے بارہ فیصد کر دیا گیا ہے۔ گاڑیوں کے سی کے ڈی یونٹس درآمد کیے جاتے ہیں جن پر ایڈیشنل کسٹم ڈیوٹی چارج ہوتی تھی۔ ایک ہزار سی سی تک کی گاڑیوں پر یہ صفر کر دی گئی ہے۔ ایک ہزار سے دو ہزار سی سی تک کی گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی پانچ فیصد سے کم کر کے اڑھائی فیصد اور ایڈیشنل کسٹم ڈیوٹی سات فیصد سے کم کر کے دو فیصد کر دی گئی ہے۔ دو ہزار سی سی سے اوپر کی گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ساڑھے سات فیصد سے کم کر کے پانچ فیصداور ایڈیشنل کسٹم ڈیوٹی سات فیصد سے کم کر کے دو فیصد کر دی گئی ہے۔ بظاہر یہ دکھائی دے رہا ہے کہ نئی پالیسی سے عام آدمی کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے لیکن یہاں تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے جس پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔ آٹو موبائل کمپنیوں کو جنرل سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں کمی کو عوام تک پہنچانا مجبوری ہے کیونکہ اسے چھپایا نہیں جا سکتا‘ لیکن ایڈیشنل کسٹم ڈیوٹی گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں کی صوابدید پر ہے کہ وہ اس میں کمی کا فائدہ عوام تک پہنچاتی ہیں یا نہیں۔ پالیسی آنے کے بعد تقریباً تمام کمپنیوں نے گاڑیوں کی قیمت میں کمی کی ہے‘ تقریباً پچاس ہزار روپے سے لے کر چھ لاکھ روپے تک گاڑیوں کی قیمت میں کمی آئی ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ گاڑیوں کی قیمت میں جو کمی ہونی چاہیے تھی وہ نہیں کی گئی۔ ممکن ہے کہ سی کے ڈی کٹس پر ایڈیشنل کسٹم ڈیوٹی میں کمی کا فائدہ مینوفیکچررز خود اٹھانا چاہتے ہوں یعنی سرکار کی جانب سے دیے جانے والے عوامی ریلیف کو ذاتی منافع بڑھانے کے لیے استعمال کرنے کا ارادہ ہو۔ یہ اپروچ زیادہ مناسب دکھائی نہیں دیتی۔ آٹو موبائل کمپنیاں پہلے ہی اچھا منافع کما رہی ہیں‘ جب ڈالر 168 روپے تک بڑھا تھا تو کمپنیوں نے گاڑیوں کی قیمتیں فوراً بڑھا دی تھیں۔ پچھلے چھ ماہ تک ڈالر تقریباً 152 روپے پر رہا لیکن گاڑیوں کی قیمت کم نہیں کی گئی۔ اس دوران اربوں روپوں کا منافع کمایا گیا جس کا اظہار فنانشل رپورٹس میں بھی کیا گیا۔ حکومت نے ٹیکسز میں کمی اس لیے کی ہے کہ عوام تک حقیقی فوائد پہنچ سکیں۔ صرف قیمتیں کم کرنا سرکار کی ذمہ داری نہیں ‘ بلکہ اس پر من و عن عمل کروانا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔
قیمتوں کا وقتی طور پر کم ہو جانا اچھی خبر ہے لیکن ایک خدشہ بھی موجود ہے کہ ممکنہ طور پر یہ ریلیف زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکے گا۔ چند ہفتوں سے دیکھا جا رہا ہے کہ ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ 152 روپے سے بڑھ کر اس کی قیمت 159 روپے ہو چکی ہے اور روز اس میں چند پیسے اضافہ ہو جاتا ہے۔ اگر یہی رفتار برقرار رہی تو آٹو موبائل کمپنیوں کے پاس گاڑیوں کی قیمتیں دوبارہ بڑھانے کا جواز پیدا ہو جائے گا اور ماضی کی طرح کسی ادارے میں یہ ہمت نہیں ہو گی کہ وہ ان سے پوچھ سکے کہ کس اصول اور شرح سے گاڑیوں کی قیمتیں بڑھائی گئی ہیں۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ نئی آٹو پالیسی میں اون منی کے کاروبار کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اون منی ختم کرنے کے لیے گاڑی کی ٹرانسفر پر دوبارہ ود ہولڈنگ ٹیکس ادا کرنے کا قانون بنا دیا گیا ہے‘ یعنی جو شخص نئی گاڑی بُک کروائے گا اس کی انوائس بھی اسی کے نام پر بنے گی جس پر وہ ودہولڈنگ ٹیکس ادا کرے گا۔ پہلے یہ قانون تھا کہ پہلی مرتبہ گاڑی رجسٹرڈ ہونے کے دو ماہ کے اندر بیچنے پر خریدار کو دوبارہ ودہولڈنگ ٹیکس جمع نہیں کروانا ہوتا تھالیکن نئی آٹو پالیسی میں اس شرط کو ختم کر دیا گیا ہے۔ چاہے گاڑی ایک دن بعد بیچیں یا دس سال بعد بیچیں ودہولڈنگ ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔ حکومت کا ماننا ہے کہ اس سے اون منی کا کاروبار ختم ہو جائے گا لیکن حقیقت اس سے مختلف ہے۔ مارکیٹ میں تینتیس لاکھ کی گاڑی پر اون تقریباً تین لاکھ روپے اور ودہولڈنگ ٹیکس پچاس ہزار روپے ہے۔ ڈیلرز حضرات تین لاکھ کی بجائے اون اڑھائی لاکھ روپے کر دیں گے اور پچاس ہزار روپے سرکار کے کھاتے میں جمع کروا دیں گے۔ خریدار کو پہلے بھی تین لاکھ روپے اضافی دینے پڑتے تھے اور اب بھی تین لاکھ روپے اضافی دینا پڑیں گے۔ اسے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اضافی پیسے سرکار کے اکاؤنٹ میں جائیں یا ڈیلر کے پاس جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ نئی آٹو پالیسی آنے کے بعد بھی اون کی مارکیٹ نیچے نہیں گری ہے۔ گاڑیوں کا ڈیلیوری ٹائم چھ سے سات ماہ تک برقرار ہے۔
حکومت نے نئی آٹو پالیسی میں آٹو موبائل کمپنیوں کو پابند کیا ہے کہ کسٹمرز کو مکمل رقم لینے کے دو ماہ تک گاڑی ڈیلیور کر دی جائے۔ تاخیر کی صورت میں کراچی انٹربینک آفرڈ ریٹ پلس تین فیصد سود بطور جرمانہ ادا کرنا ہو گا۔ پہلے یہ ریٹ دو فیصد تھا۔ اس عمل کا مقصد گاڑیوں کی ڈیلیوری وقت پر کروانا ہے لیکن اس طریقے سے یہ مقصد حاصل ہونا مشکل دکھائی دیتا ہے۔کمپنیاں بیس فیصد سے گاڑی کی بکنگ کرتی ہیں۔ سات ماہ کا ڈیلیوری ٹائم دیتی ہیں اور چھٹے ماہ پوری رقم وصول کرتی ہیں۔ اس سے دو ماہ کی شرط پر بھی عمل ہوجاتا ہے اور سات ماہ کی تاخیر سے گاڑی دینے پر اون بھی کما لیا جاتا ہے۔ وقت پر گاڑی ڈیلیور کروانے کے لیے مسئلے کو جڑ سے پکڑنا ہو گا۔ بیس فیصد سے بکنگ کا قانون ختم کر کے مکمل ادائیگی سے گاڑی بکنگ کروائی جائے اور بکنگ کے ایک ماہ تک گاڑی کسٹمر کو ڈیلیور کی جائے۔ عمل درآمد نہ کرنے والے شو رومز کو پہلے جرمانے کیے جائیں اور بار بار غلطی دہرانے پر لائسنس معطل کر دیا جائے۔ یہ سادہ فارمولا اون منی کے کاروبار کو ختم کرنے کے لیے کارآمد ثابت ہو سکتا ہے‘ لیکن سرکار ایسی تجویز پر عمل درآمد کرنے کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتی۔ شاید اس کی وجہ سیاستدانوں‘ بیوروکریٹس اور بااثر طبقے کی اربوں روپوں کی سرمایہ کاری ہے جو انہوں نے اون منی حاصل کرنے کے لیے گاڑیوں میں کر رکھی ہیں۔
آٹو پالیسی کی اہم چیز الیکٹرک گاڑیوں کو دیا گیا ریلیف ہے۔ مقامی سطح پر تیاری میں صرف ایک فیصد جنرل سیلز ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی لاگو ہو گی۔ الیکٹرک گاڑیوں کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی پچیس فیصد سے کم کر کے دس فیصد کر دی گئی ہے۔ اس آڑ میں ستر کلو واٹ آور کی الیکٹرک گاڑیوں کی درآمد پر تقریباً پچاس لاکھ روپے تک ٹیکس چھوٹ ملے گی جو کہ اشرافیہ کو نوازنے کے مترادف ہے۔ جو شخص ڈیڑھ کروڑ کی گاڑی خرید سکتا ہے وہ دو کروڑ کی بھی خرید سکتا ہے۔ ایک شخص کو پچاس لاکھ کا ریلیف دینے سے بہتر ہے کہ پچاس لوگوں کو ایک ایک لاکھ روپے ریلیف دے دیا جائے تا کہ فوائد عام آدمی تک پہنچ سکیں۔نئی آٹو پالیسی وقتی طور پر عوامی پذیرائی حاصل کررہی ہے لیکن لانگ ٹرم میں یہ زیادہ فائدہ مند ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ ماہرین کے مطابق یہ آٹو موبائل مینوفیکچرر ز کے فائدے کی پالیسی ہے۔ عام آدمی کے لیے اس میں زیادہ کشش نہیں ہے۔