ورلڈ بینک، ایف بی آر اور پاکستانی معیشت!

پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کی معیشت کو چلانے کے قرضوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس وقت معیشت کی کامیابی اور ناکامی کا معیار بھی غیر ملکی قرض ہی ہیں۔ حکمران قرض لے کر عوام کو اس بات کا یقین دلاتے رہتے ہیں کہ ابھی ملک کے پاس اتنے اثاثے موجود ہیں جن کی بنا پر قرض مل سکتے ہیں۔ افسوس کہ آمدن میں اضافے کی بنیاد پر ملک چلانا حکمران طبقات کی ترجیحات میں شامل دکھائی نہیں دیتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وزارتِ خزانہ قرض لینے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔ یاد رکھیے کہ قرضوں کی بنیاد پر ملک چلانا معاشی کمزوری کا آخری درجہ ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہم پچھلے تین سالوں سے اسی درجے پر فائز ہیں۔ ملکی اثاثے گروی رکھوانے کے بعد قرض لینے کا آخری آپشن عوام کو گروی رکھوانا ہے۔جب ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک یا آئی ایم ایف قرض دینے سے پہلے اس کی ادائیگی سے متعلق گارنٹی کا سوال کرتے ہیں تو حکومت یہ یقین دہانی کراتی ہے کہ عوام پر ٹیکس بڑھا کر آپ کا پیٹ بھرا جائے گا، یعنی قرض کے حصول کے لیے ایک طرح سے عوام کو ہی گروی رکھوا دیا جاتا ہے۔ ٹیکسز بڑھانے سے نہ صرف قرض بڑھتے رہتے ہیں بلکہ مہنگائی میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنوبی ایشیا کے ممالک میں پاکستان میں مہنگائی سب سے زیادہ ہے۔ پچھلے ماہ مہنگائی کی شرح نو اعشاریہ سات فیصد ریکارڈ کی گئی۔
حکومت نے حسبِ روایت ڈالر ذخائر بڑھانے کے لیے ورلڈ بینک سے قرض مانگ رکھا تھا۔ ورلڈ بینک نے پہلے شرائط رکھیں کہ بجلی کی قیمتوں میں مخصوص شرح سے اضافہ کیا جائے، سبسڈی ختم کی جائے، بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے بورڈ میں پرائیویٹ ممبرزکو شامل کیا جائے اور قومی بجلی پالیسی کی منظوری دی جائے۔ وزارتِ خزانہ نے ہامی بھر لی اور معاہدے پر دستخط کر دیے۔ جب عمل درآمد کا وقت آیا تو حکومت نے ٹال مٹول سے کام لینا شروع کر دیا جس پر ورلڈ بینک نے 400 ملین ڈالرز قرض کی قسط روک لی۔ 28 جون کو ورلڈ بینک نے دو سکیموں کے تحت 800 ملین ڈالرز کا قرض منظور کیا تھا۔ 400 ملین ڈالرز پاکستان پروگرام فار افورڈ ایبل اینڈ کلین انرجی‘ جسے پی ای اے سی ای بھی کہا جاتا ہے‘ کے تحت منظور ہوئے ہیں جبکہ مزید 400 ملین ڈالرز سکیورنگ ہیومین انویسٹمنٹ ٹو فوسٹر ٹرانسفومیشن‘ جسے شفٹ ٹو بھی کہا جاتا ہے‘ کے تحت منظور ہوا۔ ورلڈ بینک نے شفٹ ٹو کے تحت منظور ہونے والے قرض کے 400 ملین ڈالرز تو فوری جاری کر دیے تھے لیکن پی ای اے سی ای کے تحت منظور ہونے والے 400 ملین ڈالرز معاہدے کی پاسداری کے بعد جاری کیے جانے تھے۔ شرائط پوری نہ ہونے کی صورت میں ورلڈ بینک نے تین ماہ کا وقت دیا ہے جس کے بعد جائزہ لیا جائے گا اور بقیہ رقم جاری کرنے سے متعلق فیصلہ ہو گا۔
ماہرین اس امر پر حیران تھے کہ آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان چھٹی جائزہ رپورٹ جاری ہونے میں تاخیر اور ایک ارب ڈالر کی قسط رک جانے کے بعد ورلڈ بینک نے کیسے 800 ملین ڈالرز کا قرض منظور کر لیا اور 400 ملین ڈالرز کی ادائیگی بھی کر دی گئی؟ ممکن ہے کہ بقیہ 400 ملین ڈالرز آئی ایم ایف سے تعلقات بہتر نہ ہونے تک منجمد رہیں۔ قرض کے کاغذات کے مطابق‘ ورلڈ بینک نے پانچ لاکھ ڈالرز بطور فیس چارج کیے ہیں۔ اس کے علاوہ جب تک حکومت شرائط پوری کر کے قرض کی بقیہ رقم وصول نہیں کر لیتی اس پر صفر اعشاریہ پچیس فیصد اضافی سود چارج کیا جائے گا۔ قرض لینے کے لیے حکومت تیز رفتاری سے اقدامات کرتی دکھائی دیتی ہے لیکن آمدن بڑھانے اور ٹیکس اکٹھا کرنے کے اعداد و شمار مایوس کن ہیں۔
سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی آن فنانس میں ایف بی آر کے پیش کیے گئے ریکارڈ کے مطابق تحریک انصاف نے پچھلے تین سالوں میں نان فائلرز کو ایک کروڑ اٹھائیس لاکھ ٹیکس نوٹسز بھجوائے ہیں۔ اگر ٹیکس ریٹرنز جمع کروانے کی بات کی جائے تو تقریباً تیرہ لاکھ نئے لوگ فائلرز بنے ہیں جو کل فائلرز کا تقریباً دس اعشاریہ تین فیصد بنتا ہے۔ ایک کروڑ اٹھائیس لاکھ نوٹسز میں چونسٹھ اعشاریہ تین ارب روپے کا ٹیکس واجب الادا تھا جس میں سے صرف دو اعشاریہ چھ ارب وصولیاں ہوئی ہیں جو محض چار فیصد بنتا ہے۔ سٹینڈنگ کمیٹی میں جے یو آئی (ایف) کے ممبر سینیٹر طلحہ محمود نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ نوٹسز بھیج کر عام شہریوں کو پریشان کرنا معمول بن گیا ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ معصوم لوگوں کو ڈرانے کے لیے نوٹسز بھیجے جاتے ہیں اور اس کے پیچھے محکمے کے ملازمین کی بدنیتی ہو سکتی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ جن افسران کے دستخطوں سے غلط نوٹسز بھیجے گئے ہیں‘ انہیں کٹہرے میں لایا جائے۔
میں یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ کچھ دن پہلے قومی اسمبلی نے ایف بی آر کو ٹیکس نادہندگان کو گرفتار کرنے کے اختیارات دیے تھے جس کے مطابق نان فائلرز کی صورت میں اڑھائی کروڑ اور فائلرز کی صورت میں دس کروڑ روپوں کے ٹیکس نادہندگان کو گرفتار کیا جا سکے گا۔ جس کی منظوری وزارتِ خزانہ کی کمیٹی سے لی جائے گی اور اس کے سربراہ وزیر خزانہ ہوں گے۔ ایک طرف ٹیکس اکٹھا کرنے کے حوالے سے محکمے کو لامحدود اختیارات دیے جا رہے ہیں جبکہ دوسری طرف حکومتی وفاقی وزیر ریلوے اعظم سواتی صاحب نے بھی سٹینڈنگ کمیٹی میں اعتراض اٹھایا ہے کہ محکمے کے ملازمین معصوم لوگوں کو ہراساں کرنے کے لیے نوٹسز بھیج رہے ہیں تاکہ ماحول کا فائدہ اٹھا کر جیبیں گرم کی جا سکیں، ایسے افسران کو سخت سزائیں دی جانی چاہئیں۔ تحریک انصاف کی تین سالہ حکومت کے پہلے مالی سال 18ء تا 19ء میں تقریباً اکیس لاکھ ٹیکس نوٹسز بھجوائے گئے تھے جن میں سے ایک لاکھ تہتر ہزار ریٹرنز جمع ہوئیں۔ نو ارب روپے کی ٹیکس ڈیمانڈ تیار ہوئی جس میں سے صرف پچیس کروڑ روپے ٹیکس اکٹھا ہوا۔ مالی سال 19ء تا 20ء میں تریسٹھ لاکھ ٹیکس نوٹسز جاری ہوئے اور دو لاکھ ستانوے ہزار دو سو بیاسی ریٹرنز جمع ہوئیں۔ بارہ ارب ستر کروڑ روپوں کی ٹیکس ڈیمانڈ بنائی گئی جس میں سے تقریباً ستاسٹھ کروڑ روپے اکٹھا ہوا۔ مالی سال 20ء تا 21ء میں تقریباً تینتالیس لاکھ ٹیکس نوٹسز بھجوائے گئے۔ آٹھ لاکھ چھیالس ہزار دو سو چھیانوے لوگوں نے ریٹرنز جمع کروائیں۔ ساڑھے بیالیس ارب کی ٹیکس ڈیمانڈ بھجوائی گئیں اور تقریباً پونے دو ارب روپے کا ٹیکس اکٹھا ہوا۔ تقریباً ایک کروڑ پندرہ لاکھ نوٹسز کے جواب موصول نہیں ہوئے۔ ان اعداد و شمار کے پیش نظر یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ٹیکس اکٹھا کرنے کے سسٹم میں ریفارمز کی ضرورت ہے۔ افسران جان چھڑانے کے لیے ماتحت ملازمین کو غیر حقیقی اہداف دیتے ہیں جو ایک طرف ہدف سے کئی گنا کم ٹیکس وصولی کا سبب بنتے ہیں تو دوسری طرف مبینہ طور پر کرپشن کے نئے راستے کھولتے ہیں۔ محکمے کے ان لینڈ ریونیو سروس آپریشن کے نمائندے نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ بہت سے ایسے لوگوں کو ٹیکس نوٹسز بھیجے گئے ہیں جن کا کوئی بھی ٹیکس واجب الادا نہیں تھا۔ اس معاملے پر تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ ڈیپارٹمنٹ میں کچھ کالی بھیڑیں بھی موجود ہیں جن کے خلاف ایکشن لیا جا رہا ہے لیکن کچھ لوگوں کی بنا پر پورے ڈیپارٹمنٹ پر سوالیہ نشان نہیں اٹھایا جا سکتا۔ یہ بھی اسی معاشرے کا حصہ اور انسان ہیں‘ کوئی فرشتے نہیں، محکمے نے نوٹسز بھلے ضرورت سے زیادہ بھیجے ہیں لیکن گرفتاریاں نہیں کیں جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں ٹیکس اکٹھا کرنے والے افسران کے پاس گرفتاری کے اختیارات موجود ہوتے ہیں لیکن ہمارے ہاں ان اختیارات پر طرح طرح کے اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں۔ بادی النظر میں ممبر ایف بی آر کا جواب تسلی بخش دکھائی نہیں دیتا۔ اگر وہ اقرار کر رہے ہیں کہ افسران غلط نوٹسز بھیج کر مبینہ طور پر رشوت وصول کر رہے ہیں تو ان کے نام سامنے لائے جانے چاہئیں۔ جن ممالک میں ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کو گرفتاری کا اختیار دیا گیا ہے‘ ان کے افسران عوام کو غلط نوٹسز نہیں بھجواتے بلکہ معاملات کو حل کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں