پاکستانی معیشت کا پہیہ چلانے میں قرض اہم کردار ادا کر رہے ہیں لیکن ہر مشکل وقت میں دوست ممالک یا مالیاتی اداروں کی طرف دیکھنا کامیاب معاشی پالیسی نہیں ہو سکتی۔ مملکت پاکستان کی صورتحال یہ ہے کہ کوئی نیا منصوبہ شروع کرنا ہو یا کسی قرض کی ادائیگی کرنی ہو تو نیا قرض مانگ لیا جاتاہے۔ پریشانی اس بات کی ہے کہ ان حالات میں پاکستان کو قرض دینے والے اداروں کی تعداد بھی کم ہو چکی ہے۔ پچھلے دنوں جو اربوں ڈالرز کی بارش ہوئی تھی اس کی وجہ بھی آئی ایم ایف کی سخت شرائط پر عمل درآمد تھا۔ نئے مالی سال میں قرضوں کی ادائیگی کا وقت آ پہنچا ہے۔ وزیر خزانہ شوکت ترین صاحب نے 28 جولائی کو ایک میٹنگ طلب کی تھی جس میں یہ رپورٹ پیش کی جانی تھی کہ نئے مالی سال میں ڈالرز کہاں سے حاصل ہوں گے اور قرض کب واجب الادا ہیں‘ جو کہ بے نتیجہ ختم ہو گئی کیونکہ وزارت خزانہ کی ٹیم کے پاس مطلوبہ اعدادوشمار موجود نہیں تھے۔ شوکت ترین صاحب ناخوش واپس لوٹے۔ سٹاف کو یہاں تک ہدایت کرنا پڑی کہ اگلی میٹنگ میں ڈالرز کی رسد اور طلب کے بارے میں ماہانہ بنیادوں پر اعدادوشمار پیش کیے جائیں تا کہ منصوبہ بندی کی جا سکے کہ مطلوبہ ضرورت کس طرح پوری کرنی ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سرکاری میٹنگز کے انعقاد میں لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں کیا بیوروکریسی کا احتساب نہیں ہونا چاہیے کہ کیوں انہوں نے غفلت برتی؟ کیا اس میٹنگ کے اخراجات کی رقم ان کی تنخواہوں میں سے ادا نہیں کی جانی چاہیے؟ وزیراعظم ایک طرف بچت کی بات کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف ملکی وسائل کے غیر منصفانہ استعمال پر خاموش ہیں۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان‘ سرمایہ کاری بورڈ‘ اکنامک افیئرز منسٹری اور منسٹری آف کامرس کے اندازوں کے مطابق موجودہ مالی سال میں تقریباً 87.3 ارب ڈالرز کی آمد متوقع ہے جن میں سے تقریباً 41.4 ارب ڈالرز پہلے چھ ماہ میں وصول ہوں گے۔ ذرائع کے مطابق یہ مختلف شعبوں میں 7.3 فیصد سے 43 فیصد تک اضافہ ہے۔ بیرون ممالک سے ترسیلات زر کا اندازہ31.3 ارب ڈالرز لگایا گیا ہے جو کہ پچھلے سال کی نسبت 7.8 فیصد زیادہ ہے جس پر سٹیٹ بینک کو اعتراض ہے۔ سٹیٹ بینک کے مطابق موجودہ مالی سال میں ترسیلات زر پچھلے سال کی نسبت کم ہو سکتی ہیںکیونکہ بیرون ملک جانے والے نئے افراد کی تعداد میں بہت زیادہ کمی دیکھی گئی ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ پچھلے سال 29.3 ارب ڈالرز کی ترسیلات زر موصول ہونے کی بڑی وجہ ایف اے ٹی ایف کی شرائط پر عمل درآمد تھا۔ اگر حکومت چاہتی ہے کہ اس سال بھی وصولیوں کی یہ رفتار برقرار رہے تو ضروری ہے کہ بقیہ شرائط پر بھی عملدرآمد کرے۔اس سے نہ صرف ڈالرز کی رسد بہتر ہو گی بلکہ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کے بند دروازے کھل سکیں گے۔ اس کے علاوہ زیادہ ترسیلات بھیجنے والے پاکستانیوں کی ملکی سطح پر حوصلہ افزائی کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ انہیں ملکی ائیرپورٹس پر خصوصی پروٹوکول دیا جائے۔ میڈیا اور سرخیوں میں آنے کی دوڑ میں بازی لے جانے کی غرض سے بھی غیر قانونی راستوں کی بجائے بینکنگ چینلز کے ذریعے ڈالرز پاکستان بھیجنے کو ترجیح دی جائے گی؛چنانچہ تھوڑی سی حکومتی توجہ بڑے فوائد حاصل کرنے میں کار آمد ہو سکتی ہے۔ وزرا عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے تنخواہ لیتے ہیں ان کی آسائشیں کمزور معیشت پر بوجھ ہیں‘ ان کا قوم پر کوئی احسان نہیں پھر بھی انہیں ہر گلی‘ سڑک اور ائیرپورٹ پر پروٹوکول دیا جاتا ہے جبکہ ملکی معیشت کو مضبوط کرنے والے بیرون ملک پاکستانیوں کو عزت اور تکریم دینے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے جاتے۔
جس روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ کے چرچے ہیں ‘حکومت پاکستان اس وقت ڈالرز پر سات فیصد تک منافع دے رہی ہے۔ بظاہر یہ عمل بہتر دکھائی دیتا ہے لیکن یہ قرضے نہ لینے کے حکومتی بیانیے کی نفی ہے۔ سود کی ادائیگی عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے کی جارہی ہے نہ کہ کاروباری منافع سے۔ یہ ایک قرض ہے جو کہ بیرون ملک پاکستانیوں سے لیا جا رہا ہے جو کہ مستقبل میں واجب الادا ہے۔ وزیراعظم اس قرض کو اپنی فتح قرار دے رہے ہیں۔ اصل فائدہ اس وقت ہوتا جب یہ ڈالرز برآمدات بڑھا کر حاصل کیے جاتے۔ ایک ارب ڈالرز پاکستان میں آنے کے باوجود بھی ڈالر تقریباً 162 روپے کا ہو گیاہے کیونکہ ان ڈالروں سے اتنا منافع کمایا نہیں جا رہا جتنا سود ادا کیا جا رہا ہے۔ جن شرائط پر روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ میں فنڈز آ رہے ہیں وہ کسی بھی ملک میں لاگو کر دی جائیں تو وقتی طور پر ڈالر کی ریل پیل ہو جائے گی لیکن یہ منصوبہ طویل مدت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ یاد رہے کہ سات فیصد شرح سود دنیا کے کسی بھی ملک میں نہیں دی جاتی۔ یہ سب کچھ اس لیے کیا جارہا ہے کہ پاکستانیوں کو لالچ دے کر ملک میں پیسہ منگوایا جائے لیکن اس بارے میں کوئی منصوبہ بندی نہیں دکھائی دے رہی کہ جب ان کی ادائیگی کا وقت آئے گا تو اربوں ڈالرز کہاں سے لائے جائیں گے؟ ریکارڈ ترسیلات زر کے باوجود آج وزارت خزانہ پریشان ہے کہ قرضوں کی ادئیگی کیسے کی جائے۔ اگر اسی پالیسی کے تحت چلتے رہے تو مستقبل میں حالات زیادہ پریشان کن ہونے کی توقع ہے۔
دیگر مسائل کے ساتھ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے غیر حقیقی اعدادوشمار پیش کیے جانے کی روایت بھی برقرار ہے۔ سرمایہ کاری بورڈ نے موجودہ مالی سال میں بیرونی سرمایہ کاری میں 2.65 ارب ڈالرز آنے کی پیش گوئی کی ہے جو کہ پچھلے سال کی نسبت 43 فیصد زیادہ ہے۔ حکومت کس طرح یہ ہدف حاصل کرے گی اس بارے میں کوئی طریقہ کار وضع نہیں کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومتی پالیسی میں عدم استحکام اور بیوروکریسی کے رکاوٹیں پیدا کرنے والے رویوں کی بدولت سرمایہ کار پاکستان سے فنڈز بیرون ملک منتقل کر رہے ہیں۔ سرمایہ کاری بورڈ کے دعوے اس کے برعکس ہیں۔ بیوروکریسی کا یہ پرانا طریقہ واردات ہے‘حکمرانوں کو خوش کرنے کے لیے اعدادوشمار گھما پھرا کر پیش کر دیے جاتے ہیں اور جب نتیجے کا وقت آتا ہے تو ملبہ ایک دوسرے پر ڈال کر سرخرو ہوجاتے ہیں۔ جب تک وزرا کو سمجھ آتی ہے حکومت بدل چکی ہوتی ہے اور ان کے ہاتھ ذلت کے سوا کچھ نہیں آتا۔
اسی طرح منسٹری آف کامرس نے اشیا کی برآمدات 31.6 ارب روپے تک پہنچنے کا دعویٰ کیا ہے جو کہ پچھلے سال کی نسبت 20.7 فیصد زیادہ ہے۔ سروس کی برآمدات میں26.2 فیصد اضافے کا دعویٰ ہے لیکن کوئی اس بارے میں بتانے کے لیے تیار نہیں کہ درآمدات کتنی ہوں گی‘جس کے لیے اجلاس طلب کیا گیا تھا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ موجودہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ شرح نمو کے0.7 فیصد سے کئی گناہ زیادہ ہے۔0.7 فیصد کا ہدف پچھلے ماہ بجٹ میں دیا گیا تھا۔ صرف ایک ماہ میں حکومتی دعوؤں اور حقیقت میں بڑا فرق سامنے آ گیا ہے جو کہ یہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ پالیسی بناتے وقت حقائق کو نظر میں نہیں رکھا جاتا۔صرف عوامی پذیرائی وصول کرنے کے لیے حاصل نہ ہونے والے اہداف کا اعلان کر دیا جاتا ہے جیسا کہ پچاس لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریاں دینے کے نعرے لگائے گئے تھے جبکہ حالات بالکل اس کے برعکس نکلے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ وزیراعظم صاحب بھی قرضوں کی ادائیگی کے حوالے سے پریشان دکھائی دیتے ہیں۔متوقع وصولیوں اور ادائیگیوں سے متعلق وہ بھی جولائی میں ایک میٹنگ بلا چکے ہیں جس میں انہیں بتایا گیا کہ آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑ سکتا ہے۔فی الحال وہ اس پر راضی دکھائی نہیں دیتے لیکن حالات اس طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ مستقبل میں بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافہ کر کے آئی ایم ایف سے اگلی قسط وصول کی جا سکتی ہے۔ پچھلے قرض اتارنے کا شاید یہی راستہ بچا ہے۔