عالمی معیشت میں طاقت کے مراکز تبدیل ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ دنیا کی توجہ مغرب سے ہٹ کر مشرق کی طرف مبذول ہو رہی ہے جس کی سب سے بڑی دلیل چین کا ون بیلٹ‘ ون روڈ منصوبہ ہے۔ یہ اپنی طرز کا واحد منصوبہ ہے جو دنیا کے ساٹھ سے زیادہ ممالک کو تجارت کے لیے ایک نئی راہداری‘ ایک نیا راستہ فراہم کرتا ہے۔ بحیرہ بالٹک اور بحراوقیانوس کو سڑکوں، ریلوے لائنوں اور سمندری راستوں کے ذریعے ایک دوسرے سے ملایا جائے گا جن سے آزادانہ تجارت کی جاسکے گی۔ اِس پورے منصوبے کی لاگت 21 ٹریلین ڈالرز سے بھی زیادہ ہے۔ دنیا کی 80 فیصد آبادی اِس منصوبے سے مستفید ہوسکے گی۔ اِسے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے؛ ایک حصے کا نام ''سلک روڈ اکنامک بیلٹ ـ‘‘ہے اور دوسرے حصے کو ''میری ٹائم سلک روڈ‘‘کا نام دیا گیا ہے۔ اِس منصوبے میں چھ راہداریاں شامل ہیں۔ اس کی تکمیل میں سب سے بڑا مسئلہ مالی وسائل کا تھا جس کا دلچسپ حل پیش کیا گیا۔ فنڈز کی بلا تعطل فراہمی کے لیے ایشین انفراسٹرکچر اینڈ انویسٹمنٹ بینک، دی برکس نیو ڈویلپمنٹ بینک، سلک روڈ فنڈ، چائنہ ایشین انٹربینک ایسوسی ایشن اور ایس سی او انٹر بینک ایسوسی ایشن کے نام سے پانچ ادارے قائم کیے گئے، ان کے سبب فنڈز کا مکمل بوجھ چین پر نہیں پڑے گا۔
ایک طرف چین دنیا میں غربت ختم کرنے کے سب سے بڑے منصوبے پر کام کر رہا ہے اور دوسری طرف اس کا گھیرا تنگ کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں۔ امریکا، آسٹریلیا، جاپان اور بھارت کی لابنگ اپنے اثرات ظاہر کرنا شروع ہو چکی ہے اور صاف نظر آ رہا ہے کہ بداعتمادی کی ایک نئی فضا قائم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اس لابی کا پروپیگنڈا ہے کہ اوّل تو چین اس منصوبے کو عملی جامہ نہیں پہناسکے گا اور اگر کسی صورت یہ مکمل ہو بھی گیا تو تمام چھوٹے ممالک پر چین کا قبضہ ہوجائے گا کیونکہ یہ ان ممالک میں فیکٹریاں لگا کر سامان اپنے نام سے برآمدکرے گا۔ سری لنکا کی دو بندرگاہوں پر عارضی طور پر تعمیرات کا کام روکنے کے پیچھے بھی یہی پروپیگنڈا کار فرما تھا۔ اِس کے علاوہ امریکا اور آسٹریلیا کی انٹرنیشنل لابی نے ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک کی تکمیل میں رکاوٹ ڈالنے کی کوششیں بھی کی ہیں لیکن چین کی مضبوط معیشت اور مستقل مزاجی کو مدنظر رکھتے ہوئے عالمی ماہرین اس منصوبے کو مکمل ہوتا دیکھ رہے ہیں۔
اب ون بیلٹ ون روڈ کے سب سے اہم منصوبے چائنہ پاکستان اکنامک کاریڈور(CPEC) کی طرف آتے ہیں۔ اِس کی اہمیت کی سب سے بڑی وجہ سٹریٹیجک، ملٹری اور معاشی محل وقوع ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کی چھ میں سے یہ واحد راہداری ہے جو لینڈ لاکڈ ملکوں کو سمندر تک رسائی دیتی ہے۔ جہاں چین کی سی پیک سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں‘ وہاں پاکستانی عوام بھی پُرامید دکھائی دیتے ہیں۔ عمومی طور پر یہ رائے پائی جاتی ہے کہ مستقبل میں تجارت اور روزگار بڑھانے میں یہ منصوبہ اہم کردار ادا کر سکتا ہے لیکن کسی بھی منصوبے سے صحیح معنوں میں فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ اسے وقت پر مکمل کیا جائے۔ سی پیک کے تحت بننے والے3584 میگاواٹ بجلی کے پانچ بڑے منصوبے تاخیر کا شکار ہیں، ان میں 884 میگاواٹ کا سکی کناری ہائیڈرو پاور، 720 میگاواٹ کا کیروٹ ہائیڈرو پاور، تھر بلاک 2 کا 330 میگاواٹ، تھل نووا تھر بلاک 2 کا 330 میگاواٹ اور 1320 میگاواٹ کا تھر بلاک 1 منصوبہ شامل ہیں۔ سکی کناری تقریباً دس ماہ، کیروٹ چار ماہ، تھل نووا تھر پندرہ ماہ اور تھر بلاک 1 منصوبہ تقریباً ایک سال کی تاخیر کا شکار ہیں۔ ان منصوبوں کے لیے چینی سرمایہ کاروں نے کروڑوں ڈالرز کا قرض لے رکھا ہے جس پر لاکھوں ڈالرز سود کی مد میں واجب الادا ہیں۔ چینی حکام نے پاکستانی سرکار کو کئی مرتبہ اپنے تحفظات سے آگاہ کیا ہے لیکن افسر شاہی شاید سنجیدگی سے کام نہیں لے رہی۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر صاحب نے کئی مرتبہ سرکاری انتظامیہ کو سخت الفاظ میں تنبیہ کی ہے لیکن کوئی اثر نہیں ہوا۔ اس مرتبہ شکایات کا انبار لگنے پر معاملہ وزیراعظم صاحب تک لے جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ سی پیک کو دیگر عام منصوبوں کی طرح نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ حکومت پاکستان کے شروع کیے گئے منصوبے جب تاخیر کا شکار ہوتے ہیں تو عوامی ردعمل نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ بی آر ٹی جیسے منصوبوں کی لاگت دو گنا سے بھی زیادہ بڑھ گئی ۔پاکستان کی معاشی حالت شاید اسی لیے تنزلی کا شکار ہے کہ عوام کو اپنے کندھوں پر پڑنے والے بوجھ کی زیادہ فکر نہیں ہے جبکہ دوسری طرف چینی حکومت اور سرمایہ کاروں کو اپنے سرمایے اور وقت کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہے اور وہ ہماری غلطیوں کا خمیازہ بھگتنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ اگر معاملہ بروقت حل نہ ہوا تو اس تاخیر کا بوجھ بھی پاکستان پر ہی عائد کیا جائے گا۔
موجودہ حالات میں یہ معاملہ خاصی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ اسد عمر صاحب کی سربراہی میں 2 اگست کو منعقد ہونے والی پاک چائنہ ریلیشنز سٹیئرنگ کمیٹی کی دوسری میٹنگ سے پہلے 24 جولائی کو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا دورۂ چین بھی اہمیت کا حامل ہے جس میں سی پیک منصوبوں کے حوالے سے بات کی گئی ہے۔ ملاقات کے بعد سرکاری بیانیے میں بھی سی پیک منصوبوں کی جلد تکمیل کو موضوع بنایا گیا۔ اس کے علاوہ 2 جولائی کو وزیر خارجہ نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان سی پیک منصوبوں کو وقت پر مکمل کرنے کی یقین دہانی کراتا ہے۔ سرکاری سطح پر اہم وزراتوں سے ایک ہی مدعے پر وضاحتیں بے وجہ نہیں ہوتیں‘ سمجھداروں کے لیے اس میں اشارہ کافی ہونا چاہیے۔ ان حالات کے پیش نظر حکومت نے پاور ڈویژن کو پانچ منصوبوں میں تاخیر کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے مؤثر پالیسی بنانے کا حکم دیا ہے۔ اس امر کے لیے ایک ماہ کا وقت مقرر کیا گیا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کی کئی تاریخیں پہلے بھی دی جا چکی ہیں جن پر عمل درآمد نہیں ہو سکا، اگر اس مرتبہ بھی مسئلے کو حل نہ کیا گیا تو اگلا لائحہ عمل کیا ہو گا؟ حکومتی رویے سے یہ پیغام مل رہا ہے کہ روایتی کارروائی ہو رہی ہے‘ مسئلے کو جڑ سے پکڑا نہیں جا رہا۔ ایک ماہ میں ایسا کیا ہو گا کہ بیوروکریسی ایک سال سے لٹکائے گئے کام کو ایک ماہ میں مکمل کر دے گی؟
اب جبکہ کورونا کے نئے ڈیلٹا ویری اینٹ کے سبب ہفتے میں دو دن سرکاری چھٹی دی جارہی ہے اور باقی پانچ دنوں میں بھی متبادل دن چھٹی کا اصول متعارف کرایا جا چکا ہے‘ جو سمجھ سے بالا تر ہے‘ ایسے میں ڈیڈلائن تک کام مکمل کرنا ممکن محسوس نہیں ہوتا۔ ویکسی نیشن اور ایس او پیز پر سختی سے عمل درآمد کروا کر کورونا کے مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے‘ اس کے لیے چھٹیاں یا لاک ڈائون کوئی حل نہیں ہے۔اگر اس منصوبے سے جڑے ملازمین اور افسران کی ہفتہ وار چھٹی کے علاوہ تمام چھٹیاں منسوخ کر دی جائیں اور روزانہ کی بنیاد پر کارکردگی کا جائزہ لے کر جزا اور سزا کا نظام متعارف کروایا جائے تو مطلوبہ نتائج وقت پر حاصل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ بلاشبہ پاک چین دوستی سمندروں سے گہری اور ہمالیہ سے بلند ہے لیکن تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ یہاں پاکستان کو بھی اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نہ صرف سی پیک پر کام مکمل ہو سکے بلکہ ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ بھی پایہ تکمیل تک پہنچانے میں مدد مل سکے۔ چین زیادہ دیر تک غیر مشروط حمایت کرنے کا حامی نہیں ہے۔ اگر غیر ذمہ داری کا مظاہرہ جاری رہا تو پاک چین تعلقات میں عدم اعتماد کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے جس کا براہِ راست اثر ملکی معیشت پر پڑے گا۔