حکومت کا دعویٰ ہے کہ ملکی معیشت ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ وزیراعظم صاحب عوام سے خطاب میں کامیاب معاشی پالیسیاں بنانے پر اپنی معاشی ٹیم کو سراہتے دکھائی دیتے ہیں لیکن حکومتی اجلاسوں کی صورتحال اس سے قدرے مختلف ہے۔ وزیراعظم صاحب نے گزشتہ ہفتے ایک اہم اجلاس طلب کیا جس کا مقصد درآمدات، برآمدات، بیرونی سرمایہ کاری اور قرضوں کی ادائیگی کے حوالے سے منصوبہ بندی کرنا تھا لیکن زیادہ گفتگو تجارتی اعدادوشمار پر ہوئی کیونکہ موجودہ مالی سال کے پہلے مہینے میں مطلوبہ تجارتی نتائج حاصل نہیں ہو سکے۔ وزرا اور مشیر میڈیا پر آ کر بتاتے ہیں کہ پاکستان کی پالیسی کا مرکز برآمدات میں اضافہ اور درآمدات میں کمی ہے۔ تحریک انصاف کی جانب سے برآمدات میں ایک فیصد اضافے کو بھی اس طرح پیش کیا جاتا ہے جیسے بہت بڑا سنگ میل عبور کر لیا ہو مگر درآمدات میں ریکارڈ اضافے کے بارے میں عوام کو آگاہ نہیں کیا جاتا۔ وزیراعظم صاحب جس طرح اپنی ٹیم کی اچھی خبریں بتانے کیلئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں‘ اپنی ٹیم کی کمزور کارکردگی کے حوالے سے بھی میڈیا کو آگاہ کیا کریں تا کہ عام آدمی کسی خوش فہمی میں مبتلا نہ ہو۔
مذکورہ میٹنگ کے دوران وزیراعظم صاحب کو بتایا گیا کہ جولائی کے مہینے میں برآمدات اور بیرونی سرمایہ کاری کے اہداف حاصل نہیں کیے جا سکے۔ درآمدات میں توقعات سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ اگر یہ صورتحال برقرار رہی تو موجودہ مالی سال کا کرنٹ اکائونٹ خسارہ بلند ترین سطح پر جا سکتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہ شرح نمو کے دو سے تین فیصد کے درمیان رہ سکتا ہے جو تقریباً سات سے دس ارب ڈالرز تک بنتا ہے۔ جولائی کے مہینے میں درآمدات پینتالیس فیصد بڑھی ہیں۔ برآمدات کا ہدف تقریبا ًتین ارب ڈالر تھا مگر برآمدات صرف دو ارب تیس کروڑ ڈالر تک ہو سکیں۔ وجہ پوچھنے پر کامرس منسٹری کی جانب سے یہ بتایا گیا کہ آئندہ ہم برآمدات کا ہدف حاصل کر لیں گے کیونکہ حکومت ایکسپورٹرز کی امداد بڑھانے جارہی ہے، ان کے لیے مزید آسانیاں پیدا کی جائیں گی اور جہاں ضرورت پڑی‘ سبسڈی بھی دی جائے گی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایکسپورٹرز کو ماضی میں جو مراعات دی گئی تھیں‘ ان کا کیا نتیجہ نکلا ہے؟ کیا پاکستان کی برآمدات میں مطلوبہ اضافہ ہو سکا؟ کیا ڈالرز کے لیے پاکستان کا انحصار قرضوں سے ہٹ کر برآمدات پر منتقل ہوا؟ کیا ملکی معیشت مضبوط ہوئی؟
تحریک انصاف نے حکومت سنبھالتے ہی سب سے زیادہ مراعات ٹیکسٹائل سیکٹر کو دی تھیں۔ عام انڈسٹری کو بجلی کا ایک یونٹ تقریباً پچیس سے پینتیس روپے کا چارج ہوتا ہے جبکہ ٹیکسٹائل سیکٹر کو بجلی کا ایک یونٹ تقریباً دس روپے میں ملتا ہے۔ پندرہ سے پچیس روپے فی یونٹ سبسڈی دی جارہی ہے جو عام پاکستانیوں کے دیے گئے ٹیکس سے ادا ہوتی ہے جبکہ برآمدات کی صورتحال یہ ہے کہ نون لیگ کے آخری سال میں ٹیکسٹائل برآمدات ساڑھے تیرہ ارب ڈالر تھیں اور تحریک انصاف کی حکومت کے تین سال بعد بھی‘ گزشتہ مالی سال کے اختتام پر یہ ساڑھے پندرہ ارب ڈالر تک رہیں۔ اگرچہ اس میں بظاہر دو ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے جو پندرہ فیصد بنتا ہے مگر یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ اس دوران پاکستانی کرنسی کی قیمت میں چالیس فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔اس حساب سے پچیس فیصد کا نقصان ہوا ہے۔ معاشی اصول کے مطابق اگر تحریک انصاف نون لیگ کے دور کی برآمدات ریشو ہی برقرار رکھ لیتی تو ایکسچینج ریٹ کے مطابق 2018ء کی برآمدات میں کم از کم چالیس فیصد اضافہ ہونا چاہیے تھا۔ تکنیکی بنیادوں پر جائزہ لیا جائے تو پاکستان کی برآمدات 2018ء کی نسبت کم ہوئی ہیں لیکن اس بری کارکردگی پر اپٹما سے پوچھنے والا کوئی نہیں۔ الٹا انہیں مزید سبسڈی دینے کی بات کی جا رہی ہے۔ میں کاروباری طبقے کو سہولتیں دینے کے خلاف نہیں ہوں لیکن نفع اور نقصان کا حساب رکھے بغیر کسی مخصوص طبقے کو نوازتے رہنا ہرگز مناسب نہیں ہے۔
وزیراعظم صاحب نے جب درآمدات میں اضافے سے متعلق استفسار کیا تو گاڑیوں کی درآمدات میں ریکارڈ اضافے کو اس کا جواز بتایا گیا، ساتھ ہی انہیں بتایا گیا کہ جولائی کے مہینے میں تین ارب روپے مالیت کی 1446 ایس یو وی گاڑیاں درآمد کی گئی ہیں جن سے تقریباً چار ارب تیس کروڑ روپے ٹیکس وصول کیا گیا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گاڑیوں کی درآمدات پر ٹیکس اکٹھا کرنا پچھلی حکومتوں کی بھی پالیسی رہی ہے۔ موجودہ وزرا کا اس میں کیا کمال ہے؟ تحریک انصاف کی حکومت نے گاڑیاں درآمد کرنے کے بجائے سو فیصد ملک کے اندر تیار کرنے کا دعویٰ کیا تھا تا کہ ڈالر کو باہر جانے سے روکا جا سکے لیکن تین سال گزر جانے کے بعد بھی اس معاملے پر کوئی پیش رفت دکھائی نہیں دے رہی بلکہ کچھ کمپنیوں کو درآمدات پر بھاری ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے جو درآمدات کی حوصلہ افزائی کرنے کے مترادف ہے۔یہی وجہ ہے کہ جولائی میں تجارتی خسارہ تقریباً ساڑھے پچاسی فیصد تک پھیل چکا ہے جو تین ارب دس کروڑ ڈالر بنتا ہے۔
پلانٹ اور مشینری کی درآمد میں اضافے پر وزیراعظم خوش دکھائی دیے کیونکہ انہیں بتایا گیا کہ مستقبل قریب میں یہ ملکی برآمدات بڑھانے میں مددگار ثابت ہوں گی۔ پلانٹ اینڈ مشینری کی درآمد میں اضافہ خوش آئند ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافے کے باعث ٹیکسٹائل سیکٹر کے علاوہ دیگر مینوفیکچرز مشکلات کا شکار ہیں۔ برآمدات کے لیے پاکستانی پروڈکٹ کی قیمت کا بین الاقوامی مارکیٹ کے برابر یا اس سے کم ہونا ضروری ہے جو موجودہ حالات میں مشکل دکھائی دیتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں تیار ہونے والی بیشتر اشیا کا خام مال بیرونِ ملک سے منگوانا پڑتا ہے۔ اگر نئی مشینری اپنی مکمل صلاحیت پر کام کرتی ہے تو درآمدات میں مزید اضافہ دیکھنے میں آ سکتا ہے۔ پلانٹ اور مشینری سے صحیح معنوں میں فائدہ صرف اسی صورت اٹھایا جا سکتا ہے جب پاکستان خام مال پیدا کرنے اور بنانے میں بھی خود مختار ہو۔ دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کی برآمدات میں ٹیکسٹائل کا حصہ سب سے زیادہ ہے اور اس میں استعمال ہونے والی کپاس کا بڑا حصہ درآمد کرنا پڑتا ہے۔ پچھلے مالی سال کپاس کی درآمد میں 44 فیصد اضافہ ہوا جبکہ پاکستان کے پاس زرخیز زمین بھی ہے اور سرمایہ کار بھی۔ جب ٹیکسٹائل کا یہ حال ہے تو دیگر صنعتوں سے امید عبث ہے۔
بیرونی سرمایہ کاری کے حوالے سے بھی اعدادوشمار حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق جولائی کے مہینے میں بیرونی سرمایہ کاری پچھلے سال جولائی کی نسبت تقریباً 30 فیصد کم ہوئی ہے۔ پاکستان نے صرف نوے کروڑ ڈالر وصول کیے ہیں جبکہ سرمایہ نکالنے والوں کی تعداد میں 116 فیصد اضافہ ہوا ہے۔یہ صورتحال انتہائی گمبھیر ہے۔ اس پر وزیراعظم نے معاشی ٹیم پر ناراضی کا اظہار کیا اور جلد نئے سرمایہ کار ڈھونڈنے اور انہیں پاکستان لانے کے لیے بہتر حکمت عملی بنانے کا حکم دیا۔ وزیراعظم کی اپروچ مثبت دکھائی دیتی ہے لیکن اس پہلو پر بھی نظر دوڑانے کی ضرورت ہے کہ ملک سے سرمایہ نکلنے کی اصل وجہ کیا ہے۔ سرمایہ کارا کثر اس وقت سرمایہ کھینچ لیتے ہیں جب غیر یقینی صورتحال ہو۔ اس معاملے کو پاکستان اور طالبان کے تعلقات کے تناظر میں دیکھنا ضروری ہے کیونکہ بھارت یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ مستقبل میں جب طالبان پر امریکا اور یورپ کی جانب سے پابندیاں لگیں گی تو پاکستان بھی ان کی زد میں آئے گا۔ اس معاملے میں کتنی سچائی ہے‘ اس کا علم تو آنے والے وقت میں ہی ہو سکتا ہے۔ فی الحال حکومت کو سنجیدگی سے سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے تا کہ گرتی ہوئی بیرونی سرمایہ کاری، کم ہوتی ہوئی برآمدات اور بڑھتی ہوئی درآمدات کا سلسلہ روکا جا سکے۔