کسی بھی ملک کی معاشی مضبوطی میں ٹیکس کا نظام اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ چین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ چین میں ٹیکس کے نظام کو اس قدر ڈیجیٹل اور مضبوط کر دیا گیا ہے کہ ملک میں تقریباً 78 فیصد لین دین، کارڈز اور موبائل ایپلیکشنز کے ذریعے ہوتا ہے اورتقریباً ہر شہری کا اکائونٹ گورنمنٹ کے ٹیکس نظام سے جڑا ہوتا ہے۔ خریداری کے لیے چیز پر لگے کیو آر کوڈ کو سکین کیا جاتا ہے۔ دکاندار کی رقم اور ٹیکس کی رقم علیحدہ علیحدہ ظاہر ہو جاتی ہیں۔ اسی وقت آن لائن ادائیگی سے دکاندار کی رقم اس کے بینک اکائونٹ میں اور ٹیکس کی رقم سرکار کے اکائونٹ میں براہِ راست منتقل ہو جاتی ہے۔ ابتدائی طور پر چینی عوام اس نظام کے استعمال میں ہچکچاہٹ کا اظہار کرتے رہے کہ کہیں ان کی ذاتی معلومات چوری نہ ہو جائیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ عوام کا اعتماد بحال ہوا کیونکہ ان کے کنٹرولز اور چیک اینڈ بیلنس کے سسٹم اس قدر مضبوط ہیں کہ کئی کوششوں کے باوجود ان کا سسٹم ہیک نہیں کیا جا سکا۔ اعتماد بحال ہونے کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیں کہ عوام گورنمنٹ کو ٹول ٹیکس کی ادائیگی بھی موبائلز اور کارڈز کے ذریعے کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس نظام نے عوام کو لمبے چوڑے کھاتے رکھنے کے جھنجھٹ سے بھی آزاد کر دیا ہے۔ تمام ادائیگیاں بینک اکائونٹ یا موبائل کے ذریعے سے ہوتی ہیں اور تمام کھاتے سرکار کے ٹیکس نظام میں روزانہ کی بنیاد پر اَپ ڈیٹ ہو رہے ہیں۔ نہ کچھ چھپانے کی ضرورت ہے اور نہ ہی جھوٹے اعدادوشمار پیش کرنے کی مجبوری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین کا ٹیکس اکٹھا کرنے کا نظام پوری دنیا میں سب سے بہترتصور کیا جاتا ہے لیکن اس کے برعکس پاکستانی عوام کا پاکستان کے آن لائن ٹیکس سسٹم پر اعتماد نہیں ہے اور اس کی بڑی وجہ کمزور سکیورٹی کا نظام ہے جس پر چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کے برابر معلوم ہوتاہے۔
14 اگست کو پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایف بی آر کی ویب سائٹ کو ہیک کر لیا گیا جو تقریباً 72 گھنٹوں کے بعد بحال ہوئی۔ ایف بی آر ڈیٹا سنٹر کی 360 ورچوئل حساس مشینوں کو یا تو بند کر دیا گیا یا ان پر مکمل طور پر قابو پا لیا گیا۔ ایک اندازے کے مطابق‘ ایف بی آر ڈیٹا سنٹر میں 725 ورچوئل مشینیں ہیں یعنی نصف مشینوں پر ایف بی آر کا کنٹرول ختم ہو گیا تھا، اس واقعے نے ادارے کی ساخت کو خاصا نقصان پہنچایا ہے۔
حیرت کا معاملہ یہ ہے کہ ابھی تک یہ معلوم نہیں کیا جا سکا کہ یہ مشینیں کس نے ہیک کیں اور کیوں ہیک کیں۔ اس حوالے سے ادارے کے بعض آفیسرز کا ردعمل بھی شکوک و شبہات پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ حساس معاملے پر دو طرح کے موقف دیے گئے ہیں۔ پہلے بتایا گیا کہ ہیکرز ایڈمنسٹریٹر سسٹم کے آئی ڈی اور پاس وَرڈ ہیک کر کے ڈیٹا تک پہنچے۔ یہ کام ہائپر وی لنک کے ذریعے کیا گیا۔ اس کے بعد اس ناکامی کو ہیکنگ کے بجائے''unforeseen anomalies during the migration process‘‘کا نام دے دیا گیا۔ مطلب سسٹم ہیک نہیں ہوا تھا بلکہ ادارے کی جانب سے ڈیٹا کی منتقلی کے حوالے سے کچھ کام کیا گیا۔ حالانکہ حالات اس کے برعکس دکھائی دیتے ہیں کیونکہ سسٹم درست ہونے کے بعد ایف بی آر اور پاکستان ریونیو آٹومیشن لمیٹڈ ایک دوسرے کو ہیکنگ ختم کرنے اور سسٹم بحال ہونے کی مبارکباد دیتے دکھائی دے رہے تھے۔ متضاد بیانات سے یہ رائے تقویت اختیار کر رہی ہے کہ اپنی ناکامی چھپانے کی ناکام کوشش کی گئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق ادارے نے وزیر خزانہ شوکت ترین کو بھی درست معلومات نہیں پہنچائیں جس کے بعد انہوں نے دوسرے اداروں سے آزادانہ تحقیقات کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سارے معاملے پر ورلڈ بینک پاکستان کی رپورٹ اہمیت کی حامل ہے۔
ورلڈ بینک نے جون 2019ء میں ایف بی آر کو 400 ملین ڈالر کا قرض دیا تھا جس میں سے 80 ملین ڈالر آئی ٹی سسٹم کو جدید بنانے اور اس میں موجود خامیوں کو ختم کرنے کے لیے دیا گیا تھا لیکن ایک سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد بھی آئی ٹی سسٹم کو مطلوبہ معیار پر نہیں لایا گیا اور نہ ہی اس حوالے سے ابھی تک کوئی خریداری کی گئی ہے۔ 400 ملین ڈالر میں سے تقریباً 110 ملین ڈالر دیگر کاموں میں خرچ کیے گئے‘ کچھ رقم ادارے کے ملازمین کو بونس دینے کے لیے استعمال کر لی گئی اور سب سے اہم ایشو کو نظر انداز کر دیا گیا۔
مئی 2019ء کی ورلڈ بینک رپورٹ میں یہ بتایا گیا کہ 80 ملین ڈالر کو ایکسپائر ہونے والے ''ایکٹو-ایکٹو پرائیویٹ کلائوڈ‘‘(آئی سی ٹی) کو تبدیل کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ آئی سی ٹی ہارڈ ویئر اپنی لائف ختم کر چکا ہے، اسے بھی تبدیل کیا جائے گا۔ لیکن اس معاملے پر کوئی پیش رفت دکھائی نہیں دی۔ بظاہر اس کی وجہ سے ہی یہ واقعہ پیش آیا ہے یعنی ایف بی آر حکام کو معلوم تھا کہ ہمارا سسٹم کام نہیں کر رہا، اس کے باوجود کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ بات صرف یہاں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ رپورٹس کے مطابق پاکستان کی ایک خفیہ ایجنسی نے بھی ایف بی آر کو مطلع کیا تھا کہ ان کے ڈیٹا پر حملہ ہو سکتا ہے لہٰذا اپنے کنٹرولز مضبوط رکھیں لیکن ان وارننگز کو بھی ہوا میں اڑا دیا گیا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی ایف بی آر کو درست کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور کئی مرتبہ چیئرمین اور دیگر افسران سے وزیراعظم صاحب نے ملاقات بھی کی۔ کیا انہیں اس معاملے کا علم نہیں تھا کہ ملکی معیشت کا اہم ادارہ کسی بھی وقت دشمن کے ہاتھ جا سکتا ہے؟ اس معا ملے پر سب کو احتساب کے دائرے میں لائے جانے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم صاحب بیرونِ ملک سے سرمایہ کاری پاکستان لانے کے لیے کوششیں کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس ملک میں کمپنیوں کا ڈیٹا ہی محفوظ نہ ہو وہاں کوئی سرمایہ کاری کیسے کر سکتا ہے؟
اس حملے کا نقصان صرف عام پاکستانیوں کو نہیں بھگتنا پڑے گا بلکہ کیبنٹ ڈویژن بھی اس کی زد میں آ سکتی ہے۔ یاد رکھیے کہ اس حملے سے چند دن پہلے ہی کیبنٹ ڈویژن اپنا کاروبار آن لائن منتقل کر چکی ہے۔ ہیکرز کا ہدف جاننے کے لیے معاملے کو اس رخ سے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے بڑے ڈیٹا سنٹرز پرکامیاب حملے کے بعد حکومت کے دیگر ڈیٹا سنٹرز کی سکیورٹی پر بھی سوال کھڑے ہو گئے ہیں۔ تحریک انصاف 2023ء کے انتخابات کو الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ذریعے کروانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس حوالے سے کافی کام ہو بھی چکا ہے لیکن یومِ آزادی کے موقع پر ملک کی سب سے بڑے ڈیٹا بیس پر حملے نے الیکٹرانک ووٹنگ پر بھی شک و شبہات کھڑے کر دیے ہیں۔ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ اگر ایف بی آر جیسے منظم آن لائن نظام کو ہیک کیا جا سکتا ہے تو ووٹنگ کے نظام کو بھی اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے کیونکہ شروع شروع میں کسی بھی نظام میں بہت سی خامیاں موجود ہوتی ہیں جنہیں وقت گزرنے کے ساتھ درست کیا جا تا ہے۔
آنے والے دنوں میں ایف بی آر ہیکنگ کا معاملہ کیا رخ اختیار کرتا ہے‘ کچھ کہا نہیں جا سکتا لیکن اگر ماضی پر نظر ڈالیں تو عمومی طور پاکستان میں بڑے سیکنڈلز کی اصل رپورٹس سامنے نہ لانا پرانی روایت ہے۔ وزیرخزانہ نے آزادانہ تحقیقات کا اعلان تو کیا ہے لیکن اس پر عمل درآمد ہوتا مشکل دکھائی دیتا ہے کیونکہ جس طرح افسر شاہی نے حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہے‘ وہ فیصلے کے مستقبل کا پتا دینے کے لیے کافی ہے۔ چینی، آٹا، گھی، ادویات سمیت کئی سکینڈلز تحریک انصاف حکومت کے دور میں سامنے آئے لیکن کوئی ایک معاملہ بھی منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکا۔ وزیراعظم صاحب سے گزارش ہے کہ ایف بی آر کے معاملے پر ذاتی توجہ دیں، ذمہ داروں کو سامنے لائیں اور انہیں سزا دلانے میں اپنا کردار ادا کریں تا کہ مستقبل میں ایسا واقعہ دوبارہ نہ ہو سکے اور عوام کا ایف بی آر سمیت آن لائن سسٹم پر اعتماد بحال ہو۔