پاکستانی معیشت میں سی پیک کی اہمیت مسلمہ ہے۔ اگر پچھلے سات سالوں میں ترقیاتی اور توانائی کے منصوبوں پر نظر ڈالیں تو ان میں سے اکثرسی پیک کے تحت مکمل ہوئے ہیں۔ 2015ء سے 2018ء تک تیز رفتاری سے کام ہوا‘ بجلی کے نئے منصوبے لگے‘ گوادر بندرگاہ پر سرمایہ کاری ہوئی اور سڑکوں کا نیا جال بچھایا گیا‘ملک سے لوڈ شیڈنگ ختم ہوئی‘ نئی نوکریاں پیدا ہوئیں اور ایک امید جاگی کہ آنے والے دن مزید بہتر ہوں گے۔ لیکن تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد وزرا اور مشیران کے غیر ذمہ دارانہ بیانات کی وجہ سے سی پیک پر کام رک گیا۔ منصوبے تاخیر کا شکار ہوئے اور آج تین سال گزرنے کے بعد بھی زیادہ تر معاملات وعدوں اور اجلاسوں کے گرد گھوم رہے ہیں۔ کئی ماہ کی محنت کے بعد جولائی 2021ء میں جوائنٹ کوآرڈی نیشن کمیٹی (جے سی سی) کا دسواں اجلاس منعقد ہونا تھا جس میں ممکنہ طور پر چینی سرمایہ کاروں کے گلے شکوے دور کیے جانے تھے اور منصوبوں کی تکمیل کے حوالے سے لائحہ عمل طے کیا جانا تھا لیکن داسو والے سانحے کے بعد اجلاس معطل کر دیا گیا۔پاکستان کی جانب سے مستقبل میں سکیورٹی معاملات میں کوتاہی نہ ہونے کی یقین دہانی کے بعد 23 ستمبر کو جے سی سی کا اجلاس دوبارہ منعقد ہوا جس میں چین کے نیشنل ڈویلپمنٹ اینڈ ریفارمز کمیشن کے نائب سربراہ اور پاکستان کے وزیر برائے پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ اسد عمر سمیت تقریباً دو سو کے قریب متعلقہ لوگوں نے شرکت کی۔ پانچ منصوبوں پر دستخط کیے گئے اوراداروں کے درمیان تین کوآپریشن منصوبے بھی طے پائے۔اس اجلاس میں چینی نمائندے نے باقاعدہ طور پر اس بات کا ذکر کیا کہ یہ سال پاک چین دوستی کی 70ویں سالگرہ کا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق چین سی پیک کے تحت پاکستان میں تقریبا پچیس ارب ڈالرز سے زیادہ سرمایہ کاری کر چکا ہے۔ نقصان پہنچانے کی غرض سے یہ پروپیگنڈا بھی کیا جا رہا ہے کہ ان منصوبوں میں صرف چینی کام کر رہے ہیں جبکہ حقائق اس سے مختلف ہے۔ جن علاقوں میں منصوبوں پر کام ہو رہا ہے وہاں کی آبادی کے بڑے حصے کا روزگار ان منصوبوں سے وابستہ ہے۔ جے سی سی کے فیصلوں کے مطابق قائداعظم سولر پارک میں Zonergy کے تحت چھ سو میگا واٹ اور آزاد پتن کا سات سو میگا واٹ منصوبہ جلد مکمل کیا جائے گا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تحریک انصاف دعویٰ کرتی رہی ہے کہ پچھلی حکومتوں نے ملک میں ضرورت سے زیادہ بجلی کے منصوبے لگائے جو کہ عوامی پیسے کے ضیاع کے مترادف ہے اور دوسری طرف بجلی کے منصوبوں کو ہی جے سی سی کے اجلاس میں سب سے زیادہ اہمیت دی جارہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بجلی کے علاوہ گیس‘ آئل ریفائنریز اور انفراسٹرکچر کی تعمیر کے حوالے سے کام کیا جائے تا کہ ملک میں مہنگائی کم ہو اور تجارت کو فروغ حاصل ہو سکے۔
اس کے علاوہ چینی سرمایہ کاروں کو رقم کی ادائیگی کے مسائل حل طلب ہیں۔ چینی حکام نے کئی مرتبہ اس طرف توجہ دلانے کی کوشش کی ہے لیکن نئے وعدے کر کے معاملات کو لٹکایا جاتا رہا۔ اس میٹنگ میں اسد عمر صاحب نے ایک مرتبہ پھر ادائیگی کے نظام کو آسان بنانے کے لیے چینی حکام کے مطالبات پر من و عن عمل کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے لیکن اس پر عمل درآمد ہوتا ہے یا نہیں اس حوالے سے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ بظاہر پاکستان کی جانب سے ون بیلٹ ون روڈ کے سب سے اہم منصوبے پر غیر ذمہ داری دکھائی جا رہی ہے جس کی قیمت پاکستان کے ساتھ چین کو بھی ادا کرنا پڑ سکتی ہے کیونکہ دنیا کے سات بڑے مضبوط جمہوری ممالک امریکہ کی سربراہی میں ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کا متبادل لانے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔ ان ممالک میں امریکہ‘ برطانیہ‘ جرمنی‘ کینیڈا‘ فرانس‘ اٹلی اور جاپان شامل ہیں۔ انہیں جی سیون ممالک بھی کہا جاتا ہے۔ اس منصوبے کا نام Build Back Better World(B3W) رکھا گیا ہے جس کے تحت دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں سرمایہ کاری کر کے انہیں معاشی طور پر مضبوط بنانے کی کوشش کی جائے گی۔ خاص طور پر ایسے ممالک جہاں چین نے بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے کیونکہ اس منصوبے کا مقصد بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود نہیں بلکہ چین کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کو کم کرنا ہے۔ 1979ء میں چین کی معیشت اٹلی سے بھی نچلی سطح پر تھی لیکن آج وہ دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت ہے۔ 2013ء میں شروع ہونے والے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے تحت چین ایشیا سے لے کر یورپ تک کے 100 سے زیادہ ممالک سے معاہدے کر چکا ہے اور وہ کسی نہ کسی شکل میں اس منصوبے کے ساتھ جڑ چکے ہیں۔ جی سیون اس معاملے کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے جوڑ رہے ہیں۔ پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ چین اپنا کمیونزم نظام پوری دنیا پر مسلط کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے‘ کمزور ممالک کے غریب مزدوروں پر ظلم کیا جا رہا ہے‘ ان ممالک کے وسائل پر قبضہ کر کے انہیں چین کی ترقی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اورتجارت کی آڑ میں سیاسی اثرو رسوخ بڑھایا جا رہا ہے تا کہ مستقبل میں ہونے والی ممکنہ جنگ کے لیے وقت سے پہلے تیاری کی جا سکے۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً 2600 منصوبے ون بیلٹ ون روڈ کے تحت مکمل ہو چکے ہیں جن پر تقریباً تین کھرب 70 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی جا چکی ہے۔ چینی رپورٹس کے مطابق کووڈ کی وجہ سے 20 فیصد منصوبے بری طرح متاثر ہوئے ہیں یعنی اگر دنیا کے حالات نارمل رہتے تو مزید منصوبے مکمل ہو چکے ہوتے۔ اس کے علاوہ ڈالر کی اجارہ داری ختم کرنے کے لیے بھی مضبوط نظام تشکیل دیا جارہا ہے۔ چین ون بیلٹ ون روڈ منصوبوں سے جڑے ممالک کی تجارت ڈالر کی بجائے چینی کرنسی یوان میں کرنے پر زور دے رہا ہے بلکہ کچھ ممالک کے ساتھ تو معاہدے ہو بھی چکے ہیں جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔چین اور پاکستان نے یوان میں تجارت کرنے کے معاہدے پر دستخط کر رکھے ہیں گو کہ ابھی تک اس پر عمل نہیں ہو سکا ہے لیکن آئی ایم ایف کے دباؤ سے نکلنے کے بعد اس پر عمل درآمد کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔ ان خدشات کے پیش نظر B3W منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جا رہی ہے جس کے تحت 2035ء تک ترقی پذیر ممالک میں 40 ٹریلین ڈالر خرچ کیے جائیں گے۔ یہ سرمایہ صحت‘ فضائی آلودگی‘ برابر انسانی حقوق اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی پر خرچ کیا جائے گا۔ ان شعبوں میں سرمایہ کاری کا مقصد دنیا کو یہ باور کروانا ہے کہ چین دنیا کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور امریکہ اس سرمایہ کاری کو چین کے برعکس سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کرے گا۔ امریکہ سمیت جی سیون ممالک کا یہ دعویٰ کتنا درست ہے اس کا اندازہ مستقبل میں ہو جائے گالیکن اگر ماضی کے معاملات پر نظر دوڑائیں تو یہ سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی کہ امریکہ کی امداد ہمیشہ مشروط ہوتی ہے اور وہ شرائط تجارتی بنیادوں کی بجائے حاکمیت کی بنیادوں پر طے کرتا ہے۔ پاکستان کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ جب بھی یو ایس ایڈ یا کسی اور منصوبے کے تحت امداد دی جاتی ہے تو اس کے ساتھ ہی نصاب میں تبدیلیوں سمیت کئی شرائط رکھ دی جاتی ہیں‘ لہٰذا امریکہ کے اس دعوے پر زیادہ بھروسا نہیں کیا جا سکتا۔ ان حالات میں سی پیک پر غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا بہت سے سوالات کو جنم دے رہا ہے۔ یہ رائے تقویت اختیار کرتی جا رہی ہے کہ شاید پاکستان جی سیون ممالک سے بھی معاہدے کرنے کی راہ ہموار کر رہا ہے۔ گو کہ یہ پاکستانی معیشت کے لیے وقتی طور پر بہتر ہو سکتا ہے لیکن ماضی کے تجربات بتاتے ہیں کہ مشکل وقت میں چین ہی پاکستان کا سٹریٹیجک پارٹنر رہا ہے اور جب بھی پاکستان چین کو چھوڑ کر امریکی لابی کا حصہ بنا ہے یہاں حالات خراب ہوئے ہیں۔