سی پیک کے حوالے سے خبریں زیادہ پُرامید نہیں ہیں۔ یہ کب مکمل ہوتا ہے اور کب گوادر بندرگاہ ملکی معیشت کو پروان چڑھانے میں اپنا حصہ ڈالے گی‘ اس کاذکر میں بعد میں کروں گا۔ فی الحال اہم خبر یہ ہے کہ اسلام آباد، تہران، استنبول روڈ ٹرانسپورٹ کوریڈور کا افتتاح ہو گیا ہے۔ اس منصوبے کی بنیاد 2011ء میں ترکمانستان میں منعقد ہونے والی اکنامک کارپوریشن آرگنائزیشن ( ای سی او) میں رکھی گئی تھی۔ اس کے تحت ترکی‘ ایران اور پاکستان سے تجارت سڑک کے راستے شروع کی جانا تھی۔ یہ 5320 کلو میٹر کا راستہ ہے۔ 27 ستمبر کو کراچی سے نیشنل لاجسٹکس کمپنی کے ٹرک روانہ ہوئے اور 7 اکتوبر کو بذریعہ ایران استنبول پہنچے جہاں ایک شاندار تقریب منعقد ہوئی۔ ایران‘ پاکستان اور ترکی کے عہدیداروں کے علاوہ جنیوا سے تعلق رکھنے والے انٹرنیشنل رگبی یونین کے سیکرٹری جنرل نے بھی شرکت کی۔ اس راستے کی اہمیت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایشیا سے یورپ میں تجارت کے لیے نہر سویز کا راستہ استعمال کیا جاتا ہے۔ مارچ 2021ء میں نہر سویز بند ہو جانے کے بعد یہ سوال اٹھائے جانے لگے تھے کہ کوئی متبادل اور سستا راستہ بھی تلاش کیا جائے تا کہ ایمرجنسی کی صورت میں دنیا کا نظام رک نہ جائے۔ اس حوالے سے اسرائیل بھی نہر سویز کی طرز پر ایک نئی نہر بنانے کا پرانا منصوبہ سامنے لے کر آیا جس کے لیے عرب ممالک کی حمایت کی ضرورت تھی۔ گو کہ دنیا نے اس منصوبے کی حمایت نہیں کی لیکن ایشیا کو یورپ سے ملانے کے لیے پاکستان، ایران اور ترکی کے راستے کو زیر بحث لایا گیا۔اگرچہ زمینی راستہ سمندری راستے کا متبادل نہیں ہو سکتا لیکن ایمرجنسی صورتحال میں یہ بہترین آپشن کے طور پر ضرور استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس منصوبے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ترکی یورپ کا حصہ ہے اور پاکستان اس راستے کے ذریعے اپنا سامان سڑک کے ذریعے یورپ بھجوا سکتا ہے۔ اس کی اہمیت صرف پاکستان کے لیے نہیں بلکہ چین بھی اس سے مستفید ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
چین اس وقت دنیا کا سب سے بڑا ایکسپورٹر ہے۔ سی پیک بنانے کا مقصد بھی پاکستان تک رسائی اور یہاں سے یورپ تک سامان کی ترسیل کو کم خرچ میں ممکن بنانا تھا‘ جو اب زمینی راستے سے بھی ممکن ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ پاکستان چین کے علاوہ ترکی کی دلچسپی بھی بلاوجہ نہیں ہے۔ ترکی چین کے ساتھ دیر پا تجارتی تعلقات قائم کرنے کا خواہاں ہے۔ امریکا کے منفی رویے اور لگائی جانے والی پابندیوں کے پیشِ نظر اس کا جھکاؤ چین، روس اور پاکستان بیلٹ میں شمولیت کی طرف دکھائی دیتا ہے۔ آج کے دور میں اگر کوئی طاقت ملکوں کو آپس میں جوڑ سکتی ہے تو وہ معیشت ہے اور پاکستان ایک اہم ترین گزر گاہ ہونے کی وجہ سے معاشی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب چین دنیا کی سب سے تیزی سے ابھرتی ہوئی طاقت ہے اور پاکستان اس کا سب سے بڑا اتحادی بن کر دنیا کے سامنے آیا ہے۔ اس موقع پر حکومت سے یہ بھی گزارش ہے کہ وہ اس منصوبے کو عالمی سازش کا شکار ہونے سے بچائے اوراس میں مزید آسانیاں اور سہولتیں پیدا کرنے کی راہ ہموار کرے۔ اس کے ملکی معیشت پر کافی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
نئے کوریڈور کی اہمیت اپنی جگہ لیکن پاکستانی معیشت کی ترقی کو پچھلے کئی سالوں سے سی پیک سے جوڑا جا رہا ہے۔ عوام کو یہ بتایا جاتا ہے کہ سی پیک پاکستان کی قسمت بدل دے گا۔ اس سے تجارت بڑھے گی‘ ملک میں معاشی خوشحالی آئے گی‘ گوادر کی بندرگاہ دبئی اور سنگاپور سے زیادہ آمدن کمائے گی اور گوادر کے مقامی لوگوں کو روزگار ملے گا۔ آٹھ سال گزر جانے کے بعد بھی یہ دعوے سچ ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔ حکومتی وعدوں پر یقین کر کے پاکستانیوں نے کھربوں روپوں کی سرمایہ کاری کے منصوبے بنائے‘ رئیل اسٹیٹ کے کاروبار میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری ہوئی‘ نجی کمپنیوں کی دن رات کی محنت کے باوجود بھی مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو پا رہے۔ ان حالات میں یہ سوا ل اٹھتا ہے کہ کیا گوادر کی آب و ہوا، زمین، انفراسٹرکچر اور مقامی سکیورٹی کی صورتحال اس قابل ہے کہ یہ دنیا کی جدید ترین بندرگاہوں کی فہرست میں جگہ پاسکے؟
اگر حقائق پر نظر دوڑائیں تو یہ استفہام بے معنی دکھائی نہیں دیتا۔ چیئرمین گوادر پورٹ اتھارٹی یہ اعتراف کرتے دکھائی دیتے ہیں‘ ان کا کہنا ہے کہ ''گوادر کی بہترین سٹریٹیجک حیثیت اور دنیا کی گہری ترین قدرتی بندرگاہ ہونے کے باوجود یہ ابھی تک مطلوبہ کاروبار لانے میں ناکام رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہ دنیا کے کل تیل کے ایک تہائی حصے کی نقل و حرکت کے لیے سہولت فراہم کرتی ہے۔ حکومتی اقدامات حوصلہ افزا ہیں۔ ہینڈلنگ چارجز یا تو دیگر بندرگاہوں کے برابر ہیں یا کم ہیں۔ بندرگاہ کے علاوہ کنٹینرز کو راستے میں بھی سکیورٹی فراہم کی جاتی ہے۔ کسٹم کلیئرنس دیگر بندرگاہوں کی نسبت کم ہے۔ تاجروں کی مشکلات کو کم کرنے کے لیے تین ماہ تک سامان بندرگاہ پر مفت رکھنے کی بھی اجازت ہے۔ ان سہولتوں کے باوجود بھی درآمدکندگان اور برآمدکندگان گوادر بندرگاہ سے تجارت کرنے سے گریزاں ہیں۔ اس حوالے سے سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والی ایکسپورٹر تنظیم کے ایک عہدیدار سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ گوادر بندرگاہ پر تاحال بہتر انفراسٹرکچر نہیں ہے‘ بجلی کے مسائل شدید ہیں‘ سڑکیں تعمیر نہیں ہوئی ہیں‘ پینے کے لیے پانی دستیاب نہیں ہے‘ ایک سڑک کا دوسری کے ساتھ رابطہ نہیں ہے‘ انٹرنیٹ کی سہولت میسر نہیں ہے۔ اگر حکومت حقیقی معنوں میں سہولتیں فراہم کر رہی ہوتی تو لوگ گوادر سے مال منگوانے کو ترجیح دیتے تا کہ اس راستے پر عوام کا اعتماد بحال ہوتا لیکن کئی مرتبہ یہ تجربہ کر کے ہم نقصان اٹھا چکے ہیں اس لیے جب تک حکومت مطلوبہ سہولتیں فراہم نہیں کرتی‘ گوادر بندرگاہ کو استعمال کرنے کی راہ ہموار نہیں ہو سکتی۔ حکومت سے گزارش ہے کہ اس حوالے سے اپنی پوزیشن واضح کرے‘ اس کے خاموش رہنے سے ملک کا نقصان ہو رہا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ خبر صرف چند لوگوں تک محدود ہے بلکہ بورڈ آف انویسٹمنٹ بھی اس حوالے سے تحفظات کا اظہار کر چکا ہے۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے۔ اگر تجارتی تنظیمیں اور سرمایہ کار اس بارے میں معلومات رکھتے ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ حکومت زمینی حقائق سے آگاہ نہ ہو۔ گوادر پورٹ اتھارٹی کے ذرائع کے مطابق اس معاملے کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ گوادر بندرگاہ بنانے کی ذمہ داری چین کی ہے‘ معاہدے کے مطابق بندرگاہ کی آمدن کا 91 فیصد چین کی ملکیت ہے اور بقیہ 9 فیصد پاکستان کے حصے میں آئے گا اور یہ معاہدہ چالیس سال کے لیے ہے۔ چین پاکستان میں سڑکیں بنانے اور بجلی کے منصوبے لگانے میں تیز رفتاری سے کام کر رہا ہے لیکن گوادر بندرگاہ کی تعمیر میں مطلوبہ تیزی دکھائی نہیں دے رہی۔ پاکستانی قوم سمیت پوری دنیا کی نظریں گوادر بندرگاہ پر ہیں لیکن یہ منزل فی الحال دور نظر آتی ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ اسلام آباد، تہران اور ترکی کوریڈور سے حقیقی فائدہ بھی اس وقت اٹھایا جا سکے گا جب گوادر بندرگاہ اور سی پیک مکمل ہوں گے۔ سی پیک کے ذمہ داران کو اس معاملے پر عوام کو اعتماد میں لینے ضرورت ہے تا کہ بے یقینی کی کیفیت ختم ہو سکے۔