اقتدار کے ایوانوں سے لے کر گھروں کے ڈارئنگ رومز تک سعودی عرب سے ملنے والا چار ارب بیس کروڑ ڈالرز کا قرض زیر بحث ہے۔ وزیراعظم مطمئن دکھائی دے رہے ہیں اور وزیرخزانہ فاتحانہ انداز اختیار کیے ہوئے ہیں لیکن عوام ابھی تک فیصلہ نہیں کر پائے کہ انہیں خوش ہونا ہے یا نہیں۔ عوام ایسا کیوں سوچ رہے ہیں‘ یہ میں آپ کو آگے چل کر بتاؤں گا فی الحال آپ یہ جان لیں کہ سعودی عرب کے تین ارب ڈالرز سٹیٹ بینک آف پاکستان میں رکھے جائیں گے اور ایک ارب بیس کروڑ ڈالرز کا ریفائند تیل پاکستان کو دیا جائے گا۔ اس پر شرح سود تقریباً سوا تین فیصد ہے۔ اس ڈیل پرحماد اظہر اور فواد چوہدری کے ٹویٹس کے فوراً بعد پاکستانی روپیہ مضبوط ہوا ہے‘ڈالر تقریباً تین روپے نیچے آ چکا ہے‘ سونے کی قیمت بھی کم ہو رہی ہے اور آٹو مینوفیکچررز نے گاڑیوں کی قیمتیں بڑھانے کا فیصلہ بھی مؤخر کر دیا ہے۔ اگر اضافہ ہوا تو حکومت کے لگائے گئے نئے ٹیکسز کی بنیاد پر ہو سکتا ہے لیکن ان مثبت خبروں کے باوجود بھی عوام خوش دکھائی نہیں دے رہے۔ان کا خیال ہے کہ سعودی عرب سے جب بھی خصوصی قرض ملتا ہے پاکستان کے سفارتی تعلقات میں سرد مہری آ جاتی ہے۔ دنیا میں کوئی لنچ مفت نہیں ملتا‘ ہر مہربانی کی ایک قیمت ہوتی ہے جو چکانا پڑتی ہے۔ تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ خدشہ درست معلوم ہوتا ہے۔
مارچ 2014ء میں نواز شریف کی حکومت میں ڈالر100 سے بڑھ کر110 روپے کا ہو گیا۔ اسحاق ڈار نے خبر دی کہ دوست ملک نے پاکستان کو ڈیڑھ ارب ڈالر تحفے میں دیے ہیں جو کہ سٹیٹ بینک میں جمع کروا دیے گئے ہیں۔ اس کی وجہ سے ڈالر 110 روپے سے کم ہو کر تقریباً 98 روپے تک آ گیا ۔بعدازاں معلوم ہوا کہ مدد کرنے والا ملک سعودی عرب تھا۔ امداد دینے کے کچھ مہینوں بعد سعودی عرب نے یمن جنگ کے لیے پاکستان سے عسکری خدمات مانگ لیں لیکن ملکی مفادات کو دیکھتے ہوئے نواز شریف نے سعودی بادشاہ کو انکار کر دیا۔اس پر پاکستان کو ڈیڑھ ارب ڈالر کی امداد کے بارے میں بھی یاد کروایا گیا لیکن معاملات بہتر نہ ہوسکے۔ سعودی عرب اور شریف فیملی کے تعلقات بھی خراب ہو گئے جو شاید آج تک پہلے کی سطح پر نہیں آ سکے۔ اس کے بعد 2018ء میں عمران خان وزیراعظم بنے تو ملک معاشی اعتبار سے وینٹی لیٹر پر تھا۔ ڈالر بڑھ رہا تھا اور ملک چلانے کے لیے زرمبادلہ کے ذخائر ختم ہو رہے تھے۔ اس صورتحال میں ایک مرتبہ پھر سعودی عرب کا رخ کیا گیا۔ چھ ارب ڈالر کا قرض پیکیج ملا۔ حکومت نے خود شادیانے بجائے لیکن جلد ہی اس کی بھی قیمت چکانا پڑ گئی۔ مبینہ طور پر پاکستان کو کشمیر معاملے پر او آئی سی اور سعودی عرب کے کردار پر تنقید کرنے سے روکا گیا۔ حکم عدولی پر چھ ارب ڈالرز کی ڈیل کینسل کر دی گئی۔ ادھار تیل کی فراہمی معطل کر دی اور تین ارب میں سے دو ارب ڈالرز واپس مانگ لیے گئے۔ پاکستان نے چین سے ادھار لے کر قرض کی ادائیگی کی۔ بات صرف یہاں پر ختم نہیں ہوئی بلکہ کوالالمپور سمٹ میں وزیر اعظم عمران خان کو جانے سے روکا گیا۔ مبینہ طور پر حکم عدولی کی صورت میں سعودی عرب میں مقیم لاکھوں پاکستانیوں کو ملک بدر کرنے کی دھمکی دی گئی۔ سعودعی سرکاری ذرائع نے اس خبر کی تردید کی لیکن باخبر حلقوں کا ماننا ہے کہ یہ خبر درست تھی۔ بعدازاں اس کا ذکر ترک صدر طیب اردوان نے اپنی تقریر میں بھی کیا۔
اب ایک مرتبہ پھر ڈالر کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے جبکہ آئی ایم ایف قرض دینے کی سخت شرائط پر عمل درآمد کروانے پر بضد ہے۔ان حالات میں پاکستان کو کسی بیرونی سہارے کی ضرورت تھی اور سعودی عرب نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کو ڈیل آفر کی۔ اس کے بدلے میں پاکستان کو کیا قیمت ادا کرنی ہے‘ اس بارے میں معلومات محدود ہیں۔ نہ ہی وزرا کوئی بیان جاری کر رہے ہیں اور نہ ہی وزیراعظم ہاؤس سے لب کشائی کی گئی ہے۔حکومت پاکستان کو اس کی کیا قیمت ادا کرنا پڑے گی اور اس کے خطے پر کیا سیاسی اثرات مرتب ہوں گے اس بارے میں جلد ہی حقائق سامنے آ جائیں گے۔
اس ڈیل کے پاکستان پر کیا معاشی اثرات مرتب ہوں گے اس حوالے سے سابق وزیرخزانہ حفیظ پاشا سے میری گفتگو ہوئی ار انہوں نے بتایا کہ معاشی اعتبار سے یہ ایک اچھی خبر ہے کہ سعودی عرب مالی مدد کے لیے پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے اور ڈالر کی قیمت بھی گر رہی ہے لیکن اس سے کوئی ڈرامائی تبدیلی آنے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ پاکستان کے مسائل آئی ایم ایف کے ساتھ جڑے ہیں‘ انہوں نے سابق وزیر خزانہ حفیظ شیخ صاحب کے کیے گئے معاہدوں پر عمل درآمد کرنے کے لیے کہا ہے جس کے مطابق پٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس اور پٹرولیم لیوی کم نہیں کی جائے گی‘لیکن حکومت پٹرولیم مصنوعات پر تقریباً 450 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ دے چکی ہے جس پر آئی ایم ایف ناراض ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حکومت پٹرولیم مصنوعات پر مزید ٹیکس بڑھانے کی یقین دہانی کروا چکی ہے جس سے تیل کی قیمتیں پانچ سے نو روپے تک مزید بڑھ سکتی ہیں۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں آئی ایم ایف نے قرض معاہدہ مکمل ختم کرنے کی دھمکی دی ہے۔ حفیظ پاشا صاحب کا کہنا تھا کہ اس وقت آئی ایم ایف معاہدہ معطل ہے جو کہ حکومت کے لیے فائدہ مند ہے کیونکہ اس سے آئی ایم ایف کی چھتری بھی ملی رہتی ہے اور سخت شرائط بھی ماننا نہیں پڑتیں۔ ورلڈبینک‘ اے ڈی بی بھی قرض دیتے رہتے ہیں۔ اصل مسئلہ اس وقت پیدا ہو گا جب معاہدہ مکمل ختم کر دیا جائے گا۔ اس وقت بیرونی بینکوں سے قرض ملنا تو دور پاکستان کے مقامی بینکوں سے قرض ملنا بھی مشکل ہو جائے گا۔ حکومت کو سالانہ 24 ارب ڈالرز کی ضرورت ہے جو کہ آمدن سے حاصل ہونا ناممکن ہیں لہٰذا مزید قرض لینا پڑیں گے جس کے لیے آئی ایم ایف پروگرام میں رہنا ضروری ہے۔ آئی ایم ایف کے بقیہ چار ارب ڈالرز دنیا سے مزید 20 ارب ڈالرز لینے کی راہ ہموار کریں گے۔ اس وقت پاکستان کی کامیابی اسی صورت میں ہو سکتی ہے کہ وہ مزید چھ ماہ تک آئی ایم ایف معاہدہ معطل رکھے اور اسے مکمل کینسل نہ ہونے دے۔ حکومت کو سعودی قرض پر زیادہ خوش ہونے کی بجائے آئی ایم ایف کی فکر کرنی چاہیے۔
حفیظ پاشا صاحب کے خدشات درست دکھائی دیتے ہیں لیکن سرکار ان کی تجاویز پر عمل کرتی ہے یا نہیں اس بارے کچھ نہیں کہا جا سکتا ‘تاہم ایک بات یقینی ہے کہ آنے والے دن اچھی خبریں لاتے دکھائی نہیں دے رہے۔ اس حوالے سے ایک سابق حکومتی معاشی ترجمان کا کہنا تھا کہ سعودی ڈیل سے ڈالر کی قیمت کم ہونا خوش آئند ہے۔آنے والے دنوں میں قیمت کے بارے میں پیش گوئی کرنا مشکل ہے لیکن مارکیٹ رویوں کے پیش نظر ایسا ممکن ہے کہ جن لوگوں نے ڈالرز جان بوجھ کر باہر روک رکھے ہیں وہ بھی اب پاکستان منگوائیں گے جس سے رسد بڑھے گی اور ڈالر کی قیمت مزید نیچے آئے گی لیکن اس کا اصل فائدہ اس وقت ہوگا جب ڈالر کی قیمت کم ہونے سے مہنگائی بھی کم ہو۔ عام آدمی کا مسئلہ آٹا‘ چینی‘ دال‘ بجلی اور گیس کی قیمتیں ہیں‘ جس دن ان میں کمی واقع ہو گی وہ دن ان کے لیے خوشی کا ہو گا۔ ملکوں کے درمیان معاہدے معاشیات دانوں اور حکمرانوں کی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔ عام آدمی کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔یہ رائے عوام کی نبض پر ہاتھ رکھنے کے مترادف ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ سرکار بھی عوام کی نبض کا حال معلوم کرے اور ان کے مسائل حل کرنے کی طرف توجہ دے۔