آئی ایم ایف کی شرائط کا طوفان پاکستانی عوام کی جانب بڑھ رہا ہے جسے وہ روک نہیں سکتے‘ صرف دیکھ سکتے ہیں۔ بے بسی کی اس کیفیت میں وہ صرف یہ جاننے کے منتظر ہیں کہ اس مرتبہ یہ طوفان ان پر کتنا بھاری پڑے گا۔ آئی ایم ایف اور حکومت پاکستان کے درمیان اعصاب کی جنگ چل رہی ہے جس میں ممکنہ طور پر جیت آئی ایم ایف کی ہی دکھائی دے رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے بڑے پہلوان سے جیتنے کے لیے جس طاقت کی ضرورت ہوتی ہے جو ممکن دکھائی نہیں دیتی۔ وہ دور بھی اچھا تھا‘ جب الہ دین کا چراغ ہوا کرتا تھا، سامری جاودوگر کا بول بالا تھا اور ناممکنات کو ممکن کردیا جاتا تھا۔ آج کے دور میں اگر یہ سہولتیں موجود ہوتیں تو بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیے بغیر، سبسڈیوں کو ختم کیے بغیر، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیے بغیر اور روپے کی قدر گھٹائے بغیر آئی ایم ایف سے چھ بلین ڈالرز لے لیے جاتے۔ فی الحال صورتِ حال زیادہ تسلی بخش دکھائی نہیں دے رہی۔ 5 اکتوبر کوشروع ہونے والے اجلاس کا ابھی تک کوئی مثبت نتیجہ سامنے نہیں آیا، البتہ مشیرِ خزانہ شوکت ترین صاحب ہر چند دن بعد میڈیاپر آکر بیان جاری کر دیتے ہیں کہ بہت جلد آئی ایم ایف سے معاملات طے پا جائیں گے۔ یہ بیان وقت کے ساتھ بدلتے رہے ہیں۔ پہلا رویہ جارحانہ ہوتا ہے جس میں وہ بڑے دعوے کیے جاتے ہیں‘ اس کے بعد ان کی شدت میں کمی آنے لگتی ہے۔ پاکستان کے خراب معاشی حالات کا تعلق دنیا کی معیشت سے جوڑا جاتا ہے اور اس کے بعدتقریباً تمام مطالبات من و عن مان لیے جاتے ہیں۔ بجٹ پیش کرنے سے پہلے ترین صاحب نے فرمایا کہ ہم اس بجٹ میں آئی ایم ایف کی کوئی بات نہیں مانیں گے‘ یہ ہمارے ملک کا بجٹ ہے‘ بجٹ میں کوئی مہنگائی نہیں کی جائے گی۔ اس طرح کے نعروں اور دعووں کو وقتی طور عوامی پذیرائی بھی مل جاتی ہے لیکن ملکی معیشت کے پیش نظر ایسے دعوے پورے کرنا کافی مشکل ہوتا ہے اور جب یوٹرن لینا پڑتا ہے تو یہ عمل مزید شرمندگی کا باعث بن سکتا ہے۔ اس بار بھی حکومتی وعدوں کے برعکس مہنگائی بھی ہوئی‘ آئی ایم ایف کے مطالبات بھی مانے گئے اور پھر بھی قرض بحال نہیں ہوا۔
شوکت ترین صاحب نے اب نیا بیان یہ جاری کیا ہے کہ آئی ایم ایف نے قرض بحالی کے لیے پانچ شرائط رکھی ہیں۔ پہلی شرط بجلی کے ریٹس میں اضافہ ہے‘ جو کہ پہلے ہی پورا کیا جا چکا ہے‘ اب مزید اضافہ نہیں ہو گا۔ ان کا یہ بیان بھی بظاہر حقائق کے منافی دکھائی دیتا ہے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ آئی ایم ایف بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے مطمئن نہیں اور حکومت آنے والے دنوں میں بجلی مزید مہنگی کرنے جا رہی ہے۔ دوسری شرط سٹیٹ بینک آف پاکستان کی خود مختاری کے حوالے سے قانون سازی ہے۔ وزیر قانون فروغ نسیم نے حالیہ وڈیو لنک میٹنگ میں آئی ایم ایف کو یہ سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ یہ مطالبہ پاکستانی قوانین کی خلاف ورزی کے زمر ے میں آتا ہے۔ ترین صاحب نے تو یہ بیان بھی دیا تھا کہ ہمارے پاس دو تہائی اکثریت نہیں ہے کہ اسے اسمبلی سے منظور کروا سکیں لیکن دونوں ذمہ داران شاید ان حقائق کو نظر انداز کر گئے کہ عالمی ادارہ پاکستانی نظام کو مقامی سیاستدانوں کی نسبت زیادہ بہتر انداز میں سمجھتا ہے۔ طویل مذاکرات کے بعد اب اس بیان میں بھی نرمی دکھائی دے رہی ہے۔ جن مطالبات کو پاکستانی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا جا رہا تھا‘ ان کی حوالے سے اب کہا جا رہا ہے کہ وزارتِ قانون اس پر کام کر رہی ہے اور بہت جلد معاہدہ ہو جائے گا۔ اطلاعات یہ ہیں کہ سٹیٹ بینک کی خودمختاری والا معاملہ آئی ایم ایف کے مطالبات کے عین مطابق حل کیا جا رہا ہے، جس کے بعد وزیر خزانہ سے زیادہ اختیارات گورنر سٹیٹ بینک کے پاس آ جائیں گے۔
تیسری شرط ٹیکس چھوٹ کا خاتمہ ہے۔ اس میں پٹرولیم مصنوعات اور صنعتی شعبے کو بجلی، گیس پر دی گئی ٹیکس چھوٹ بھی شامل ہیں۔ حکومت نے مبینہ طور پر یہ مطالبہ بھی مان لیا ہے جس کے عوام کی جیب پر منفی نتائج مرتب ہو سکتے ہیں۔ صنعتی شعبہ اس کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھا کر نہیں رکھ سکتا‘ وہ اس بوجھ کو کسٹمرز پر منتقل کر دے گا جس سے مہنگائی مزید بڑھ سکتی ہے۔ پچھلے ماہ مہنگائی کی شرح 9 فیصد سے زیادہ ریکارڈ کی گئی جو اس ماہ کے اختتام پر 10 فیصد تک بڑھ جانے کی توقع ہے۔ چوتھی شرط ایکسچینج ریٹ سے متعلق ہے۔ وفاقی وزرا یہ بیان دیتے دکھائی دیتے ہیں کہ ڈالر کی قیمت کا تعین مارکیٹ خود کرتی ہے‘ سرکار کا اس میں کوئی کردار نہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر آئی ایم ایف کو ایکسچینج ریٹ پر کیا تحفظات ہو سکتے ہیں؟ اطلاعات یہ ہیں کہ ڈالر ریٹ کو 200 روپے تک بڑھانے کے حوالے سے آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرائی جا چکی ہے جس کی بروقت تکمیل نہ ہونے کے باعث تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے، واللہ اعلم۔
اس حوالے سے اصل صورتحال سے آگاہ کرنے کے بجائے شوکت ترین صاحب فرما رہے ہیں کہ آئی ایم ایف کے قرض کی قسط بحال ہونے کے بعد روپے کی قدر میں بہتری آئے گی‘ ڈالر کی قیمت کم ہو جائے گی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کتنی دیر کے لیے قیمت کم رہے گی۔ سعودی عرب سے 4 ارب 20 کروڑ ڈالر قرض منظور ہونے کے بعد ڈالر 175 روپے سے کم ہو کر 170 روپے تک آیا لیکن چند ہی دنوں بعد بڑھ کر 178 روپے تک جا پہنچا۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آئی ایم ایف سے قرض منظوری کے بعد وقتی طور پر ڈالر کمزور ہو سکتا ہے لیکن پھر پہلے سے زیادہ شدت سے قیمت میں اضافے کے چانسز ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ آٹھ ماہ قبل آئی ایم ایف سے 500 ملین ڈالرز کی وصولی کے بعد ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے بھی قرض فراہم کیے تھے جس سے وقتی طور پر ڈالر کی قیمت کم ہوئی تھی۔ وزارتِ خزانہ کے ذرائع اس وقت بھی یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ ڈالر کی قدر میں مزید اضافہ نہیں ہو گا لیکن حالات اس کے برعکس رہے۔
پانچویں شرط مانیٹری پالیسی کے حوالے سے ہے۔ مشیرِ خزانہ نے اس معاملے پر تمام ذمہ داری سٹیٹ بینک پر ڈال دی ہے اور اس ایشو سے متعلق کسی سوال کا جواب نہیں دیا۔ اطلاعات ہیں کہ آئی ایم ایف نے شرحِ سود بڑھانے کے لیے دبائو ڈالا ہے۔ اس حوالے سے فیصلہ سازی کا اختیار سٹیٹ بینک کا ہے۔ عمومی رائے یہ ہے کہ موجودہ گورنر سٹیٹ بینک آئی ایم ایف کے مطالبات پر مزاحمت نہیں کرتے‘ شاید یہی وجہ ہے کہ حکومت پر زیادہ دبائو سٹیٹ بینک کی خودمختاری کے حوالے سے ہے۔ شرحِ سود میں اگر اضافہ کیا جاتا ہے تو اس سے کاروباری حجم سکڑنے کا خدشہ ہے۔ ترین صاحب دعویٰ کر رہے ہیں کہ شرح نمو پانچ فیصد سے زیادہ رہے گی لیکن اگر شرحِ سود بڑھائی جاتی ہے تو اس ہدف کو حاصل کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔
ان حالات میں آئی ایم ایف کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا‘ اس کا اندازہ تقریباً ہو چکا ہے لیکن دوسری جانب وزیراعظم صاحب فرما رہے ہیں کہ بہت جلد عوام کو خوشخبری دیں گے۔ اس بیان کے بعد عوامی حلقے پریشان دکھائی دیتے ہیں کیونکہ عوام سے حالیہ خطاب سے پہلے بھی حکومت کی جانب سے خوشخبری دینے کا وعدہ کیا گیا تھا جس کا اختتام 11 روپے فی لیٹر پٹرول کی قیمت میں اضافے پر ہوا جو عوام کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔ عوام کے لیے اس وقت خوشخبری یہی ہے کہ انہیں مزید کوئی بری خبر نہ دی جائے۔ سرکار سے گزارش ہے کہ اگر وہ عوام کے دکھوں کا مداوا نہیں کر سکتی تو ان کی مشکلات میں اضافہ بھی مت کرے۔