سٹیٹ بینک کی نئی مانیٹری پالیسی جاری کر دی گئی ہے۔ شرحِ سود میں سو پوائنٹس کا اضافہ ہوا ہے۔ گورنر سٹیٹ بینک کے مطابق کرنٹ اکائونٹ خسارہ کم کرنے کے لیے یہ قدم اٹھانا ناگزیر ہو گیا تھا۔ درآمدات آٹھ ارب ڈالر تک بڑھ چکی ہیں اور برآمدات تین ارب ڈالر سے زیادہ نہیں ہو رہیں۔ اگر ابھی راستہ نہیں روکا تو ڈالر ذخائر میں کمی ہو سکتی ہے اور پاکستان کو ایک مرتبہ پھر ہاٹ منی کا سہارا لینا پڑ سکتا ہے۔ گورنر سٹیٹ بینک رضا باقر کا یہ خدشہ درست ہو سکتا ہے لیکن سٹیٹ بینک کے موجودہ فیصلوں کے باوجود حالات مزید الجھتے دکھائی دے رہے ہیں اور سلسلہ دوبارہ ساڑھے تیرہ فیصد شرحِ سود کی طرف جاتا دکھائی دے رہا ہے یعنی مہنگائی اور بیروزگاری میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ یہاں گورنر سٹیٹ بینک کا مؤقف مختلف ہے۔ ان کے مطابق شرحِ نمو پانچ فیصد تک پہنچ چکی ہے‘ نئی سرمایہ کاری پاکستان میں آ رہی ہے جس سے روزگار میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ گورنر صاحب شاید اس حقیقت کا ادراک نہیں کر پارہے کہ شرحِ نمو بڑھنے کی وجہ کم شرحِ سود تھی۔ بینکوں سے قرض لے کر مشینری درآمد کی جارہی تھی‘ پونے دس فیصد شرح سود پر مشینری درآمد کرنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان میں عمومی طور پر کاروبار دس سے پندرہ فیصد منافع پر چل رہے ہوتے ہیں۔ ان میں بیس محکموں کے جھنجھٹ اور ''خرچہ پانی‘‘ سمیت کئی دیگر مسائل سے بھی دو چار ہونا پڑتا ہے۔ موجودہ صورتحال میں یہ منافع بینک میں رقم جمع کروا کر بآسانی حاصل کیا جا سکتا ہے اور دیگر بکھیڑوں سے بھی چھٹکارا مل سکتا ہے۔ ان حالات میں سرمایہ کار کاروبار کرنے سے زیادہ بینکوں میں پیسہ رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں جس سے صنعتیں بند ہو سکتی ہیں اور بیروزگاری میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
اس کے علاوہ موجودہ صورتحال میں شرحِ سود بڑھا کر درآمدات میں کمی لانے کا منصوبہ زیادہ مؤثر دکھائی نہیں دیتا۔ اگر پچھلے پانچ ماہ کے اعداد و شمار پر نظر دوڑائیں تو یہ جاننے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی کہ پاکستان کی تقریباً 80 فیصد درآمدات کو کم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ان کا تعلق پٹرولیم مصنوعات، صنعتوں کو ملنے والے خام مال، ادویات اور دیگرایسی اشیا سے ہے جن کے بغیر ملک نہیں چلایا جا سکتا۔ تقریباً 20 فیصد درآمدات کا تعلق پُرتعیش اشیا سے ہے۔ پاکستان کا جو طبقہ مہنگی اشیا درآمد کر کے استعمال کر رہا ہے‘ اس کے لیے شرحِ سود میں اضافہ رکاوٹ بنتا دکھائی نہیں دے رہا۔ کیونکہ وہ لوگ لگژری ٹیکس افورڈ کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ یاد رہے کہ 2020ء میں درآمدات شرحِ سود بڑھانے کی وجہ سے کم نہیں ہوئی تھیں بلکہ اس کی بڑی وجہ کووڈ 19 تھا۔ کورونا کے سخت دنوں میں بھی پاکستانیوں نے لگژری آئٹمز منگوانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ گاڑیوں کی ریکارڈ فروخت ہمارے سامنے ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ درآمدات روک کر ملک ترقی نہیں کر سکتا‘ یہ منفی اپروچ ہے جس کے نتائج مثبت ہونا بہت مشکل ہے۔ جس کے پاس وسائل کی فراوانی ہے‘ اسے درآمد کرنے سے روکا نہیں جا سکتا۔ ایک راستہ بند ہو گا تو وہ دوسرا تلاش کر لے گا۔ کامیاب معیشت چلانے کے لیے ضروری ہے کہ آمدن کے ذرائع بڑھائے جائیں۔ پاکستان کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ جب بھی ملک پانچ فیصد کی شرح نمو کے قریب پہنچتا ہے تو اکانومی یہ دبائو برداشت نہیں کر پاتی۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ پاکستان کا معاشی ماڈل پانچ فیصد کی شرح نمو سے زیادہ ترقی کرنے کے لیے بنا ہی نہیں تو غلط نہ ہو گا۔ جیسے ہی یہ نقطۂ انتہا حاصل ہوتا ہے‘ درجہ حرارت کم ہونے لگتا ہے۔ جیسے آج کل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پانچ فیصد سے زیادہ شرحِ نمو صنعت کے بجائے زراعت پر توجہ دے کر حاصل کی جا سکتی ہے۔ اگر صنعت پر فوکس کرنا ہے توپاکستان کو مشینری درآمد کرنے کے بجائے مقامی سطح پر تیار کرنے میں خودمختار ہونے کی پالیسی اپنانا ہو گی، لیکن اس کے لیے زیادہ قت درکار ہے۔
اگلی مانیٹری پالیسی کا اعلان ممکنہ طور پر 24 جنوری کو کیا جائے گا۔ سرمایہ کاروں اور کاروباری حلقوں میں تشویش پائی جاتی ہے کہ کیا اگلی مرتبہ شرحِ سود میں دوبارہ اضافہ کیا جائے گا یا کمی دیکھنے میں آسکتی ہے۔ اس حوالے سے گورنر سٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ ہمارے مطابق شرحِ سود میں اس سے زیادہ اضافہ نہیں ہونا چاہیے‘ یعنی جتنا اضافہ کرنا تھا‘ وہ کر لیا گیا ہے‘ اب مزید اضافے کی گنجائش نہیں۔ یہ بیان دے کر خود کو شاید بری الزمہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن عوام کو حقائق کا درست اندازہ لگانے کے لیے ماضی کے بیانات بھی مدنظر رکھنا ہوں گے۔ ماہِ جولائی میں انہوں نے فرمایا تھا کہ اب اکانومی درست راستے پر چلتے ہوئے منزل کی طرف رواں دواں ہے‘ برے دن ختم ہو گئے ہیں‘ آئندہ شرحِ سود نہیں بڑھے گی اور مہنگائی میں بھی کمی ہو گی لیکن اس کے بعد سے ڈالر اور مہنگائی میں مستقل اضافہ ہو رہا ہے۔ ماہِ ستمبر میں پچیس پوائنٹس بڑھانے کے بعد فرمایا تھا کہ اگلے تین ماہ میں حالات بہتر ہوں گے لیکن ایسا نہیں ہو سکا بلکہ ان تین مہینوں میں پاکستان نے تاریخ کا بدترین کرنٹ اکائونٹ خسارہ دیکھا۔ مہنگائی ساڑھے گیارہ فیصد تک پہنچ گئی‘ شرحِ سود میں 275 پوائنٹس کا اضافہ ہوا۔ شرحِ سود تین ماہ کے بجائے ڈیڑھ ماہ میں تبدیل ہونے لگی۔ پچھلے تیرہ سال میں پہلی مرتبہ ایک ماہ میں شرحِ سود ڈیڑھ پوائنٹس بڑھا دی گئی اور ڈالر پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 178روپے تک پہنچ گیا۔ذہن نشین رہے کہ کاروباری حلقوں میں مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنے کے لیے حکومتی رویوں اور آنے والے ممکنہ فیصلوں کا درست ادراک ہونا ضروری ہے تاکہ فیصلہ سازی میں آسانی ہو۔ ماضی کے تجربات کے باعث حالیہ دعووں پر بھروسہ کرنے کی کوئی مناسب وجہ دکھائی نہیں دیتی۔
اس وقت دنیا بھر میں کورونا اور او میکرون بھی کنٹرول میں دکھائی دے رہا ہے جس کے باعث یورپ اور امریکہ دوبارہ کھل رہے ہیں۔ معاشی ترقی کا پہیہ چلے گا تو تیل کی قیمتیں دوبارہ بلند ہو سکتی ہیں۔ دوسری طرف پاکستان آئی ایم ایف سے پیٹرولیم لیوی تیس روپے فی لیٹر تک بڑھانے کا معاہدہ بھی کر چکا ہے۔ کم از کم اگلے دو ماہ تک درآمدات میں ریکارڈ اضافہ دیکھا جا رہا ہے جس سے ڈالر کی قیمت بڑھ سکتی ہے لہٰذا مستقبل قریب میں شرحِ سود میں مزید اضافہ ناگزیر دکھائی دے رہا ہے۔ ممکنہ طور پر جنوری میں ہونے والے اجلاس میں شاید مانیٹری پالیسی تبدیل نہ کی جائے لیکن اس سے اگلے اجلاس میں شرحِ سود میں مزید اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
شرحِ سود میں اضافے کے معاملے پر وزارتِ خزانہ اور سٹیٹ بینک ایک پیج پر دکھائی نہیں دے رہے۔ وزارتِ خزانہ کا موقف ہے کہ شرحِ سود میں اضافے کے لیے جنرل انفلیشن کے بجائے کور انفلیشن کو بھی مدنظر رکھا جانا چاہیے۔ وزارتِ خزانہ کے ذرائع کے مطابق ڈیڑھ ماہ میں پونے تین فیصد اضافہ غیر حقیقی ہے اور فنانس ڈویژن کو اس حوالے سے اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ آنے والے دنوں میں حکومت بینکوں سے تقریباً سات ہزارارب روپے لینے کا ارادہ رکھتی ہے۔ گورنر سٹیٹ بینک کے مطابق شرحِ سود بڑھنے سے بینکوں سے منافع لینے والے بزرگوں کو تقریباً پونے تین فیصد زیادہ منافع ملے گا لہٰذا یہ خوشخبری بھی ہے۔ گورنر سٹیٹ بینک کے اس بیان پر حیرت نہیں ہوئی کیونکہ ماضی میں ڈالر کی قیمت میں اضافے پر وہ فرماچکے ہیں کہ ڈالر کی قیمت بڑھنا اچھی خبر ہے کیونکہ اس سے بیرونِ ملک پاکستانیوں کو فائدہ ہو رہا ہے۔ایک قلیل سے طبقے کے فائدے کو پوری قوم کے اجتماعی خسارے پر ترجیح دی جاتی ہے۔ گورنر سٹیٹ بینک پورے ملک کی نمائندگی کرتا ہے‘ اس عہدے پر ایسے غیر ذمہ دارانہ بیان دینا مناسب نہیں ہے۔عوام اس معاملے پر صرف احتجاج ریکارڈ کروا سکتے ہیں کیونکہ اب تک سامنے آنے والی کسی پالیسی سے ان کا بھلا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔