کسی ملک کی معاشی ترقی کا انحصار ذخائر کی فراوانی پر نہیں بلکہ ان کا استعمال پہ ہوتا ہے، یہی امر تعین کرتا ہے کہ ملکی معیشت مضبوط ہو گی یا نہیں۔ ایک اندازے کے مطابق افغانستان میں ایک کھرب ڈالر کے معدنی ذخائر موجود ہیں۔ افغانستان کی وزارت برائے معدنیات و پیٹرولیم کے مطابق افغانستان میں تقریباً سوا دو ارب ٹن لوہا، سوا ایک ارب ٹن سنگ مرمر اور ڈیڑھ ارب ٹن کی نایاب معدنیات کے ایسے ذخائر ہیں جنہیں ابھی تک استعمال میں نہیں لایا جا سکا۔ افغانستان کے معدنی ذخائر کے حوالے سے امریکہ کے ادارے یونائیٹڈ سٹیٹس جیو لوجیکل سروے (یو ایس جی ایس) نے 34 صوبوں کے 24 مخصوص مقامات پر تحقیق کی جس کے نتائج حیران کن ہیں۔ اس کے مطابق افغانستان قابلِ استعمال لوہے کے ذخائر کے حوالے سے دنیا کے پہلے دس ممالک میں شامل ہے۔ 2.2 بلین ٹن لوہا ایفل ٹاور جیسے دو لاکھ ٹاورز بنانے کے لیے کافی ہے۔ قندھار اور بدخشاں صوبے میں 183 ملین ٹن ایلومینیم کے ذخائر ہیں۔ بدخشاں اور غزنی صوبے میں 2 ہزار 6 سو 98 کلو گرام سونے کے ذخائر ہیں۔ بدخشاں، ہرات اور بغلان میں 5 سو ملین ٹن لائم سٹون کے ذخائر ہیں۔ غزنی صوبے میں 14 لاکھ ٹن لیتھیم کے ذخائر پائے جاتے ہیں جس کا استعمال الیکٹرک گاڑیوں، موبائل فون اور لیپ ٹاپس کی بیٹریاں بنانے میں کیا جاتا ہے۔ امریکی رپورٹ کے مطابق افغانستان لیتھیم دھات سے اس طرح مالا مال ہے جیسے سعودی عرب تیل کی دولت سے مالا مال ہے۔ اس کے علاوہ ایٹم بم کی تیاری میں استعمال ہونے والے خالص یورینیم کے ذخائر بھی افغانستان میں کثرت سے پائے جاتے ہیں۔افغانستان میں موجود تیل اور گیس کے ذخائر کو آج تک استعمال نہیں کیا جا سکا۔ تعمیرات میں استعمال ہونے والی معدنیات کی بھی کثرت ہے۔ بالفاظ دیگر افغان عوام سونے کے محل میں رہتے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ پیٹ بھرنے کے لیے اسے کس طرح استعمال کرنا ہے۔ زندگی گزارنے کے لیے زیادہ انحصار پوست کی پیداوار پرکیا جاتا ہے۔ان حالات کی وجہ طویل مدتی جنگ ہے لیکن خوش قسمتی سے اب جنگ کا خاتمہ ہوچکا ہے۔طالبان ماضی کے برعکس روشن خیال دکھائی دے رہے ہیں اور امید پیدا ہوئی ہے کہ بہتر حکمت عملی سے افغانستان کو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں کھڑا کیا جائے گا۔
اس وقت افغانستان کو شدید غذائی بحران کا سامنا ہے اور ان حالات کے پیشِ نظر حکومت پاکستان نے او آئی سی سمیت کئی ممالک کو او آئی سی وزرائے خارجہ کے اجلاس میں مدعو کیا ہے تا کہ افغانستان میں معاشی بدحالی کے باعث پیدا ہونے والی صورتحال کا مناسب حل تلاش کیاجاسکے، معدنی ذخائر کو قابلِ استعمال بنانے کے لیے سرمایہ کاری کی جا سکے اور افغانستان کے مرکزی بینک کے منجمد اثاثوں کو بحال کرایا جا سکے۔بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی اس کاوش کو سراہا جا رہا ہے۔او آئی سی کے 57ممالک کے علاوہ یورپی یونین کے ممالک،اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچوں مستقل مماک امریکہ، روس، چین، فرانس، برطانیہ سمیت کئی دیگر ممالک کو مدعو کیا گیا ہے۔امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان تھامس ویسٹ کوبھی دعوت دی گئی ہے۔امریکی سینیٹرز مبینہ طور پر حالات کا جائزہ لینے کے لیے سات دن پہلے سے پاکستان پہنچ چکے ہیں۔ انہوں نے وزیراعظم اور آرمی چیف سے الگ ملاقاتیں کی ہیں جن میں افغانستان سے امریکی انخلا کے حوالے سے پاکستان کی کاوشوں کو سراہا گیا ہے۔ ان کے علاوہ ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے نمائندے بھی اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق اجلاس میں جس مدعے پر سب سے زیادہ توجہ دی جائے گی وہ اافغانستان کے ساڑھے نو بلین ڈالرز سے متعلق ہے۔ یاد رہے کہ امریکہ نے افغانستان میں طالبان کی حکومت بننے کے بعدافغان سینٹرل بینک کے ساڑھے نو بلین ڈالرز کے ذخائر کو منجمد کر دیا تھا جس کے باعث افغانستان میں بینکنگ اور تجارت تقریباً ناممکن ہو چکی ہے جس کا بیشتر بوجھ پاکستانی معیشت پر پڑ رہا ہے۔ پاکستانی مشیرِ خزانہ نے حال ہی میں ڈالر کی قیمت بڑھنے کی ایک وجہ افغانستان میں ڈالر کی سمگلنگ کو قرار دیا تھا۔ اس کے علاوہ پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری میں کمی کو بھی افغانستان کی غیر یقینی صورتحال سے جوڑا جا رہا ہے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ کیا او آئی سی اجلاس کے بعد افغانستان کی معاشی صورتحال بہتر ہو سکے گی‘ جن ممالک کو مدعو کیا گیا ہے کیا وہ مثبت کردار ادا کر پائیں گے یا پھر تقریروں، دعووں اور نئی امیدوں کے ساتھ اجلاس کا خاتمہ ہو جائے گا۔
اس حوالے سے میرے پاس کچھ اچھی خبریں موجود ہیں۔ امید کی جا رہی ہے کہ پاکستان کو افغانستان کی معاشی امداد کے حوالے سے بڑی کامیابی مل سکتی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ امریکی سیکرٹری خارجہ نے پاکستانی وزیر خارجہ کو یقین دہانی کرائی ہے کہ ساڑھے نو بلین ڈالرز کی مکمل بحالی میں قانونی رکاوٹیں ہیں لیکن فوری طور پر دو بلین ڈالرز بحال کرنے میں کوئی قانونی رکاوٹ نہیں۔ ہنگامی بنیادوں پر دو بلین ڈالرز جاری کر کے افغانستان کی معاشی صورتحال کو مزید بگڑنے سے روکا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ عرب ممالک بھی افغانستان کے لیے امداد کا اعلان کر سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ 2019ء میں افغانستان کی برآمدات کا 45 فیصد صرف متحدہ عرب امارات سے منسلک تھا جن میں معدنیات، پھل اور خشک میوہ جات شامل تھے۔ عرب ممالک اس تجارت کا دوبارہ آغاز کرنا چاہتے ہیں۔ سعودی عرب بھی امداد دینے کے حوالے سے رضامندی ظاہر کر چکا ہے۔ اس کے علاوہ چین افغانستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے بڑی ڈیل پیش کر سکتا ہے کیونکہ چین افغانستان کے لیتھیم کے ذخائر سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ اس وقت دنیا کا رجحان کاربن کے اخراج سے پاک گاڑیوں کی تیاری کی طرف بڑھ رہا ہے تا کہ فضائی آلودگی پر قابو پایا جا سکے۔ چین، جاپان، جرمنی سمیت کئی ممالک بیٹریوں کی تیاری کے لیے سستے لیتھیم ذخائر کے متلاشی ہیں۔ الیکٹرک گاڑیاں تیار کرنے والے ممالک میں سے صرف چین کی سرحد افغانستان سے ملتی ہے۔ اس کے علاوہ الیکٹرک گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں تیزی سے چین منتقل ہو رہی ہیں۔ اس اعتبار سے یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ چین افغانستان کے لیتھیم ذخائر سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والا ملک بن سکتا ہے۔
یہاں او آئی سی اجلاس کے پاکستان میں کامیابی سے انعقاد کو چین کے ساتھ جوڑ کر دیکھے جانے کی ضرورت ہے۔ ممکنہ طور پر یہ اجلاس پاکستان نے چین کے مشورے سے ہی بلوایا ہے۔ خصوصی طور پر جو ممالک او آئی سی کے رکن نہیں ہیں‘ ان کی شمولیت میں چین کا کردار نمایاں ہے۔ اگر چین کی سرمایہ کاری اور تجارتی پالیسی پر غور کیا جائے تو یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ چین کسی ملک میں سرمایہ کاری کرنے سے پہلے سکیورٹی معاملات کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ اس کی ہر ممکن کوشش رہی ہے کہ جس ملک میں وہ سرمایہ کاری کر رہا ہے وہ جنگ، بدامنی، بنیادی انسانی ضرورتوں کی کمی جیسے مسائل کا شکار نہ ہو‘ وہاں بینکنگ نظام کام کر رہا ہو اور تجارتی مراکز فعال ہوں۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد چین پہلا ملک تھا جس نے افغانستان میں سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا۔ افغانستان خطے کا شاید واحد ملک رہ گیا ہے جہاں چین ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے تحت سرمایہ کاری نہیں کر سکا تھا۔ ممکنہ طور پر افغانستان میں طالبان کی حکومت کو دنیا سے تسلیم کرانے اورپاکستان میں او آئی سی کے کامیاب اجلاس سے چین مبینہ مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف چین کو فائدہ حاصل ہو سکتاہے بلکہ افغانستان کے معاشی حالات میں بھی بہتری لائی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کی معاشی صورتحال میں بھی بہتری کے آثار پیدا ہو سکتے ہیں۔ دنیا کے گلوبل ولیج بننے کے بعد کامیاب معیشت کامیاب سفارت کاری کے بغیر ممکن نہیں ہے اور او آئی سی کا کامیاب اجلاس پاکستان کی کامیابی سفارت کاری کی مضبوط دلیل بن کر سامنے آ رہا ہے۔