امداد ملنے پر جشن اور اربوں ڈالر کے بیرونی سرمایہ کاری معاہدے کے خاتمے پر حکومت کا غیر سنجیدہ رویہ یہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ ملک کی معاشی سمت کیا ہے۔ حکومت اپنی طے شدہ آئینی مدت کے اختتامی وقت میں داخل ہو رہی ہے۔ یہ وقت نئے فیصلوں کا نہیں‘ بلکہ ماضی کے کئے گئے فیصلوں کا پھل کھانے کا ہے۔ اب یہ کڑوا ہے یا میٹھا ‘اس کا دارومدار بیج کے معیاری ہونے اور پودے کی دیکھ بھال پر ہے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پھل کڑوے اور انگور کٹھے ہیں۔ سعودی عرب کی سب سے بڑی سرکاری آئل ریفائنری آرامکو نے گوادر کے 88 ہزار ایکڑ رقبے پر دس ارب ڈالرز کی لاگت سے آئل سٹی اور آئل ریفائنری قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اسے سی پیک سے جوڑا جا رہا تھا۔ پاکستانی سرکار نے اسے سعودی عرب کی جانب سے آج تک کی سب سے بڑی سرمایہ کاری قرار دیا تھا۔ وزیراعظم‘ وزیر سرمایہ کاری‘ وزیر پیٹرولیم اور وزیر خارجہ اس کا کریڈٹ لینے کے لیے ٹویٹر پر ایکٹو دکھائی دیے۔ میں نے اُس وقت بھی کالم میں ذکر کیا تھا کہ سعودی عرب کی جانب سے اس اعلان کو زیادہ سنجیدہ نہیں لیا جانا چاہیے کیونکہ اس طرح کے فیصلے جذباتی نہیں بلکہ سیاسی نوعیت کے ہوتے ہیں اور جب سے سعودی عرب کی کمان ولی عہد محمد بن سلمان کے ہاتھ آئی ہے سعودی عرب پہلے جیسا نہیں رہا۔ماضی کی حکومتوں کے بارے میں یہ تصور کیا جاتا تھا کہ وہ پاکستان کے ساتھ جو وعدہ کرتی ہیں اسے کسی بھی قیمت پر پورا کرتی ہیں۔ اس لیے ان کی زبان سے ادا کیے گئے الفاظ سند کی حیثیت رکھتے تھے۔پاکستانی عوام اور حکمران بھی سعودی حکومت کو ماضی کی طرح انتہائی سنجیدہ لیتے ہیں لیکن اب حالات کو مزید سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اب معاملات روحانی اور جذباتی سے زیادہ مالی اور مفاداتی نوعیت کے دکھائی دیتے ہیں۔
محمد بن سلمان نے فروری 2019 ء میں دورۂ پاکستان کے وقت وزیر اعظم عمران خان سے کہا تھا کہ آپ مجھے سعودی عرب میں پاکستان کا سفیر سمجھیں‘ لیکن اس کے بعد کشمیر کے معاملے پر پاکستان کو تنہا چھوڑنے‘ قرض اور ادھار تیل کی فراہمی کی سہولت واپس لینے اور ملائیشیا سمٹ میں پاکستان کو مبینہ طور پر دھمکا کر جانے سے روکنے جیسے واقعات بھی سامنے آئے۔ان حالات کے پیش نظر یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ سعودی عرب گوادر میں دس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے پیچھے ہٹ سکتا ہے۔ پاکستان اور چین کے سی پیک منصوبے میں شامل ہونے کا اعلان مبینہ طور پر سعودی سرکار کا سٹریٹجک منصوبہ تھا۔ اس وقت کے لحاظ سے وہ بہتر فیصلہ تھا کیونکہ جوبائیڈن انتظامیہ جمال خاشقجی کے قتل کو لے کر سعودی حکومت کے خلاف ایکشن لینے کا عندیہ دے رہی تھی۔ امریکہ ایران کو بھی سپورٹ کر رہا تھا اوراوبامہ دور کی ایران امریکہ نیوکلیئر ڈیل کو بحال کئے جانے پر بات ہو رہی تھی اور سعودی عرب عالمی تنہائی کا شکار دکھائی دے رہا تھا۔ اس وقت امریکن لابی کو چھوڑ کر چینی اور روسی لابی کا حصہ بننا زیادہ سود مند ثابت ہو سکتا تھا۔ اب اسرائیل نے امریکی صدر سے ملاقات کے بعد ایران پر حملہ کرنے کی دھمکی دی ہے۔ امریکہ نے مبینہ طور پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نفتالی بینٹ نے یو اے ای کا دورہ بھی کیا ہے اور سعودی حکومت کے ترجمان نے اسرائیل کو چند شرائط کے ساتھ قبول کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ ایران کے ساتھ نیوکلیئر ڈیل بحال نہیں کر سکے گا‘ جس کا فائدہ سعودی عرب کو ہونے جا رہا ہے۔ ان حالات میں سعودی عرب کے چینی لابی کا حصہ بننے پر امریکہ میں تشویش پائی جاتی ہے۔ جس کے باعث سعودی حکومت نے گوادر آئل سٹی اینڈ ریفائنری میں دس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا منصوبہ ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
پچھلے سال اس منصوبے کو گوادر سے کراچی منتقل کرنے پر بات کی جارہی تھی۔ وزیراعظم کے سابق معاون خصوصی برائے پیٹرولیم تابش گوہر نے میڈیا کو بتایا تھا کہ سعودی حکومت یہ منصوبہ گوادر کی بجائے کسی اور شہر میں منتقل کرنے کا رادہ رکھتی ہے۔ اس اعلان نے ہی منصوبے کے مستقبل کے بارے میں آگاہ کر دیا تھا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دس ارب ڈالر کے اس نقصان پر وزیراعظم سمیت کسی بھی قابل ذکر وزیر نے بیان کیوں جاری نہیں کیا؟ وزیراعظم سرمایہ کاری کے اجلاس میں بیرونی براہ راست سرمایہ کاری پاکستان لانے کی ضرورت پر زور دیتے رہے ہیں۔ اس حوالے سے رزاق داؤد سے کئی مرتبہ بات چیت بھی ہوئی ہے لیکن سعودی آرامکو کے سرمایہ کاری سے انکارکے بعد حکومت یوں خاموش ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ ممکنہ طور پر یہ منصوبہ عالمی سیاست کی بھینٹ چڑھ گیا ہے‘ لیکن تصویر کا دوسرا رخ دیکھنا بھی ضروری ہے۔
یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ایک طرف سعودی حکومت پر امریکی دباو ٔتھا اور دوسری طرف حکومت پاکستان بھی اس منصوبے کو شروع کرنے میں سنجیدہ نہیں تھا۔اطلاعات کے مطابق سعودی حکومت نے شکوہ کیا ہے کہ پاکستانی حکومت نے منصوبے کے حوالے سے اپنا کام پورا نہیں کیا۔ دانستہ طور پر تاخیر کی جا رہی تھی۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ شاید پاکستانی حکومت یہ منصوبہ شروع نہیں کرنا چاہتی۔ سعودی عرب کی جانب سے ان الزامات کے باوجود وزیراعظم صاحب کا معاملے کو زیادہ اہمیت نہ دینا اس موقف کو تقویت بخش رہا ہے کہ یہ سب کچھ وزیراعظم ہاؤس کی مرضی سے ہو رہا ہے۔ خان صاحب سے گزارش ہے کہ اس صورتحال پر لب کشائی کریں تا کہ حقائق عوام کے سامنے آسکیں اور جو کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں انہیں یہ پیغام پہنچ سکے کہ حکومت پاکستان سرمایہ کاری کے معاملے پر کس قدر سنجیدہ ہے۔
مالی سال 2021ء کے اعدادوشمار پر نظر دوڑائیں تو بیرونی سرمایہ کاری کے اعدادوشمار زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ ایف ڈی آئی میں تقریباً 29فیصد کمی واقع ہوئی ہے ۔ ٹیلی کام سیکٹر میں تقریباً 94فیصد اورٹیکسٹائل سیکٹر میں 82فیصد کمی دیکھی گئی ہے۔آنے والے دن کیا رخ اختیار کرتے ہیں اس بارے کچھ کہا نہیں جا سکتا‘ لیکن گوادر آئل سٹی اور ریفائنری کا معاہدہ ختم ہونے سے گوادر کے مستقبل کے بارے میں بھی شکوک و شبہات جنم لینے لگے ہیں۔بھارت کو ایک مرتبہ پھر پروپیگنڈا کرنے کا موقع ملا ہے کہ گوادر عالمی تجارت کا حب بننے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ جس بندرگاہ کو دبئی اور سنگاپور کے مقابلے پر تیار کرنے کے دعوے کیے جا رہے تھے وہ اس قابل بھی نہیں کہ وہاں ایک آئل ریفائنری قائم کی جا سکے۔یہ معاملہ صرف یہاں تک رکتا دکھائی نہیں دے رہا بلکہ سعودی عرب کی جانب سے او آئی سی اجلاس میں افغانستان کو ایک ارب ریال امداد دینے کے اعلان کو بھی شک کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔ سعودی عرب کی جانب سے یہ اعلان پاکستان کے اصرار پر کیا گیا ہے۔ مستقبل میں یہ رقم بھی ادا ہوتی ہے یا نہیں‘ اس بارے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ اس مدد کی قیمت پاکستان کو ادا کرنا ہو گی کیونکہ یہ احسان افغانستان پر نہیں بلکہ پاکستان پر کیا گیا ہے۔ اس اعلان کا وقت اہمیت کا حامل ہے۔ اسرائیل ایران پر حملے کا اعلان کر چکا ہے اور ایران نے سولہ بیلسٹک میزائلوں کا کامیاب تجربہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ ایرانی فوج کے چیف آف سٹاف نے کہا ہے کہ یہ فوجی مشق اسرائیل کی طرف سے ایران کے خلاف‘ بقول اُن کے‘ بڑی مگر بے مقصد دھمکی کا جواب ہے۔ ایران کی جانب سے جارحانہ انداز کے بعد سعودی عرب کے لیے ضروری ہو گیا ہے کہ وہ خطے کے دیگر ممالک کو اپنے ساتھ جوڑ کر رکھے۔ اگر مستقبل میں پاکستان کا جھکاؤ ایران کی طرف ہوا تو ممکنہ طور پر افغانستان کی ایک ارب ریال کی امداد روکی جا سکتی ہے‘جس کا دباؤ بھی پاکستانی معیشت پر پڑسکتا ہے۔