پہلے ایک نظر آئی ایم ایف اور پاکستان سے متعلق اَپ ڈیٹس پر ڈال لیں۔ وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین صاحب نے قائمہ کمیٹی برائے فنانس اینڈ ریونیو کے اجلاس میں بتایا کہ آئی ایم ایف پاکستان کے 375 ارب روپے کے نئے ٹیکسز سے خوش نہیں ہے‘ ممکن ہے کہ وہ منی بجٹ مسترد کر دے اور پاکستان کو مزید ٹیکسز لگانا پڑیں۔ ترین صاحب کا شک بلاوجہ نہیں۔ عمومی طور پر آئی ایم ایف پاکستان کی تجاویز اور درخواستوں کو ماننے سے صاف انکار کر دیتا ہے بلکہ پچھلے اجلاس میں یہ تک کہا گیا تھا کہ پاکستان کو تمام شرائط پر من و عن عمل درآمد کرنا ہو گا‘ اگر وہ ایسا نہیں کر سکتا تو فیصلہ کرلے کہ وہ آئی ایم ایف پروگرام میں رہنا چاہتا ہے یا نہیں۔ اب معاملہ یہ ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کے ایک بلین ڈالرز نہیں چاہئیں‘ وہ صرف آئی ایم ایف پروگرام میں رہنا چاہتا ہے۔ یہ وہ سند ہے جسے دکھا کر دیگر اداروں اور ملکوں سے بہ آسانی قرض لیا جا سکتا ہے۔ ان حالات میں پاکستان اپنے مطالبات منوانے کی پوزیشن میں نہیں، لیکن آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کے حالیہ مطالبات کو فوراً مان لینا شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کو 375 ارب روپے کے نئے ٹیکسز لگانے کے لیے 12 جنوری تک کا وقت دیا تھا۔ حکومت پاکستان نے عین موقع پر تین ہفتوں کا مزید وقت مانگ لیا اور آئی ایم ایف نے یہ وقت فوراً عنایت بھی کر دیا۔ ایسا معلوم ہوتاہے جیسے آئی ایم ایف اسی انتظار میں تھا۔ اس پر یہ شک ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پاکستان کے مزید وقت مانگنے کو جواز بنا کر مزید ٹیکسز لگائے جا سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو پاکستان میں مہنگائی کا سیلاب سونامی کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ وزیر خزانہ کے مطابق‘ انہوں نے نئے ٹیکسز کے آئی ایم ایف کے مطالبے کو ماننے سے صاف انکار کر دیا ہے، لیکن یاد رہے کہ آئی ایم ایف کا کوئی بھی مطالبہ نہ ماننے کے نعرے پہلے بھی لگائے جاتے رہے ہیں لیکن بعد ازاں حرف بحرف آئی ایم ایف کے ہر حکم کی تکمیل کی گئی۔ لہٰذا حکومت کے ان دعووں کو زیادہ سنجیدہ نہیں لیا جانا چاہیے۔ فی الحال خبر یہ ہے کہ پاکستان کو منی بجٹ منظور کروانے کے لیے 2 فروری تک کا وقت مل سکتا ہے؛ تاہم حتمی فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ ممکنہ طور پر یہ فیصلہ پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کے نئے مشن چیف کریں گے۔ پرانے چیف ارنیسٹو ریگو کی مدت 12 جنوری کو ختم ہو گئی۔ اب حکومت منی بجٹ منظور کراتی ہے یا کوئی اور بہانہ تراشا جائے گا‘ اس بارے کچھ کہا نہیں جا سکتا لیکن ایک بات طے ہے کہ آج نہیں تو کل یہ کڑوا گھونٹ عوام کو بھرنا ہی پڑے گا۔
آمدن کے اہداف حاصل کرنے کے لیے پچھلے تین سالوں میں تقریباً ہر شے پر ٹیکس کی شرح بڑھائی جا چکی ہے لیکن سگریٹ اور تمباکو پر نئے ٹیکسز نہیں لگائے جا رہے جو یقینا افسوس ناک ہے۔ نہ صرف حکومت بلکہ آئی ایم ایف بھی اس طرف توجہ نہیں دے رہا۔ 2017ء میں تمباکو نوشی کی صنعت سے 82 ارب روپے ٹیکس اکٹھا کیا گیا جبکہ چار سال بعد‘ مالی سال2021ء میں اس ٹیکس میں صرف 43 ارب روپے اضافہ ہوا۔ 2021ء میں حکومت نے صرف 135 ارب روپے ٹیکس اکٹھا کیا۔ یہ معمولی اضافہ بھی ٹیکس ریٹ میں اضافے کی بدولت نہیں بلکہ فروخت میں اضافے کی وجہ سے ہوا۔ وقت گزرنے کے ساتھ سگریٹ کی خریداری آسان ہوتی جا رہی ہے۔ کیونکہ روپے کی قدر گر رہی ہے لیکن سگریٹ کے ریٹس نہیں بڑھائے جا رہے۔ مختلف این جی اوز کی جدوجہد کے بعد حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ بجٹ 2021-22ء میں تمباکو پر نئے ٹیکسز لگائے جائیں گے۔ اس حوالے سے نئے قوانین اور ریٹس بھی طے کیے گئے‘ ایک ہزار سگریٹس پر ٹیکس 1650 روپے سے بڑھا کر 2145 روپے تجویز کیا گیا جس سے سگریٹ کے پیکٹ کی قیمت 30 سے 50روپے تک بڑھ سکتی تھی لیکن جب بجٹ پیش ہوا تو اس میں سگریٹ پر ٹیکس لگانے کی تجاویز شامل نہیں تھیں۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسی کون سی طاقتیں ہیں جو حکومتوں پر اس قدر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں جتنا دکھائی دیتا ہے۔ سگریٹ کی صنعت کو پوری دنیا میں تنقید کا سامنا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان سمیت تمام ممبر ممالک کے کسی بھی سرکاری عہدیدار کو سگریٹ کا کاروبار کرنے والے لوگوں سے ملنے کی اجازت نہیں ہے لیکن وزیراعظم صاحب نے امریکن ٹوبیکو کے منیجنگ ڈائریکٹر سے نہ صرف ملاقات کی تھی بلکہ ان سے ڈیم فنڈ کے لیے چندہ بھی لیا تھا۔ ممکن ہے کہ اس ملاقات سے قبل ان کے علم میں لایا گیا ہو کہ مذکورہ کمپنی پر چائلڈ لیبر کے حوالے سے مقدمات چل رہے ہیں اور یہ ملاقات ڈبلیو ایچ او کے آرٹیکل 53کی خلاف ورزی متصور ہو سکتی ہے۔ ان حالات کے پیش نظر یہ شکوک و شبہات بڑھنے لگتے ہیں کہ کیا سرکار سگریٹ مافیا کے اثر میں ہے؟
منی بجٹ میں 375 ارب روپے کے ٹیکسز لگائے جا رہے ہیں۔ آٹا، گھی، چینی، سائیکل، چاکلیٹ، ڈبل روٹی سمیت 150 آئٹمز پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم کی جا رہی ہے۔ یہ اشیا تو انسان کی بنیادی ضروریات کی اشیا ہیں‘ ان پر تو ٹیکس میں کمی کی جانی چاہیے تھی جبکہ سگریٹ صحت کے لیے زہرِ قاتل ہے جس پر ٹیکس بڑھا کر نہ صرف اس کی فروخت میں کمی لائی جا سکتی ہے بلکہ اس سے حاصل ہونے والی آمدن تمباکو نوشی سے متاثرہ لوگوں کے علاج پر خرچ کی جا سکتی ہے۔ وزارتِ صحت سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کے مطابق پاکستان میں ہر سال تقریباً 1 لاکھ 60 ہزار سے زیادہ افراد تمباکو نوشی سے ہونے و الی بیماریوں کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی حکومت سالانہ 615 ارب روپے تمباکو نوشی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے علاج پر خرچ کر رہی ہے جبکہ اس انڈسٹری سے ٹیکس صرف 135 ارب روپے وصول کرتی ہے۔ تقریباً 480 ارب روپوں کی ادائیگی عوام کے ٹیکسز کے پیسوں سے کی جارہی ہے، حالانکہ یہ رقم تمباکو مافیا سے وصول کی جانی چاہیے۔ اس حوالے سے ڈبلیو ایچ او نے مختلف ممالک کے ساتھ مل کر ایک منصوبہ بنایا جس پر عمل درآمد کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔ گیمبیا ان افریقی ممالک میں سرفہرست تھا جہاں سگریٹ سب سے سستا تھا۔ ڈبلیو ایچ او نے 2012ء سے 2021ء تک‘ مختلف مراحل میں سگریٹ پر ٹیکس بڑھایا جس کے باعث تمباکو کے استعمال میں 60 فیصد تک کمی آئی ہے اور ٹیکس آمدن بھی بڑھی ہے۔ اس کے علاوہ کولمبیا، سری لنکا، عمان اور فلپائن میں بھی سگریٹ پر ٹیکسز بڑھانے کے فائدے سامنے آئے ہیں۔ فلپائن میں اسے Sin Tax یعنی کہ ''گناہ کرنے کا ٹیکس‘‘ کہا جاتا ہے۔ حکومت پاکستان بھی ڈبلیو ایچ او کے ساتھ مل کر اس شعبے سے ٹیکس آمدن بڑھا سکتی ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سرکار اپنا کام پورا نہیں کر رہی۔ سگریٹ کا کاروبار کرنے والی کمپنیاں نوجوانوں کی سگریٹ کے استعمال کے حق میں ذہن سازی کے لیے کوششیں کرتی دکھائی دے رہی ہیں۔ اشتہاری مہم کے ذریعے یہ بتایا جا رہا ہے کہ سگریٹ نقصان دہ نہیں ہے بلکہ سمگل ہونے والا سگریٹ نقصان دہ ہے کیونکہ اس کا معیار کم ہوتا ہے اور دوسرا نقصان 77 ارب روپے ٹیکس چوری کاہے۔ سمگل ہونے کی وجہ سے 77 ارب روپے سرکار کے خزانے میں جمع نہیں ہوتے‘ لہٰذا سرکار کو چاہیے کہ سگریٹ کی سمگلنگ روکے۔ بدقسمتی سے ان کا یہ بیانیہ نوجوانوں میں مقبول ہو رہا ہے جو باعثِ تشویش ہے۔ سرکار کو چاہیے کہ وہ اس کے خلاف تشہیری مہم چلائے اور ٹیکس کے ریٹس میں سو فیصد تک اضافہ کرے۔ یہ حل مؤثر بھی ہے اور قابلِ عمل بھی۔