منی بجٹ منظوری کے ملکی معیشت پر اثرات

زندگی میں بعض اوقات فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کس موقع پر خوشی منائی جائے اور کس موقع پر افسوس کا اظہار کیا جائے۔ فنانس سپلیمنٹری بل 2021 اور سٹیٹ بینک آف پاکستان ترمیمی بل 2021 سمیت 16 بلز اسمبلی سے منظور ہو نے کے بعد عوام کو اسی صورتحال کا سامنا ہے۔ اپوزیشن کے 150 ووٹوں کے برعکس حکومتی 168 ووٹوں سے یہ بلز پاس ہوئے۔سات گھنٹے تک وزیراعظم موقع پر موجود رہے ‘شاید وہ یقینی بنانا چاہتے تھے کہ کوئی حکومتی رکن غیر حاضر نہ ہو۔یعنی عوام کے منتخب کردہ نمائندوں کی اکثریت ان بلز کے حق میں تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ پاکستانی عوام پر مزید 360 ارب روپے کے ٹیکسز لگائے جائیں۔ اس کی منظوری کے بعد وہ نہ صرف خوش دکھائی دیے بلکہ مبارکبادیں بھی دیتے رہے۔ حکومت کا دعویٰ تھا کہ اس بجٹ میں جو ٹیکسز لگائے جائیں گے وہ امرا کے لیے ہیں‘ غریب پر اس کا اثر نہیں پڑے گا‘ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس مقصد کے لیے یہ بلز پاس کیے گئے ہیں کیا وہ حاصل بھی ہو سکتا ہے یا نہیں؟ حکومتی رائے یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے یہ بوجھ عوام پر ڈالا جا رہا ہے لیکن اطلاعات یہ بھی ہیں کہ آئی ایم ایف پاکستان سے ابھی بھی خوش نہیں ہے اور مزید ٹیکسز لگانے کا خواہاں ہے۔ شاعر نے شاید اسی موقع کے لیے کہا ہے کہ؎
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم نہ اِدھر کے ہوئے نہ اُدھر کے ہوئے
منی بجٹ میں بہت سے حکومتی فیصلے ایسے ہیں جو آئی ایم ایف کی مرضی کے برعکس ہیں اور جنہیں وہ تبدیل کرنے کا خواہاں ہے جیسا کہ حکومت نے 1000 سی سی سے 2000 سی سی تک کی مقامی سطح تیار ہونے والی گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 10 فیصد تک بڑھانے کا وعدہ کیا تھا لیکن بجٹ میں 1300 سی سی تک کی گاڑیوں پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا جس سے ٹیکس اہداف حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ بکنے والی گاڑیاں 850 سی سی سے 1300 سی سی کے درمیان ہیں۔ بلکہ پچھلے سال1300 سی سی کیٹیگری کی ایک گاڑی نے پاکستان میں سب سے زیادہ بکنے والی سیڈان کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ آئی ایم ایف کے مطابق اس ماڈل کی گاڑیوں پر ٹیکس لگنے سے ٹیکس اہداف حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ 1300 سی سی سے 2000 سی سی تک کی گاڑیوں پر ایف ای ڈی 10 فیصد کی بجائے صرف پانچ فیصد بڑھائی گئی ہے۔ آئی ایم ایف معترض ہے کہ یہ لگژری آئٹم ہے جس پر ٹیکس بڑھائے جانے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ سویاں‘ نان‘ چپاتی‘ شیرمال‘ بن‘ رسک 17 فیصد جنرل سیلز ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیے گئے ہیں۔ آیوڈائزڈ نمک اور سرخ مرچوں پر بھی سیلز ٹیکس نہیں لگایا گیاجبکہ 17 فیصد سیلز ٹیکس لگانے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اشیائے خورونوش پر ٹیکس پوائنٹ آف سیل سسٹم سے مشروط کر دیا گیا یعنی جو مالز یا دکانیں پی او ایس سسٹم میں ایف بی آر سے منسلک ہیں ‘ وہاں ان اشیا پر ٹیکس ہو گا‘ مگر پاکستان میں زیادہ خریدوفروخت بڑی دکانوں کی بجائے پرچون دکانوں سے کی جاتی ہے جو پی او ایس سے منسلک نہیں ہوتیں۔ اس کے علاوہ 200 گرام تک کے دودھ پر سیلز ٹیکس نہیں لگایا گیاجو کہ آئی ایم ایف کے مطالبات کے برعکس ہے۔ رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو بھی منی بجٹ میں نظر ا نداز کیا گیا ہے جبکہ نہ صرف آئی ایم ایف بلکہ فیٹف کا بھی کا دباؤ ہے کہ اس سیکٹر پر مزید ٹیکسز لگائے جائیں اور اسے بین الاقومی اصولوں کے مطابق مانیٹر کیا جائے‘لیکن حکومت پاکستان نے آئی ایم ایف کی اس تجویز کو نظر انداز کر دیا ہے کہ رئیل اسٹیٹ انویسٹمنٹ ریگولیشن 2015 کے تحت بننے والیSpecial Purpose Vehicle (SPV) سے حاصل شدہ آمدن پر ٹیکس لگایا جائے۔ SPV سے حاصل اربوں روپوں کی آمدن کو ٹیکس نیٹ میں نہ لانا حکومتی دعوؤں کی نفی ہے۔
منی بجٹ میں پی او ایس سسٹم کے نفاذ کو حکومتی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے جبکہ حقائق اس کے برعکس معلوم ہوتے ہے۔ حال ہی میں سامنے آنے والا پی او ایس سکینڈل حکومتی دعوؤں کی نفی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ آئی ایم ایف کے لیے 360 ارب روپے کے ٹیکسز لگانا مقصد حاصل کرنا نہیں ہے بلکہ اس رقم کی وصولی اصل ہدف ہے۔ ماضی میں بھی کئی ٹیکسز لگائے جاتے رہے ہیں لیکن کمزور ٹیکس کا نظام ہونے کی وجہ سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے۔ ٹیکسز لگانے اور انہیں اکٹھا کرنے میں فرق ہوتا ہے۔ خاص طور پر پاکستان جیسی معیشت میں ٹیکس اکٹھا کرنا مشکل عمل ہے کیونکہ ٹیکس چوری کے سینکڑوں راستے سرکار نے خود ہی قانون کی شکل میں فراہم کر رکھے ہیں۔ آئی ایم ایف کی جانب سے ان قوانین کی تبدیلی اور نظام میں ٹرانسپیرنسی لانے کے لیے نئے قوانین بنانے پر زور دیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی ذہن نشین رہے کہ آئی ایم ایف نے تقریبا 750 ارب روپے کے ٹیکسز لگانے کا ہدف مقرر کیاتھا۔ حکومتی دعویٰ ہے کہ انہوں نے 360 ارب پر ادارے کو منا لیا ہے لیکن ماضی کو مدنظر رکھیں تو یہ سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی کہ آئی ایم ایف ہدف کو مؤخر تو کر دیتا ہے لیکن معطل کرنے کے امکانات کم ہی ہوتے ہیں۔ جنوری کے آخری ہفتے میں ہونے والے آئی ایم ایف کے اجلاس میں پاکستان کی قسمت کا کیا فیصلہ ہوتا ہے‘ اس بارے کچھ بھی کہناقبل از وقت ہے۔ ممکن ہے کہ ایک ارب ڈالرز مل جائیں لیکن ساتھ نئی شرائط بھی لف ہو سکتی ہیں۔
اسمبلی میں جس مدعے کو سب سے زیادہ اچھالا گیا وہ سٹیٹ بینک آف پاکستان ترمیمی بل 2021 ہے۔ اسے ملکی خودمختاری پر سمجھوتا قرار دیا جا رہا ہے۔ گو کہ کچھ ترامیم آئی ایم ایف کے مطالبات کے عین مطابق نہیں ہیں جیسا کہ پارلیمنٹ اور سٹینڈنگ کمیٹیاں کسی بھی وقت گورنر سٹیٹ بینک کو بلا کر حساس معاملات سے متعلق انکوائری کر سکتی ہیں۔ گورنر یا ڈپٹی گورنر سٹیٹ بینک کی نوکری چھوڑنے کے دو سال تک کسی ایسے ادارے میں نوکری نہیں کر سکتا جس کے ساتھ وہ ڈیل کرتا رہا ہولیکن گورنر سٹیٹ بینک کا حکومتی عہدیداروں کے احکامات کو ماننے کے لیے قانونی طور پابند نہ ہونا کئی مسائل کو جنم دے سکتا ہے جس کے اثرات شاید آنا شروع ہو گئے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ افغانستان کے معاملے پر بلائے گئے وزرا ئے خارجہ کے او آئی سی اجلاس کے بعد حکومت پاکستان نے فیصلہ کیا تھا کہ سٹیٹ بینک سمیت تمام بینکوں میں افغانستان ریلیف فنڈ کے نام پر اکاؤنٹ کھولے جائیں جس میں افغانستان کے لیے امداد اکٹھی کی جا سکے۔ افغانستان میں بینکنگ سسٹم بحال ہونے تک ان اکاؤنٹس میں پیسہ جمع کروایا جائے‘ جیسے ہی وہاں نظام بہتر ہو گا ان اکاؤنٹس کو بند کر دیا جائے گا۔خبروں کے مطابق سٹیٹ بینک نے اس فیصلے پر عمل درآمد کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ دنیا نے ابھی تک طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔ اس طرح کی امداد دہشت گردوں کی مالی معاونت کے زمرے میں آ سکتی ہے۔ اگلے مہینے فیٹف کا اجلاس بھی ہے۔ بھارت اس فیصلے کو پاکستان کے خلاف استعمال کر سکتا ہے۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ او آئی سی نے خود انٹرنیشنل ریلیف فنڈ قائم کرنے کی تجویز دے رکھی ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ سمیت دیگر ممالک افغانستان میں انسانی حقوق کی بنیاد پر امداد فراہم کر رہے ہیں‘ لیکن گورنر سٹیٹ بینک شاید ان دلائل سے اتفاق نہیں کرتے۔ اپوزیشن کے مطابق وزیراعظم اور وزیر خزانہ کا حکم نہ ماننا ابھی صرف شروعات ہے۔ آنے والے دن مزید مشکلات لا سکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں