کسی حکومتی نظام کی کامیابی کا پیمانہ معیشت کی صورتحال ہوتا ہے۔ اگر ملک معاشی ترقی کر رہا ہے تو فوجی نظام ہو‘ شخصی حکومت کا نظام ہو‘ کمیونزم کا نظام نافذ کر دیا جائے‘ مذہبی حکومتی نظام کی حمایت کی جائے‘ جمہوریت پر اتفاق کر لیا جائے یا صدارتی نظام نافذ ہو جائے‘جو مرضی ہو جائے اس کی حمایت کی جائے گی ۔ اگر معاشی تنزل کا سامنا ہے تو جو مرضی نظام لے آئیں وہ ناکامی کے داغ سے نہیں بچ سکتا۔ عوام کا مسئلہ نظام نہیں روٹی‘ کپڑا اور مکان ہے۔ دنیا میں جتنے بھی حکومتی نظام متعارف کروائے گئے ہیں ان میں لوگوں کی معاشی حالت بدلنے کا دعویٰ سب سے پہلے کیا گیا۔ جہاں عام آدمی کا لائف سٹائل بہتر ہوا ہے اس نظام کو ہی کامیابی کا تاج پہنایا گیا ہے۔ چین کا نظام حکومت دنیا سے مختلف ہے لیکن اس نے پچھلے چالیس سال میں معاشی انقلاب برپا کر دیا ہے۔ دبئی میں بادشاہت کا نظام ہے اور اسی نظام کے تحت متحدہ عرب امارات کے صحرا امریکہ اور یورپ سے زیادہ جدید شہروں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ ترکی میں صدارتی نظام نافذ ہے جو کامیابی سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ ایران کا طرز ِحکومت باقی دنیا سے مختلف ہے۔ گو کہ وہاں معاشی انقلاب نہیں آ سکا لیکن دنیا بھر کی جانب سے عائد پابندیوں کے باوجود سوئی سے لے کر جہاز تک ایران میں تیار کیے جاتے ہیں۔ تہران دنیا کا سستا ترین شہر ہے اور ایران گلف ممالک میں سب سے بڑی پراکسیز کی مالی امداد کر رہا ہے۔ تقریبا ًسالانہ آٹھ ارب ڈالرز فلسطین‘ لبنان‘ شام اور یمن میں جنگجوؤں کی مالی امداد پر خرچ کیا جاتا ہے۔ ان حقائق کے پیش نظر کسی ایک نظام کو درست یا غلط نہیں کہا جا سکتا یا کسی ایک نظام کو تمام مسائل کا حل قرار نہیں دیا جا سکتا۔
آج کل پاکستان کے اقتدار کے ایوانوں سے لے کر گھروں کے ڈرائنگ رومز تک جو موضوع زیر بحث ہے وہ ملک میں صدارتی نظام کے نفاذ سے متعلق ہے۔ ہر چھ مہینے بعد سوشل‘ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر صدارتی نظام کے نفاذ کی بحث شروع کروا دی جاتی ہے۔ آج کل بھی اس حوالے سے ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ چلائے جا رہے ہیں اور تقریباً تمام بڑے چینلز اس کے فوائد بتانے میں مصروف ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان میں صدارتی نظام کے نفاذ سے معیشت بہتر ہو سکے گی؟ کیا ملک آئی ایم ایف کے جال سے نکل سکے گا؟ کیا قرضوں کے سہارے چلنے والی معیشت صرف آمدن کے سہارے چل سکے گی؟ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ختم ہو سکے گا؟ ڈالر کی قیمت پر قابو پایا جا سکے گا اور مہنگائی میں کمی لائی جا سکے گی؟ اگر یہ اہداف حاصل نہیں کیے جا سکتے تو صدارتی نظام لانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہ ایشو اصل عوامی مسائل سے توجہ ہٹانے کے مترادف ہے۔ دوسری طرف اگر حقائق پر بات کی جائے تو ملک میں موجود نام نہاد جمہوری نظام بھی ایک طرح سے صدارتی نظام ہی ہے۔ اپوزیشن نہ ہونے کے برابر ہے‘ تحریک انصاف جو قانون پاس کروانا چاہتی ہے آسانی سے کروا لیتی ہے‘ ملک کے تمام فیصلے وزیراعظم کی مرضی کے مطابق ہو رہے ہیں‘ لیکن معیشت بہتر نہیں ہو رہی۔ اس لیے میرا ماننا ہے کہ صدارتی نظام نافذ کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ صرف گلاس بدلے گامشروب کی مقدار اور ذائقہ ایک جیسا رہے گا۔
وزرا صدارتی نظام کی حمایت کرنے میں مصروف ہیں جبکہ معیشت کی صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ شرح نمو میں ریکارڈ اضافہ دکھانے کے لیے حکومت نے کارکردگی بہتر بنانے کے بجائے شرح نمو کا حساب لگانے والا فارمولا تبدیل کر دیا ہے۔ جس کے باعث شرح نمو ساڑھے پانچ فیصد سے تجاوز کر گئی ہے۔ حکومت نے بیس ائیر 2005-06 ء تبدیل کر کے 2015-16ء کر دیا ہے جس سے معیشت کی قدر تقریباً 27 ٹریلین 40 بلین روپے سے بڑھ کر 30 ٹریلین 50 بلین روپے تک پہنچ گئی ہے۔ اس سے پچھلے سالوں کی شرح نمو پر بھی فرق پڑا ہے۔ قابلِ ذکر فرق 2017-18 ء کے( ن) لیگ دور کاہے جس کی شرح نمو تقریباً ساڑھے چھ فیصد تک بڑھ گئی ہے۔ حساب کی تبدیلی سے معیشت کا حجم 347 بلین ڈالرز تک بڑھا دیا گیا ہے۔ فی کس آمدن بھی 1543 ڈالرز سے بڑھ کر 1666 ڈالرز تک پہنچ گئی ہے۔ اس طرح کے فیصلوں سے یہ رائے تقویت اختیار کرتی ہے کہ حکومت کا مقصد عوام کی معاشی حالت بہتر بنانے کے بجائے اعدادوشمار میں بہتری لانا ہے جو کہ افسوسناک ہے۔ آج کے جدید دور میں عوام کو زیادہ دیر تک بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا اور شاید اس مرتبہ وہ اعدادوشمار کے جھانسے میں آنے والے نہیں ہیں۔
ملک میں صدارتی نظام نافذ ہوتا ہے یا نہیں اس بارے کچھ کہا نہیں جا سکتا لیکن ڈالر کی قیمت 200 روپے تک لے جانے کے لیے شاید حکومت تیاری پکڑ چکی ہے۔ ایف بی آر کی جانب سے منی ایکسچینج کمپنیوں کو اربوں روپے کے ٹیکس نوٹسزکے بعدفاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان نے یہ اعلان کیا ہے کہ اضافی ٹیکس کا بوجھ عوام کو منتقل کیا جائے گا جس سے ڈالر 200 روپے تک بڑھ جائے گا۔ اس حوالے سے جاننے کے لیے جب میں نے ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشنز آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچہ سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ ایف بی آر نے 2010 ء میں کچھ ٹرانزیکشنز پر چھ فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس لگایا تھا۔ یہ قانون 2016ء میں ختم ہو گیا تھا۔ 2022ء میں ایف بی آر نے دوبارہ نوٹسز بھجوا دیے ہیں۔ جس کے باعث منی ایکسچینج کمپنیاں پریشان ہیں اور اس حوالے سے چیئر مین ایف بی آر سے مذاکرات جاری ہیں۔ امید ہے کہ یہ نوٹسز واپس لے لیے جائیں گے‘ لیکن ڈالر کی قیمت 200 روپے تک لا نے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ منی ایکسچینج کمپنیوں کے پاس یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ اپنی مرضی سے ڈالر کی قیمت بڑھا دیں۔ انہوں نے فاریکس ایسوسی ایشن کے صدر ملک بوستان کے بیان کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیا۔ ان کے مطابق ایف بی آر نے 16 فیصد ٹیکس نہیں لگایا بلکہ چھ فیصد کا نوٹس بھجوایا ہے۔ اس حوالے سے وزرات خزانہ کے ترجمان مزمل اسلم نے بتایا کہ اگر منی ایکسچینج کمپنیوں نے ڈالر کی قیمت بڑھانے کی کوشش کی تو ان کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا اور سرکار ان کے لائسنس بھی کینسل کر سکتی ہے۔
آنے والے دنوں میں ڈالر کی قیمت 200 روپے تک بڑھتی ہے یا نہیں اس حوالے سے کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پچھلے دو دن سے ہر خاص و عام ڈالر کی قیمت 200 روپے تک بڑھ جانے پر بات کررہا ہے۔ بعض مقتدر حلقوں کے مطابق سرکار نے منی ایکسچینج کمپنیوں کے ذریعے یہ افواہ جان بوجھ کر پھیلائی ہے تا کہ عوامی رد عمل کا اندازہ لگایا جا سکے کیونکہ مبینہ طور پر آئی ایم ایف معاہدے کے باعث حکومت پاکستان ڈالر کی قیمت 200 روپے تک لے جانے کی پابند ہے۔ اگر اس رائے کو درست مان لیا جائے تو آنے والے دن پاکستانیوں کے لیے زیادہ اچھے نہیں ہیں کیونکہ ڈالر کی قیمت 200 روپے تک جانے کا مطلب بجلی اور تیل کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہے جس سے مہنگائی بڑھے گی نتیجتاً پالیسی ریٹ بھی بڑھانا پڑے گا اور ممکنہ طور پر مہنگائی 15 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔
حکومت عوام کی ذہن سازی کرنے کے لیے ترکی کی مثالیں پیش کر رہی ہے جہاں مہنگائی 21 فیصد بتائی جا رہی ہے لیکن یہ نہیں بتایا جا رہا کہ وہاں عام آدمی کی آمدن میں بھی اضافہ ہو رہا ہے‘جبکہ پاکستان میں فی کس آمدن بڑھانے کے لیے عملی اقدامات کی بجائے فارمولوں کا سہارا لیا جا رہا ہے۔سرکار سے گزارش ہے کہ وقت گزاری کی بجائے عوامی مسائل کے حل کے لیے عملی اقدامات کرے تا کہ عام آدمی کی حالت بہتر ہو سکے اور آپ کو اعدادوشمارآگے پیچھے کرنے اور صدارتی نظام جیسے ایشوز لانچ کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔