حکومت نے موٹروے کو گروی رکھ کر ایک ارب ڈالرز کے سکوک بانڈز جاری کر دیے ہیں۔ اس سے پہلے ایئرپورٹس،موٹرویز کے اکثر حصے اور ریڈیو پاکستان کی عمارت سمیت کئی ملکی اثاثے گروی رکھوا کر قرض لیے گئے تھے۔ اس مرتبہ لاہور سے اسلام آباد والی موٹروے کو گروی رکھا گیا ہے۔ تحریک انصاف دعویٰ کرتی ہے کہ ان کے دور میں ریکارڈ ترقی ہوئی ہے‘ ملک درست معاشی سمت میں چل رہا ہے‘ معاشی شرحِ نمو میں تاریخی اضافہ ہوا ہے‘ فی کس آمدنی بڑھ گئی ہے‘ ترسیلاتِ زر تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہیں مگر حکومت کے دعووں کا اس کے فیصلوں سے متصادم ہونا شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔ اگر سب کچھ اچھا ہو رہا ہے تو ملکی اثاثے گروی رکھ کر قرض کیوں لیے جا رہے ہیں؟ کیا پاکستان کی مالی حیثیت اس قدر کمزور ہو چکی ہے کہ اثاثے گروی رکھوائے بغیر قرض نہیں ملتا؟ اگر صورتحال اس نہج پر پہنچ چکی ہے تو یہ یقینا گھبرانے کا وقت ہے، لیکن حیرت کا مقام یہ ہے کہ سرکار اس معاملے پر بھی پریشان دکھائی نہیں دیتی۔ اس کا کہنا ہے کہ ماضی کی حکومتیں بھی سکوک بانڈز کے ذریعے قرض لیتی رہی ہیں اور ان کے عوض ملکی اثاثے گروی رکھے گئے تھے۔
اگر ماضی پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی نے 2008ء سے 2013ء تک تقریباً 501 ارب روپے کے قرض سکوک بانڈز جاری کر کے قرض لیے تھے‘ اس دوران چودہ مرتبہ سکوک بانڈز جاری کیے گئے جن کے عوض ملکی اثاثوں کو گروی رکھا گیا تھا۔ اس کے بعد 2013ء سے 2018ء تک نون لیگ نے پانچ مرتبہ سکوک بانڈز جاری کیے جن کے ذریعے 435 ارب روپے کے قرض لیے گئے اور ملکی اثاثے گروی رکھوائے گئے لیکن تحریک انصاف کا دورِ حکومت سب سے زیادہ بھاری ثابت ہورہا ہے۔ ساڑھے تین سالوں میں تقریباً 13 سکوک ٹرانزیکشنز کی جاچکی ہیں جن کے ذریعے 900 ارب روپوں سے زیادہ قرض لیا جا چکا ہے اور موٹروے کے تقریباً تمام حصے گروی رکھے جا چکے ہیں۔ وزارتِ خزانہ کا ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ تحریک انصاف نے سب سے زیادہ اثاثے گروی رکھوا کر قرض لیے ہیں جو تشویشناک ہے۔ معاملات صرف یہاں ختم نہیں ہوتے بلکہ اس مرتبہ جو قرض لیا گیا ہے اس کی شرحِ منافع تقریباً 8 فیصد ہے جو ملک کی اسلامک بانڈز کی تاریخ میں سب سے زیادہ ہے۔
اسلامک بانڈز عمومی طور پر کم ریٹ پر جاری کیے جاتے ہیں کیونکہ ان کے عوض اثاثے گروی رکھے جاتے ہیں لیکن موجودہ ڈیل شکوک و شبہات کو جنم دے رہی ہے۔ موٹروے بھی گروی رکھوائی گئی ہے اور ریٹ بھی زیادہ دیا گیا ہے۔ یہ معاملہ حکومتی ٹیم کی نااہلی کا بھی ہو سکتا ہے کیونکہ ہم نے دیکھا ہے کہ آئی ایم ایف سمیت دیگر اداروں سے ماضی میں ہونے والے معاہدوں میں ملکی ٹیم کی کارکردگی مایوس کن رہی۔ پاکستانی ٹیم آئی ایم ایف سے ایک بھی مطالبہ اپنی شرائط پر نہیں منوا سکی۔ ممکنہ طور پر سکوک بانڈز ٹرانزیکشن میں بھی ایسا ہی ہوا ہے جس کے ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ مستقبل میں ہونے والی نئی ٹرانزیکشنز ماضی سے جڑی ہوتی ہیں۔ اگر ہم آج کم ریٹ پر ڈیل نہیں کر سکے تو آنے والے دنوں میں یہ ریٹ مزید بڑھ سکتا ہے۔صرف سکوک بانڈز پر مہنگے قرض پر نہیں لیے جا رہے بلکہ روشن ڈیجیٹل اکائونٹس کے ذریعے حاصل ہونے والی رقم پر بھی تقریباً ساڑھے چھ سے ساڑھے سات فیصد تک منافع دیا جا رہا ہے جوملکی معیشت پر خاصا بوجھ ہے۔
سرکار قرض لیتی جا رہی ہے لیکن اس کے استعمال کی تفصیلات فراہم کرنے سے گریزاں ہے۔ ابھی حال ہی میں سعودی عرب سے 3 بلین ڈالرز قرض تقریباً چار فیصد شرحِ سود پر لیا گیا ہے۔ ڈیرھ بلین ڈالرز کا تیل ادھار پر لیا گیا ہے۔ یہ قرض انتہائی سخت شرائط پر دیا گیا ہے اور سکوک بانڈز بھی بلند ترین ریٹس پر جاری کیے گئے ہیں۔ سرکار اس بارے میں عوام کو آگاہ نہیں کر رہی کہ یہ قرض لینے کے بعد ایسی کیا ضرورت آن پڑی تھی کہ ایک اب ڈالرز کے بانڈز بھی جاری کرنا پڑے۔ حقائق جاننے کے لیے شاید سٹیٹ بینک کے ذخائر پر نظر ڈالنا مددگار ثابت ہو۔ اس وقت یہ ذخائر تقریباً 17 ارب ڈالرز ہیں جبکہ بیس دن قبل یہ تقریباً 19 ارب ڈالرز تھے یعنی کہ حکومت نے 2 ارب ڈالرز ملکی ذخائر میں سے خرچ کر لیے ہیں۔ اب یہ رقم کس کھاتے میں سے خرچ کی گئی ہے اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ یاد رہے کہ سعودی عرب نے قرض ڈالرز کو سٹیٹ بینک میں رکھنے کے لیے دیا تھا‘ یہ رقم خرچ کرنے کے لیے نہیں دی گئی تھی۔ اس قرض کی شرائط بھی بہت سخت تھیں۔ سعودیہ جب چاہے حکومت پاکستان سے تین ارب ڈالرز واپس مانگ سکتا ہے اور پاکستانی سرکار 72 گھنٹوں کے اندر یہ رقم واپس کرنے کی پابند ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ اگر قرض واپس مانگ لیا گیا تو پاکستان اس کی ادائیگی کس طرح کرے گا۔
اس کے علاوہ حکومت نے ایک ارب ڈالرز کے مہنگے بانڈز جاری کرنے کا فیصلہ اس وقت کیا ہے جب سرکار نے آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالرز لینے کے لیے تقریباً دو ارب ڈالرز کے ٹیکسز عوام پر لگائے ہیں اور اس حوالے سے قانون سازی بھی کی گئی ہے لیکن ابھی تک آئی ایم ایف نے ایک ارب ڈالرز جاری نہیں کیے۔ پاکستان کے مقدر کا فیصلہ کرنے کے لیے آئی ایم ایف کا اجلاس جو 28 جنوری کو ہونا تھا‘ پاکستان کی درخواست پر اب 2 فروری کو ہو گا۔ اس میں قرض کی قسط کی منظوری دی جاتی ہے یا نہیں‘ اس بارے میں رائے دینا مشکل دکھائی دیتا ہے کیونکہ ابھی تک سٹیٹ بینک ترمیمی بل سینیٹ سے منظور نہیں ہوا‘ اور اپوزیشن نے مہنگائی کے خلاف لانگ مارچ کی کال بھی دے رکھی ہے۔ اس مرتبہ بھی اگر بل پاس نہ ہوا تو حکومت کے لیے مزید مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ اسی غیر یقینی صورتحال کے باعث ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہو رہا ہے جس کا عام آدمی کے معاشی حالت پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔ اس کے علاوہ پارلیمنٹ میں منگل کے روز پیش کی جانے والی رپورٹ بھی حکومتی کارکردگی پر سوالات اٹھا رہی ہے۔ اس کے مطابق تحریک انصاف نے مالی سال 2021ء کے اختتام پر قرضوں کی طے شدہ حد سے تقریباً 12 کھرب روپے زیادہ قرض لیا جس سے عوامی قرض تقریباً 40 کھرب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ ہر طرف سے مایوس کن خبریں موصول ہونے کے بعد شبر زیدی صاحب کا بیان درست دکھائی دیتا ہے۔ یاد رہے کہ انہوں نے کہا تھا کہ معیشت دیوالیہ ہو چکی ہے‘ گو کہ بعد میں انہوں نے اس بیان کی تردید کر دی تھی لیکن حالات کے پیش نظر ان کا ابتدائی بیان درست دکھائی دے رہا ہے۔
معاشی اصولوں کے مطابق قرض لینے کا مقصد معمولی سپورٹ حاصل کرنا ہوتا ہے تا کہ جو رقم آمدن سے پوری نہیں ہو رہی‘ وہ قرض سے پوری کر لی جائے لیکن محض قرضوں پر انحصار کر کے معیشت چلانے کو کسی بھی طرح سے دانش مندانہ پالیسی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ زیادہ پریشانی کا معاملہ یہ ہے کہ قرضوں کے بڑھنے سے مطلوبہ آمدن بھی نہیں بڑھ رہی اور یہ صورتحال اس امر کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ آنے والے دن زیادہ اچھے نہیں ہوں گے۔ قرضوں میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے اور ممکنہ طور پر مزید اثاثے گروی رکھوانا پڑ سکتے ہیں۔ یہ حالات کب تک ایسے ہی چلتے رہیں گے اور یہ برا وقت کب ختم ہو گا‘ اس بارے میں کوئی واضح پالیسی نہیں دی جا رہی۔ صرف یہ کہا جا رہا ہے کہ تین مہینوں بعد حالات بہتر ہو جائیں گے۔ پچھلے ساڑھے تین سالوں میں تقریباً تیرہ سہ ماہیاں گزر چکی ہیں لیکن حالات بہتر ہونے کے بجائے مزید خرابی کا شکار ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ممکنہ طور پر اگلے تین ماہ میں بھی حالات گزشتہ چالیس ماہ سے مختلف نہیں ہوں گے۔