سٹیٹ بینک ترمیمی بل اپوزیشن کے تعاون کے باعث سینیٹ سے پاس ہو گیا۔ اپوزیشن پارٹیوں خصوصی طور پر پیپلز پارٹی کے تعاون کے بغیر یہ بل پاس ہونا مشکل تھا۔ پاکستانی پارلیمنٹ کی خوبی یہ ہے کہ ایسے مواقع پر تعاون کرنے والے بآسانی میسر آ جاتے ہیں۔ چیئر مین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی ووٹنگ ہو‘ ایف اے ٹی ایف کا بل ہو یا سٹیٹ بینک ترمیمی بل ‘ پیپلز پارٹی نے ہر موقع پرحکومت کا ساتھ دیا ‘ جبکہ اسمبلی میں اس بل کی سب سے زیادہ مخالفت بھی پیپلز پارٹی کی شیری رحمان کرتی رہی ہیں۔ حیرت کا مقام یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی سیٹ سے منتخب ہونے والے قائد حزبِ اختلاف‘ پاکستان کے سابق وزیراعظم اور سابق سپیکر یوسف رضا گیلانی ووٹ ڈالنے کے لیے حاضر نہیں ہوئے اور حکومت ایک ووٹ سے سینیٹ میں بل پاس کروانے میں کامیاب ہوگئی۔
اس بل کے پاکستانی معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے اس حوالے سے کئی کالموں میں حقائق پیش کر چکا ہوں۔ یاد دہانی کے لیے آج صرف اتنا لکھنا چاہوں گا کہ سٹیٹ بینک ترمیمی بل پاس ہونے سے پہلے ہی گورنر سٹیٹ بینک نے افغانستان ریلیف فنڈ کے اکاؤنٹس سٹیٹ بینک اور کمرشل بینکوں میں کھولنے سے منع کر دیا تھا اور فروری میں ہونے والے فیٹف اجلاس میں پاکستان کے خلاف کارروائی ہونے کے خدشے کو بطور جواز پیش کیا تھا۔ بل منظوری کے بعد صورتحال کیا بنے گی اس میں سمجھدار کے لیے اشارہ ہی کافی ہے۔اب حکومت آئی ایم ایف کی منظوری کے بغیر سٹیٹ بینک سے قرض نہیں لے سکے گی۔ کمرشل بینکوں سے ان کی شرائط کے مطابق قرض ملے گا‘ یعنی کمرشل بینک ایک مرتبہ پھر بہترین منافع کمائیں گے۔ شاید اس لیے سرمایہ کاروں نے بینکوں کے شیئرز خریدنا شروع کر دیے ہیں اور دیگر کاروباروں سے رقم نکال کر بینکوں میں فکسڈ ڈپازٹس کروا رہے ہیں جو کہ معیشت کے لیے اچھی خبر نہیں ہے۔ بینکوں میں پیسہ رکھنے سے انڈسٹری کا پہیہ رک جاتا ہے جس سے بے روزگاری میں اضافہ اور شرح نمو میں کمی واقع ہوتی ہے۔ سٹیٹ بینک ترمیمی بل منظور ہونے کے بعد دو فروری کو آئی ایم ایف کے اجلاس میں پاکستان کو ایک ارب ڈالر ملنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں جس کے بعد تین ارب ڈالرز پاکستان کو مل جائیں گے اور بقیہ تین ارب ڈالرز وصول کرنے کے لیے مزید اقدامات کرنا ہوں گے‘ جن میں بجلی کے بلوں میں مزید اضافے جیسی شرائط بھی شامل ہیں۔ آج اس حوالے سے حالات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے تا کہ قابلِ عمل تجاویز حکومت کے سامنے رکھی جا سکیں اور عوام میں آگاہی بھی پیدا ہو سکے کہ مسائل کا حل کیا ہے۔
ہر وقت مسائل کا ذکر کر کے رونے دھونے سے بہتر ہے کہ مسائل کا حل بھی پیش کیا جائے۔ موجودہ حالات کے پیش نظر آنے والے دن مہنگائی لائیں گے کیونکہ پاکستان کو انرجی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے فرنس آئل کی ضرورت ہے۔ ابوظہبی ائیرپورٹ پر یمنی حملے کے بعد تیل کی عالمی مارکیٹ میں قیمتیں سات سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہیں۔ ان دنوں کا ریٹ 90 ڈالر فی بیرل سے تجاوز کر چکا ہے یعنی پاکستان میں تیل مزید مہنگا ہو گا۔ اس کے علاوہ حکومت نے آئی ایم ایف سے جون تک ہر ماہ چار روپے فی لٹرتیل مہنگا کرنے کا معاہدہ کر رکھا ہے۔ ان حالات کے پیش نظر جون 2022ء تک پٹرول 180 روپے فی لٹر سے تجاوز کر سکتا ہے۔
تیل کی قیمتیں کم کرنا حکومت کے بس میں نہیں ہے لیکن انرجی کے دیگر سستے منصوبوں پر کام کرنا بالکل ممکن ہے۔ ان میں سولر انرجی سے بجلی پیدا کرنے کا آپشن زیادہ مؤثر دکھائی دیتا ہے۔ اس میں ملکی سطح پر دو طرح کے منصوبے بنائے جا سکتے ہیں جن سے سستی بجلی پیدا کی جا سکے۔ قائداعظم سولر پارک بہاولپور ایک کامیاب منصوبہ ہے۔ پورے ملک میں اس طرز پر سولر پارکس بنائے جائیں۔ خصوصی طور پر جنوبی پنجاب کے ایسے علاقوں میں جہاں گرمی کی شدت زیادہ ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ چھوٹے پیمانے پر سولر پلانٹس لگا کر بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ یہ منصوبہ سولر پارکس کی نسبت زیادہ مؤثر ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ اس میں نیٹ میٹرنگ کی سہولت موجود ہے جس کے تحت گھروں‘ فیکٹریوں اور پلازوں کی چھتوں پر لگنے والے سولر پینلز سے بننے والی بجلی حکومت کو بیچی جاتی ہے یعنی کروڑوں گھروں کی چھتیں بطور بجلی گھر کام کر سکتی ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ سرکاری سطح پر گھروں‘ دکانوں‘ فیکٹریوں اور پلازوں کی چھتوں پر سولر پلانٹس لگانا لازمی قرار دیا جائے۔ اس کا آغاز حکومتی اداروں اور دفاتر کی چھتوں پر سولر پلانٹس لگاکر کیا جائے۔ امریکی ریاست کیلیفورنیا میں تقریباً دس ہزار میگا واٹ بجلی چھتوں پر لگے ہوئے سولر پلانٹس کے ذریعے حاصل کی جاتی ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان اس منصوبے کے تحت چند سالوں میں پانچ ہزار میگا واٹ بجلی بآسانی پیدا کر سکتا ہے‘ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو ماہانہ اہداف دیے جائیں۔ ہدف مکمل کرنے والوں کو انعامات دیے جائیں۔ میڈیا پر ان کی تشہیر کی جائے۔ مختلف پروگراموں میں انہیں مدعو کر کے آگاہی مہم چلائی جائے۔ اس عمل سے نہ صرف بجلی کی پیداوار میں اضافہ ہو گا بلکہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے درمیان مقابلے کی فضا قائم ہو سکے گی جس کا فائدہ ملک کو ہو گا۔
بدقسمتی سے اس وقت پاکستان میں نیٹ میٹرنگ سے مطلوبہ فوائد حاصل نہیں کیے جا رہے۔ کئی سالوں سے یہ سہولت پاکستان میں موجود ہے لیکن ابھی تک صرف 300 میگاواٹ بجلی ہی نظام میں داخل ہو سکی ہے۔اس کی ایک بڑی وجہ مبینہ طور پر رشوت ستانی بھی ہے۔ سولر پلانٹ لگانے کے بعد نیٹ میٹرنگ کی سہولت لینے کے لیے میٹر حکومت فراہم کرتی ہے۔ بجلی تقسیم کار کمپنیاں میٹر فراہم کرنے کے لیے چھ ماہ کا وقت مانگتی ہیں اور اگر رشوت دے دی جائے تو اگلے ہی دن میٹر لگ جاتا ہے۔ چھ ماہ بعد میٹر ملنے کا مطلب ہے کہ چھ ماہ میں جو بجلی پیدا ہو گی وہ سرکار کو بیچی نہیں جا سکے گی۔ حکومت سے گزارش ہے کہ اس منصوبے پر سنجیدگی دکھائے تا کہ عام آدمی کے لیے سہولت پیدا ہو سکے اور مہنگی بجلی سے جان چھوٹ جائے۔
سستی بجلی کی پیدوار کے لیے کوئلہ بھی اہمیت رکھتا ہے۔ پاکستان کوئلے کے ذخائر سے مالامال ہے۔ اس وقت 660 میگاواٹ بجلی کوئلے سے پیدا کی جارہی ہے۔ 2030ء تک اسے بڑھا کر 3600 میگا واٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ سرکار نے اس حوالے سے منصوبہ تو بنایا تھا لیکن اس پر عمل درآمد ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ حکومت یہ موقف اختیار کیے ہوئے ہے کہ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے لیے پاکستان کا انحصار چین پر تھا‘ عالمی پابندیاں لگنے کے بعد چین نے پوری دنیا میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر کام روک دیا ہے کیونکہ کوئلے سے پیدا ہونے والی بجلی فضائی آلودگی کا سبب بنتی ہے۔ اس لیے پاکستان کوئلے کے ذخائر سے بجلی پیدا کرنے سے قاصر ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ کوئلے سے بجلی پیدا نہ کرنے کے مسائل ترقی یافتہ ممالک کے ہیں‘ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے لیے زیادہ ضروری یہ ہے کہ سستی توانائی مہیا کی جائے اور مہنگائی کوکم کیا جائے‘ جو کہ کوئلے سے بجلی پیدا کرکے کی جا سکتی ہے‘ ڈیزل یا ایل این جی سے نہیں۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ سرکار اپن ذمہ داری پوری کرے۔پاکستان کے پاس ذہین دماغوں کی کمی نہیں اور وسائل نجی سیکٹر سے بآسانی حاصل کئے جا سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ ہائیڈرو پاور پراجیکٹس لگا کر سستی اور صاف بجلی حاصل کی جا سکتی ہے۔ ورلڈ بینک سمیت کئی اداروں کی مدد سے ہائیڈرو پراجیکٹس لگائے جا رہے ہیں لیکن سی پیک منصوبے کے تحت بننے والے ہائیڈرو پراجیکٹس تاخیر کا شکار ہو رہے ہیں جس کی وجہ مبینہ طور پر چینی کمپنیوں کو رقم کی عدم ادائیگی بتائی جا تی ہے۔ سرکار سے گزارش ہے کہ اربوں ڈالر پٹرولیم مصنوعات کی ادائیگی میں جھونکنے کی بجائے چند کروڑ ڈالران منصوبوں پر خرچ کر یں۔ امید ہے کہ پاکستان سستی انرجی پیدا کرکے مہنگائی پر قابو پا سکے گا۔