جنوری کے اختتام پر ادارۂ شماریات نے مہنگائی کے حوالے سے جو اعدادوشمار جاری کیے ہیں وہ کافی پریشان کن ہیں۔ ماہِ جنوری میں مہنگائی کی شرح 13 فیصد تک پہنچ گئی جو دسمبر 2021ء میں تقریباً سوا بارہ فیصد تھی۔ پچھلے پانچ ماہ سے اس میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں اس میں مزید اضافے کا ہی رجحان دیکھنے کو ملے گا کیونکہ آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدے کے مطابق حکومت نے پٹرولیم مصنوعات پر پٹرولیم لیوی کی مد میں ہر ماہ تقریباً 4 روپے فی لیٹر کے حساب سے اضافہ کرنا ہے۔ دوسری طرف دنیا میں تیل کی قیمتیں گزشتہ سات سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں‘ لہٰذا ان کا اثر بھی عوام پر پڑے گا جبکہ منی بجٹ کے ذریعے تقریباً 375 ارب روپے کے نئے ٹیکسز لگائے گئے ہیں جن کا اثر ابھی آنا باقی ہے۔ ممکنہ طور پر ان ٹیکسز کا اثر فروری کے مہینے میں آنا شروع ہو سکتا ہے۔ادارۂ شماریات کے مطابق ہول سیل پرائس انڈیکس 24 فیصد سے بڑھ گیا ہے۔ شہروں میں فوڈ انفلیشن تقریباً سوا تیرہ فیصد اور دیہات میں تقریباً پونے بارہ فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ گوشت کی قیمت میں تقریباً 23 فیصد، سبزیوں کی قیمت میں تقریباً ساڑھے گیارہ فیصد، پھلوں کی قیمت میں تقریباً 28 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ کھانے پینے کی چیزوں کے علاوہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔ موسم گرما کی نسبت موسم سرما میں بجلی کی قیمتوں میں زیادہ اضافہ کیا جاتا ہے کیونکہ سردیوں میں بجلی کا استعمال کم ہوتا ہے‘ اس لیے فی یونٹ ریٹ میں اضافے پر عوام زیادہ شور نہیں مچاتے۔ ادارہ شماریات کے مطابق بجلی کی قیمتوں میں 56 فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے۔ ستمبر سے لے کر جنوری تک مہنگائی میں مسلسل اضافے کی ایک وجہ بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ بھی ہے۔ اس کے علاوہ موٹر آئل کی قیمت میں 54 فیصد سے زیادہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ نان فوڈ انفلیشن تقریباً 12.8 فیصد رہی۔ مہنگائی میں یہ اضافہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے اندازوں اور طے کیے گئے حکومتی اہداف سے زیادہ ہے۔ حکومت کے مطابق مالی سال 2021-22ء میں مہنگائی کی شرح کا 9 فیصد تک برقرار رہنے کا تخمینہ لگایا گیا تھا جو ابتدائی سات مہینوں کے اختتام پر اوسطاً 10 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔ جنوری 2020ء میں مہنگائی کی شرح 14فیصد سے زیادہ تھی۔ اس کی ایک وجہ شرحِ سود میں ریکارڈ اضافہ تھا۔ اُن دنوں پاکستان نے تقریباً 3 ارب ڈالر ہاٹ منی کی صورت میں ادھار لے رکھا تھا۔ شرحِ سود تقریباً 13 فیصد تھی۔ اس کے بعد ہاٹ منی نکلنے، عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں کریش کرنے اور پاکستان میں کورونا پھیلنے کے باعث شرحِ سود میں کمی کی گئی لیکن پچھلے چار ماہ سے اب اس میں دوبارہ اضافہ ہوا ہے۔ آج شرحِ سود پونے دس فیصد ہے اور مہنگائی 13 فیصد تک بڑھ گئی ہے۔ اگر شرحِ سود 13 فیصد ہوتی تو ایک اندازے کے مطابق مہنگائی 16 فیصد سے تجاوز کر چکی ہوتی۔
اعدادوشمار کے مطابق جنوری 2020ء میں مہنگائی سب سے زیادہ تھی لیکن تکنیکی پہلو سے دیکھا جائے تو جنوری 2022ء میں مہنگائی 2020ء کے مقابلے میں زیادہ تھی۔ وزیراعظم صاحب بھی اس معاملے پر بے بس دکھائی دیتے ہیں۔ان کا فرمانا ہے کہ جو بات مجھے راتوں کو سونے نہیں دیتی وہ مہنگائی ہے‘ حکومت عوام کو ریلیف دینے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے لیکن بدقسمتی سے دنیا میں ہونے والی مہنگائی کا اثر پاکستان پر بھی پڑ رہا ہے‘ پاکستان درآمدات پر انحصار کرنے والا ملک ہے جس کی وجہ سے مہنگائی بڑھی ہے۔ وزیراعظم صاحب کا فرمانا اپنی جگہ بالکل درست ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ان حقائق کے بارے میں عوام پہلے سے جانتے ہیں‘ حکومت کا کام مسائل کی وجوہات بتانا نہیں بلکہ ان کا حل تلاش کرنا ہوتا ہے۔ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ فوڈ انفلیشن ہے۔ گھی، آئل، چینی، آٹا، دالیں، سبزیاں اور پھل وغیرہ پاکستان وافر مقدار میں پیدا کرتا ہے لیکن ملکی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے یہی اشیا درآمد بھی کی جاتی ہیں۔ صوبہ سندھ میں پام آئل پیدا کرنے کے بہترین مواقع موجود ہیں۔ گنے اور گندم کی پیدوار بڑھا کر اور ان کی بہتر مینجمنٹ سے ملکی ضرورت ملکی پیداوار سے ہی بہ آسانی پوری کی جا سکتی ہیں۔
زرخیز زمین ہونے کے باوجود پاکستان ایتھوپیا سے تقریباً 22 ملین ڈالرز کی سبزیاں درآمد کرتا ہے۔ ایتھوپیا کی سرزمین پاکستان کے مقابلے میں بالکل زرخیز نہیں ہے اور وہاں کا کاشت کے قابل رقبہ بھی کم ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایتھوپیا سبزیاں درآمد کر سکتا ہے تو پاکستان کیوں نہیں کر سکتا؟ اسی طرح سورج مکھی کی بھرپور کاشت بھی پاکستان میں آئل کی درآمدات کو کم کر سکتی ہے۔ ہماری معیشت کا انحصار زراعت پر ہے لیکن بدقسمتی سے فی ایکڑ پیداوار میں ہم علاقائی ممالک چین، بھارت اور بنگلہ دیش سے کافی پیچھے ہیں۔ جدید طریقے استعمال کر کے فی ایکٹر پیدوار دو سے تین گنا تک بہ آسانی بڑھائی جا سکتی ہے۔ فوڈ انفلیشن کم کرنے کے لیے ان پہلوئوں پر کام کرنے کے مثبت نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ وزیراعظم صاحب سے گزارش ہے کہ مسائل سے پریشان ہونے کے بجائے ان کے حل کی طرف توجہ دیں تاکہ آپ کے ساتھ عوام بھی رات کو چین کی نیند سو سکیں۔
ایک طرف مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے اور دوسری طرف قرضوں کا گراف بھی بلند ہو رہا ہے۔ سعودی عرب سے تین بلین ڈالرز قرض لینے کے بعد ایک بلین ڈالر سکوک بانڈز سے حاصل کیے گئے اور اب چین سے تین بلین ڈالرز قرض لینے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ اس وقت تقریباً 11بلین ڈالرز کا قرض چین سے بھاری شرحِ سود پر لیا جا چکا ہے۔ تین بلین ڈالرز مزید ملنے کے بعد یہ 14 بلین ڈالرز تک پہنچ جائے گا۔ بظاہر یہ رقم فارن ایکسچینج ریزروز کی گرتی ہوئی سطح کو بڑھانے کے لیے لی جارہی ہے لیکن مستقبل میں اسے خرچ کیا جاتا ہے یا نہیں‘ اس بارے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ یاد رہے کہ سعودی عرب سے تین ارب ڈالر قرض سٹیٹ بینک میں رکھنے کے لیے لیا گیا تھا لیکن مبینہ طور پر انہیں خرچ کیا جا چکا ہے۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق یہ رقم قرضوں کی ادائیگی میں استعمال ہوئی ہے۔ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان پر مہنگے قرضوں کا خاصا بوجھ ہے۔ چاہے دوست ملک ہوں یا بین الاقومی مالیاتی ادارے‘ پاکستان کو قرض سخت شرائط پر مل رہے ہیں۔ اگر چین کی بات کی جائے تو تقریباً ساڑھے چار ارب ڈالرز کے قرض پر تقریباً 27 ارب روپے سے زیادہ سود ادا کیا گیا ہے۔ اسی طرح سعودی عرب کا قرض بھی تقریباً چار فیصد پر لیا گیا ہے۔ سکوک بانڈز تقریباً 8 فیصد پر جاری کیے گئے ہیں۔ اب چین سے 3 بلین ڈالرز کن شرائط اور کس شرحِ سود پر ملیں گے اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ایک طرف ملک پر قرضوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے اور دوسری طرف نقصان میں چلنے والے قومی اداروں کی نجکاری نہیں کی جا رہی۔ ان اداروں میں پی آئی اے، ریلوے اور پاکستان سٹیل ملز سرفہرست ہیں۔ گو کہ پی آئی اے کو 2025ء تک منافع بخش ادرے میں تبدیل کرنے کے لیے منصوبہ بندی کی جارہی ہے لیکن اس کے مثبت نتائج سامنے آتے دکھائی نہیں دے رہے۔ بیرونِ ملک ماہر کنسلٹنٹ نے ایک منصوبہ بنا کر دیا ہے جس میں 20 مزید جہاز خریدنے سے لے کر پی آئی اے کے کچھ اثاثوں کو بیچنے کی بھی آپشن رکھی گئی ہے۔ خدشہ ہے کہ ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی اس منصوبے کے مثبت نتائج نہیں آئیں گے اور ممکنہ طور پر جہازوں کی خریداری میں کمیشن مافیا فائدہ اٹھائے گا اور پی آئی اے کے نقصانات میں مزید اضافہ ہو گا۔