حکومت معاشی کارکردگی بہتر دکھانے کے لیے جن راستوں پر گامزن ہے اس کے مثبت نتائج سامنے آنا مشکل نظر آتے ہیں۔ حساب کتاب کے فارمولے تبدیل کرنے اور طے شدہ اہداف کو ذاتی فیصلوں کے ذریعے خود ہی توسیع دینا حقیقت سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہے۔ بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لینا کامیاب پالیسی نہیں ہو سکتی۔ فرق اس وقت پڑے گا جب عوام کی معاشی حالت بہتر ہو گی‘ بین الاقوامی ادارے ملکی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کریں گے اور دوست ممالک سے سخت شرائط پر قرض نہیں مانگنے پڑیں گے۔ قائمہ کمیٹی برائے فنانس اینڈ ریونیو نے Fiscal Responsibility And Limitation Act 2021 میں تبدیلیوں کی منظوری دے دی ہے۔ملکی قوانین کے مطابق سرکار ملکی معاشی حجم کے 60 فیصد سے زیادہ قرض نہیں لے سکتی۔ اگر قرض کا حجم طے شدہ ہدف سے بڑھ جائے تو اسے کم کرنا سرکار کی ذمہ داری ہے۔ پہلے یہ ہدف طے کیا گیا تھا کہ حکومت 2016-17 ء تک عوامی قرض کو 60 فیصد سے نیچے لانے کے لیے اقدامات کرے گی لیکن کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ حالاتِ حاضرہ کے پیش نظر مستقبل قریب میں یہ ہدف حاصل کرنا تقریباً ناممکن دکھائی دیتا ہے‘ اس لیے سرکار نے تاریخ2026-27 ء تک بڑھا دی ہے‘اور کوئی پوچھنے والا نہیں کہ سرکار نے ایسا کیوں کیا۔
ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس ناکامی پر ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی جاتی‘ معاشی پالیسیوں میں کمزوریوں کی نشاندہی کی جاتی‘ وزیر خزانہ میڈیا کے سامنے پریس کانفرنس میں اعتراف کرتے کہ ان کی سرکار قرضوں کو کم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ وزیراعظم آج کل سیاسی جلسے کر رہے ہیں جن میں پھر چور اور ڈاکو کی کہانیاں سنائی جا رہی ہیں‘ لیکن وہ عوام کو یہ بتانے میں شاید دلچسپی نہیں رکھتے کہ ان کی سرکار نے ملکی قرضے 20 کھرب روپے سے نیچے لانے کے وعدے کئے تھے جس میں وہ ناکام ہوئے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ قرض 40 کھرب سے تجاوز کر چکے ہیں۔ قرضوں کو کم کرنے کی بجائے قرض کم کرنے کے اہداف کی مدت میں 10 سال توسیع کی جا رہی ہے جو کہ مضحکہ خیز ہے۔ اسی طرح شرح نمو میں اضافے کے حقائق بھی شرما دینے والے ہیں۔ سرکار نے معاشی کارکردگی بہتر بنانے کی بجائے بیس ائیر ہی تبدیل کر دیا ہے۔ پہلے بیس ائیر2005-06 ء تھا جسے تبدیل کرکے 2015-16 ء کر دیا گیا ہے‘ جس سے شرح نمو بہتر دکھائی گئی ہے۔ اسی فارمولے کے تحت قرضوں اور جی ڈی پی کے تناسب کو بہتر کر کے دکھایا جا رہا ہے۔ بیس ائیر تبدیل کرنے سے پہلے قرضوں اور جی ڈی پی کا تناسب تقریبا ً84 فیصد تھا جو کہ تبدیلی کے بعد کم ہو کر تقریبا ً72 فیصد پر آ گیا ہے۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کو یہ ضرورت اس وقت پیش کیوں آئی؟ پچھلے سالوں میں بیس ائیر کیوں تبدیل نہیں کیا گیا؟ یہ سمجھنے کے لیے تحریک انصاف کی موجودہ پالیسی پر نظر دوڑانا ہو گی۔
تحریک انصاف حکومت میں ہے لیکن وزیراعظم نے سیاسی جلسے شرو ع کر دے ہیں۔ جلسوں میں چور ڈاکو کی گردان زیادہ دیر نہیں چل سکے گی‘ اس لیے معاشی کارکردگی کے کچھ مثبت اعدادوشمار سامنے ہونا ضروری ہیں جس سے عام آدمی کی آنکھوں میں دھول جھونکی جا سکے۔ انہیں کامیابی کے اعدادوشمار بتائے جا سکیں۔ اگر وزیراعظم عوام کو حقائق بتانے میں سنجیدہ ہو گئے تو شاید جلسوں کے ساتھ پریس کانفرنس اور ٹی وی پر تقریروں سے بھی اجتناب کرنا پڑ جائے کیونکہ اس وقت مہنگائی 13 فیصد سے تجاویز کر چکی ہے‘ ڈالر 178 روپے میں فروخت ہو رہا ہے اور پٹرول کی قیمت 160 روپے سے بڑھ چکی ہے جس سے مہنگائی کا نیا سونامی تیار کھڑا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق فروری کے اختتام پر مہنگائی کی شرح 14 فیصد سے تجاوز کر سکتی ہے جس کا اثر پالیسی ریٹ پر بھی پڑ سکتا ہے۔ یہ اصل حقائق ہیں جنہیں عوام کے سامنے رکھا جانا چاہیے۔
اس کے علاوہ کچھ گزارشات فواد چوہدری صاحب سے بھی‘ کیونکہ تصویر کا ایک رخ دکھانا مناسب نہیں ہے۔ فواد چوہدری صاحب نے چند ماہ قبل گاڑیوں کی فروخت میں اضافے کی خبر کو ٹوئٹ کرتے ہوئے طنزیہ طور پر فرمایا تھا کہ ''ملک میں مہنگائی ہے‘‘اس کے علاوہ وہ پریس کانفرنسوں میں بھی گاڑیوں کی فروخت میں اضافے کو بطور اعزاز پیش کرتے رہے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی رہی کہ مہنگائی میں اضافہ نہیں ہوا‘ عوام خوش ہیں اور مہنگی گاڑیاں خریدی جا رہی ہیں۔ لیکن وہ شاید فروری کے مہینے میں ٹوئٹ کرنا بھول گئے ہیں۔ جنوری 2022 ء میں گاڑیوں کی فروخت میں 25 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ فواد صاحب اس خبر کو بھی ٹوئٹ کرتے اور اعتراف کرتے کہ مہنگائی زیادہ ہونے کی وجہ سے گاڑیوں کی فروخت کم ہو رہی ہے جو کہ تحریک انصاف کی حکومت کی ناکامی ہے۔ انہیں عوام کو بتانا چاہیے کہ کمزور حکومتی پالیسیوں کی بدولت کار کمپنیوں نے اپنی مرضی سے قیمتیں بڑھائی ہیں۔پریس کانفرنس میںحماد اظہر نے وزیراعظم صاحب کی موجودگی میںفرمایا کہ ہم اون منی ختم کرنے کے لیے نئے ٹیکس لگا رہے ہیں لیکن نئے ٹیکس لگنے کے بعد بھی اون منی کے کاروبار میں کوئی کمی نہیں آئی کیونکہ نیا ٹیکس لگا کر اس سے بچنے کا راستہ بھی حکومت نے فراہم کر دیا ہے۔ سرکار نے تھرڈ پارٹی سے گاڑی خرید کر اپنے نام پر رجسٹرڈکروانے پر تقریبا ًدولاکھ روپے ٹیکس لگایا ہے۔ اگر تھرڈ پارٹی کے نام گاڑی رجسٹرڈ کروا کر اپنے نام ٹرانسفر کروا لی جائے تو دو لاکھ روپے اضافی ٹیکس چارج نہیں ہوگا۔ آجکل اسی فارمولے پر عمل کیا جا رہاہے جس کی وجہ سے گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور ان کی فروخت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اس وقت سینکڑوں جعلی کمپنیاں اون منی کا کاروبار کر رہی ہیں۔ کچھ انویسٹرز مل کر ایک جعلی کمپنی بناتے ہیں جس کے نہ تو ملازمین ہوتے ہیں اور نہ ہی کوئی سیٹ اپ ہوتا ہے۔ ان جعلی کمپنیوں کے لیٹر ہیڈ پر کار کمپنیوں کی ڈیلر شپ کو درخواست کی جاتی ہے کہ کمپنی ملازمین کے لیے گاڑیاں خریدنی ہیں۔ نہ ہی ایف بی آر ان کو چیک کرتا ہے اور نہ ہی کار کمپنیاں ان سے پوچھ گچھ کرتی ہیں کہ اگر سینکڑوں گاڑیاں بک کروا رہے ہیں تو ان ملازمین کی لسٹ‘ شناختی کارڈ نمبر اور ای او بی آئی میں رجسٹریشن کے ثبوت دکھائے جائیں۔ اس کے علاوہ روزانہ کی بنیاد پر ان جعلی کمپنیوں کے نام پر سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس کی انوائسز ایف بی آر میں رپورٹ کروائی جا رہی ہیں لیکن کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں کہ ان کے پاس کروڑوں روپے کہاں سے آ رہے ہیں۔
سرکار اگر اون منی کے خلاف کارروائی کرنے میں سنجیدہ ہے تو سب سے پہلے اون منی کے کاروبار کو سرکاری سطح پر غیر قانونی قرار دیا جائے۔ اس کاروبار میں ملوث افراد کے لیے سزائیں تجویز کی جائیں۔ اس کے بعد جعلی کمپنیوں کے خلاف سٹنگ آپریشن شروع کیا جائے۔ اس سٹریٹجی کے تحت اون مافیا کی کمر توڑی جا سکتی ہے‘ لیکن اس کے لیے سرکار کا سنجیدہ ہونا لازمی ہے۔ ایسے کئی شواہد بھی موجود ہیں کہ حاضر سروس بیوروکریٹس‘ ایم پی ایز اور ایم این ایز بھی جعلی کمپنیاں بنا کر اون منی کا کاروبار کر رہے ہیںکیونکہ پیسہ بنانے کا یہ سب سے آسان طریقہ ہے۔ نہ بجلی کے بلز دینا پڑتے ہیں‘ نہ سٹاف ہائیر کرنا پڑتا ہے‘ نہ شو روم کا کرایہ دینا پڑتا ہے اور نہ ہی بیچنے کے لیے مار کیٹنگ کرنا ہوتی ہے۔ یہ سب کام ڈیلر شپ دس یا بیس فیصد کے عوض کر دیتی ہے۔ اگر سرکار نے گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور اون منی پر قابو نہ پایا تو آنے والے دنوں میں گاڑیوں کی فروخت مزید کم ہو سکتی ہے جس سے ٹیکسز کے حصول میں کمی ہو سکتی ہے‘ فرنچائزز بند ہو سکتی ہیں اور بے روزگاری میں اضافہ ہو سکتا ہے۔