سقوطِ ڈھاکہ کے بعد‘ پاکستان میں بیرونی قرضے لینے کی رفتار میں تیزی دیکھنے میں آئی۔ اس وقت چونکہ ملک دو لخت ہوا تھا‘ اس لیے ملکی کرنسی کی قیمت تقریباً آدھی رہ گئی تھی۔ اگرچہ وہ ایک سانحے کا دور تھا لیکن تحریک انصاف کی حکومت بننے کے بعد پاکستانی روپے کی قدر میں کمی اور قرضوں میں تقریباً دو گنا تک اضافہ بھی کسی سانحے سے کم نہیں۔ یہ سچ ہے کہ 2018ء سے پہلے کی حکومتوں نے ریکارڈ قرضے لیے جس کے باعث ملکی ترقی متاثرہوئی لیکن اگر حقائق پر نظر ڈالیں تو اس باب میں موجودہ حکومت بھی ماضی کی حکومتوں سے مختلف نہیں‘ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ قرض لینے کے معاملے پر اس کی رفتار ماضی کی تمام حکومتوں کی نسبت زیادہ ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ تحریک انصاف کی حکومت بننے سے پہلے ملک پر 30 کھرب روپے قرضوں کا بوجھ تھا جو تحریک انصاف کے چالیس ماہ کے دورِ حکومت میں 51 کھرب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ اگر سرکار نے اپنی پانچ سالہ مدت پوری کی تو خدشہ ہے کہ ملک کے مجموعی واجب الادا قرضوں کا حجم 60 کھرب روپے سے بھی تجاوز کر سکتا ہے۔
پچھلے چار مہینوں میں ایک ارب ڈالر آئی ایم ایف، ایک ارب ڈالر سکوک بانڈز اور تقریباً ساڑھے چار ارب ڈالر سعودی عرب سے لینے کے بعد ورلڈ بینک سے 435 ملین ڈالرز قرض منظور کرایا گیا۔ یہ قرض پاکستان ہائوسنگ فنانس پروجیکٹ، پنجاب اربن لینڈ سسٹم اِنہانسمنٹ پروجیکٹ اور پنجاب افورڈ ایبل ہائوسنگ پروگرامز کو دیا جائے گا‘ جس کے بے شمار فوائد بھی بتائے جا رہے ہیں۔ بظاہر یہ قرض پنجاب سے تعلق رکھنے والے کم آمدن والے شہریوں کے گھروں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے دیا جائے گا لیکن اس سے ان کی منشا کے مطابق ضروریات پوری ہوں گی یا نہیں‘ اس بارے علم آنے والے دنوں میں ہی ہو سکے گا۔ عمومی طورپر دیکھا جائے تو بدقسمتی سے ہمارے ملک میں قرض انہی لوگوں کودیا جاتا ہے جنہیں اس کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اُس وقت تک قرض نہیں دیا جاتا جب تک یہ یقین نہ ہوجائے کہ قرض لینے والے کے پاس قرض کی رقم سے تین سو گنا زیادہ تک اثاثے موجود ہیں۔ ان حالات میں ورلڈ بینک سے قرض لے کر عوام کو سہولتیں فراہم کرنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ سستے گھروں کی جو سرکاری سکیمیں پہلے سے چل رہی ہیں‘ ان میں سے اکثریت کی شرائط اس قدر مضحکہ خیز ہیں کہ ان پر پورا اترناً تقریبا ناممکن ہے۔ شاید اسی وجہ سے یہ منصوبے سست روی کا شکار ہیں۔
ورلڈ بینک کے بعد آئی ایم ایف سے مزید تین ارب ڈالرز قرض لینے کے لیے بھی مذاکرات جاری ہیں۔ ستمبر2022ء تک پاکستان کو تین ریویوز مکمل کرنا ہیں‘ جس کا مطلب ہے کہ پٹرولیم اور بجلی پر تقریباً 250 سے 300 ارب روپے کی سبسڈی کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ موجودہ ریویو کا وقت 11مارچ کو مکمل ہو چکا ہے۔ آئی ایم ایف نے اس حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کر دیا ہے۔ وزارتِ خزانہ سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق حکومت مزید وقت کی طلبگار ہے لیکن آئی ایم ایف سبسڈی اور بزنس ایمنسٹی سکیم کو فوری واپس لینے پر زور دے رہا ہے۔ کمزور معیشتوں کے پاس آزادانہ فیصلہ لینے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ اگر فیصلہ لے بھی لیا جائے تو اس پر قائم رہنے کی اجازت نہیں ملتی جبکہ مضبوط معیشت کے حامل ملک اور ریاستیں بین الاقومی اداروں اور ان کی پالیسیوں کی پروا نہیں کرتے۔اس حوالے سے یو اے ای کی مثال ہمارے سامنے ہے۔
امریکا اور یورپ میں روس پر مالی پابندیاں لگنے کے بعد روسی شہریوں نے اپنے اثاثے یورپ اور امریکا سے دبئی منتقل کرنا شروع کر دیے ہیں۔ خاص طور پر کرپٹو کرنسی میں رکھے گئے اثاثے تیزی سے دبئی منتقل ہو رہے ہیں اور متحدہ عرب امارات کی حکومت اسے مکمل سپورٹ کر رہی ہے۔ یاد رہے کہ ایف اے ٹی ایف (فیٹف) نے حال ہی میں متحدہ عرب امارات کو گرے لسٹ میں شامل کیا تھا لیکن اس نے اس کی پروا کیے بغیر کرپٹو کرنسی اور بلیک منی کے لیے اپنے ملک کے دروازے کھول دیے ہیں۔ دبئی میں کرپٹو کرنسی کو ڈیل کرنے والی ایک ایجنسی کے مالک نے بتایا کہ پہلے ایک مہینے میں بلیک منی اور کرپٹو کرنسی کے حوالے سے ایک یا دو کلائنٹس آتے تھے جبکہ پچھلے ایک مہینے سے ہر ہفتے دس سے بارہ کلائنٹس رابطہ کر رہے ہیں اور ان میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جن کے اثاثے سوئٹزرلینڈ میں ہیں۔ روسیوں کو خدشہ ہے کہ سوئٹزر لینڈ بھی جلد روسی اثاثوں پر پابندیاں لگا دے گا‘ اس لیے وہ اثاثے دیگر جگہوں پر منتقل کر رہے ہیں۔ ایک کلائنٹ نے ایک لاکھ پچیس ہزار بٹ کوائن منتقل کرنے کے لیے کہا جو تقریباً 6ارب ڈالر بنتے ہیں۔کسی بھی شخص کے پاس اتنی بڑی رقم کی موجودگی بہت حیران کن ہے۔اس معاملے میں حکومت پاکستان کو بھی ہمت دکھانا ہو گی۔ وزیرخزانہ ہر مرتبہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم آئی ایم ایف کے مطالبات نہیں مانیں گے جبکہ ہر مرتبہ عمل دعووں کے برعکس ہوتا ہے۔ گزارش ہے کہ اس مرتبہ آئی ایم ایف کے سامنے بزنس ایمنسٹی سکیم کو ختم کرنے کے معاملے پر ہتھیار مت ڈالے جائیں۔ یو اے ای کے حکمران شیخ محمد نے وزیراعظم عمران کے پہلے دورۂ متحدہ عرب امارات کے موقع پرمشورہ دیا تھا کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ پاکستان ترقی کرے تو کاروباری لوگوں کو پیسہ کمانے دیں‘ ان کے لیے آسانیاں پیدا کریں۔ بلاشبہ بزنس ایمنسٹی سکیم متحدہ عرب امارات طرز کی حکمت عملی کے مطابق ہے۔ عوامی سطح پر اسے پذیرائی مل رہی ہے اور امید کی جارہی ہے کہ اگر عدم اعتماد کی تحریک کامیاب نہ ہوئی تو اس حکومت کا آخری سال معاشی ترقی کا سال ہو گا۔
اگر پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی ختم کرنے کے معاملے کو دیکھا جائے تو حکومت پاکستان کے پاس ایسے کئی طریقے موجود ہیں جن پر عمل کر کے عوام کو مزید ریلیف دیا جا سکتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق حکومت نے مالی سال 2022ء کے پہلے سات مہینوں میں تقریباً 288 ارب روپے کے ٹیکسز پٹرولیم مصنوعات سے اکٹھے کیے ہیں۔ ایک طرف حکومت اربوں روپے ٹیکس وصول کر رہی ہے اور دوسری طرف عوام کو یہ بتایا جاتا ہے کہ سرکار پٹرولیم مصنوعات پر کوئی ٹیکس نہیں لے رہی۔ایف بی آر ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق ملک کی بڑی تیل مارکیٹنگ اور امپورٹ کمپنیوں نے چین سے فری ٹریڈ ایگریمنٹ کا مبینہ طور پر غلط استعمال کر کے اربوں روپوں کا ٹیکس منافع حاصل کیا ہے یوں قومی خزانے کو دانستہ طور پر نقصان پہنچایا گیا ہے۔ پاکستان کو فری ٹریڈ ایگریمنٹس کے تحت چین سے بغیر ٹیکس کے اشیا درآمد کرنے کی سہولت میسر ہے۔ اطلاعات کے مطابق ان میں پٹرولیم مصنوعات شامل نہیں لیکن چور راستوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چین سے ٹیکس فری تیل منگوایا جارہا ہے اور عوام کو مہنگے داموں فروخت کیا جا رہا ہے۔ اس کا فائدہ نہ تو سرکار کو ہو رہا ہے اور نہ ہی عوام کو منتقل کیا جا رہا ہے بلکہ تیل درآمد کرنے والوں کی پانچوں انگلیاں گھی اور سر کڑاہی میں ہے۔
یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ چین تیل کی پیداوار میں خود مختار نہیں ہے‘ ایسی صورتحال میں یہ کیسے ممکن ہے کہ چین مہنگا تیل درآمد کر کے پاکستان کو سستا بیچ دے۔ اس حوالے سے کچھ حکومتی ارکان اور پٹرولیم ڈویژن کے افسران کا گٹھ جوڑ سامنے آیا ہے۔ ذرائع کے مطابق اب حکومت نے چین سے پٹرول کی درآمد پر 10فیصد ٹیکس لگانے کا فیصلہ کیا ہے لیکن یہ کافی نہیں ہو گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مذکورہ کمپنیوں اور افراد سے پچھلی ریکوریاں بھی کی جائیں جو ایک اندازے کے مطابق 45ارب روپے بنتی ہیں۔ یہ اپروچ ٹیکس آمدن میں اضافہ کر سکتی ہے‘اس کے علاوہ اگر پٹرولیم مصنوعات کو فری ٹریڈ ایگریمنٹ کے ذریعے منگوانا ضروری ہے تو اس کا فائدہ براہ راست عوام کو منتقل کیا جانا چاہیے نہ کہ پٹرولیم مافیا اس سہولت کا غلط استعمال کرے۔ سیاسی عدم استحکام کی شکار سرکار سخت کنٹرولز کے ذریعے ہی عوام کو پٹرولیم پر ریلیف دینے کا عمل جاری رکھ سکے گی۔