پاکستان سٹاک ایکسچینج میں شدید مندی کا رجحان ہے‘ لیکن سیاسی سٹاک ایکسچینج کا انڈیکس اوپر سے اوپر جا رہا ہے اور سرمایہ کاری کرنے والوں کو بلند منافع ملنے کی بھی اطلاعات ہیں۔ سیاسی سٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری اور نفع و نقصان کے اصول بھی کمرشل کاروبارکی طرح ہوتے ہیں۔ یہاں الیکشن مہم کے نام پر سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔ ممبر اسمبلی بننے کے بعد پانچ سال میں کمائی کے کم از کم دو سیزنز لگتے ہیں‘ ایک قومی اسمبلی کے الیکشن اور دوسراسینیٹ الیکشن ۔ ان دونوں سیزنز میں اتنا کچھ ہاتھ آ جاتا ہے کہ الیکشن کمپین پر لگایا ہوا سرمایہ واپس آجاتا ہے‘ اگلے الیکشن کے فنڈز بھی اکٹھے ہو جاتے ہیں اور خالص منافع بھی مل جاتا ہے۔ عمومی طور پر قومی اسمبلی کے ایک حلقے کی الیکشن کمپین پر پانچ سے سات کروڑ روپے خرچ ہوجاتے ہیں اور اس کے بدلے 15 سے 20 کروڑ روپے باآسانی کما لینے کی رپورٹیں ہیں۔ اگر وزارت مل جائے تو پھر سمجھیے کہ پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں۔ کم از کم عوامی سطح پر سیاسی سٹاک ایکسچینج کے بارے میں رائے یہی ہے۔
دنیا میں کوئی لنچ مفت کا نہیں ہوتا۔ سیاستدان اگر وفاداریاں بدلتے ہیں تو کچھ لینے اور دینے کے اصول کے تحت ہی ایسا ممکن ہوتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ اس طرح کے کئی واقعات سے بھری پڑی ہے۔ ماضی اور حال کو اگر سامنے رکھا جائے تو خریدو فروخت کے معاملے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔اصغر خان کیس کی مثال آپ کے سامنے ہے جس میں مہران بینک کے سربراہ یونس حبیب نے سپریم کورٹ میں یہ اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے آئی جے آئی بنانے کے لیے سیاستدانوں میں رقم تقسیم کی۔ اسد درانی بھی سپریم کورٹ میں بیان حلفی دے کر یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ انہوں نے 90 کی دہائی میں سیاستدانوں کی خریدو فروخت کے لیے 14 کروڑ روپے تقسیم کیے تھے۔ اسی طرح اسلم بیگ صاحب نے بھی سپریم کورٹ میں یہ بیان حلفی جمع کروا رکھا ہے کہ اسد درانی نے نئی حکومت بنانے میں مدد کرنے کے لیے ہارس ٹریڈنگ کی تھی۔ اس کے علاوہ چھانگا مانگا کی سیاست‘ رفیق تارڑ مرحوم پر ہارس ٹریڈنگ کے الزامات‘ 2018ء میں ایک ہی رات میں بلوچستان حکومت گرا دینے پر آصف زرداری کے ارکان کی خریدوفرخت پر ذو معنی بیانات‘ جہانگیر ترین کے ہارس ٹریڈنگ کرنے کے اعتراف سمیت کئی دیگر واقعات کے باعث عوامی سطح پر یہ رائے تقویت اختیار کرچکی ہے کہ موجودہ صورتحال میں پی ٹی آئی کے ارکان کی خریدو فروخت خارج از امکان نہیں۔ لیکن عوام اس کا ذمہ دار تحریک انصاف ہی کو قرار دیتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اگر پی ٹی آئی 2018ء میں اپوزیشن کے ممبرز کو نہ خریدتی تو آج ان کے ساتھ بھی ایسا نہ ہوتا۔ عوام کو امید تھی کہ تبدیلی ہارس ٹریڈنگ کا راستہ روکے گی لیکن بدقسمتی سے وہ خود اس کا حصہ بنتی دکھائی دی۔ شاید انہوں نے جو بویا تھا وہی کاٹ رہے ہیں۔
میں یہاں ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ سیاستدانوں کی خوشحال اور ملکی خوشحالی میں فرق ہوتا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ اگر سیاستدان ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں تو ملک بھی ترقی کی جانب گامزن ہو۔ اگر پچھلے ماہ کی بات کی جائے تو پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری کے اعدادوشمار حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ فروری کے مہینے میں فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ تقریبا ً91 ملین ڈالر رہی جبکہ پچھلے سال فروری میں فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ 137 ملین ڈالرز تھی۔ یہ کمی تقریباً 34 فیصد بنتی ہے جو کہ تشویشناک ہے۔ حکومتی عہدیدار اس کمی کو روس یوکرائن جنگ کے ساتھ جوڑ رہے ہیں جو کہ حقیقت سے نظریں چرانے کے مترادف ہے۔ بیوروکریسی میں بیٹھے بابوؤں کی سٹریٹجی رہی ہے کہ وہ نااہلی اور بری کارکردگی کا بوجھ ہمیشہ دوسروں پر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں ہر نازک موقع پر کوئی کندھا درکار ہوتا ہے جس پر رکھ کر وہ بندوق چلا سکیں۔ اعدادوشمار اچھے آ جائیں تو اس کا کریڈٹ فوراً لے لیا جاتا ہے لیکن بری کارکردگی کی ذمہ داری لینے کے لیے کوئی تیار نہیں ہوتا۔
پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری کرنے والے ممالک میں چین پہلے نمبر پر آتا ہے۔ عالمی حالات جو بھی ہوں وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرتا رہتا ہے‘حتیٰ کہ چینی انجینئرز کے قتل کے باوجود بھی چینی سرمایہ کاری میں کمی نہیں آئی‘ لیکن موجودہ صورتحال میں چین نے بھی ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ اگر مالی سال 2022 ء کے پہلے آٹھ مہینوں کا جائزہ لیا جائے تو اعدادوشمار حیران کن دکھائی دیتے ہیں۔ پچھلے آٹھ مہینوں میں چینی سرمایہ کاری تقریباً 385 ملین ڈالرز رہی جبکہ مالی سال 2021ء کے پہلے آٹھ مہینوں میں چینی سرمایہ کاری تقریباً 523 ملین ڈالرز تھی۔ چین کی جانب سے 138 ملین ڈالرز کی کمی یہ پیغام دی رہی ہے کہ شاید موجودہ حکومت چینی سرمایہ کاروں کے مطالبات پورے نہیں کر پا رہی۔ اطلاعات ہیں کہ سی پیک منصوبوں کی ادائیگیاں تاخیر کا شکار ہیں۔ چینی حکومت نے سرکاری سطح پر بھی کئی مرتبہ یہ مدعا اٹھایا ہے لیکن شاید تحریک انصاف کی نا تجربہ کاری آڑے آرہی ہے۔ایک جاپانی نیوز ویب سائٹ کی رپورٹ میں پاکستانی ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ چین تحریک انصاف کے ساتھ کام کرنے میں زیادہ خوش نہیں ہے۔ اگر نئی حکومت بنتی ہے تو وہ( ن) لیگ کے ساتھ کام کرنے میں زیادہ کمفرٹ محسوس کرے گا کیونکہ (ن) لیگ کے دورِ حکومت میں سی پیک کے منصوبوں پر تیز رفتاری سے عمل درآمد ہوا تھا۔ آنے والے دن کیا نتائج سامنے لاتے ہیں اس بارے میں کوئی دعویٰ کرنا قبل از وقت ہے‘لیکن ایک بات طے ہے کہ آج نہیں تو کل پاکستانی مقتدرہ اور حکومت کو مل کر چینی تحفظات دور کرنے ہوں گے۔
چین اس وقت عالمی معاشی طاقت کے طور پر ابھر کر سامنے آ رہا ہے۔ چین کے اتحادی تجارت کے لیے ڈالر کے بجائے یوان میں معاہدے کرنے میں دلچسپی دکھا رہے ہیں۔ اس میں سعودی عرب اور روس سرفہرست ہیں۔ سعودی عرب نے چین کو گرین سگنل دیا ہے کہ وہ تیل کی فروخت ڈالر کے بجائے یوان میں کرنا چاہتا ہے۔دوسری جانب عالمی ماہرین نے سعودی عرب کو آگاہ کیا ہے کہ یہ فیصلہ ان کے لیے معاشی مسائل پیدا کر سکتا ہے کیونکہ سعودی عرب کی معیشت ڈالر کے گرد گھومتی ہے۔ سعودی حکومت کی سب سے بڑی آمدن تیل کی فروخت سے حاصل ہوتی ہے اور چین دنیا میں تیل خریدنے والے ممالک میں پہلے نمبر پر آتا ہے‘ لیکن سعودی حکام فی الحال چینی کرنسی میں خریدو فروخت کرنے کے فیصلے پر قائم ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ امریکی صدر نے سعودی عرب کو کئی مرتبہ فون کر کے رابطہ کرنے کی کوشش کی ہے لیکن محمد بن سلمان نے ان سے بات کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ روس نے بھی چین کے ساتھ تجارت یوان میں کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ بیلا روس پہلے ہی چین کے ساتھ یوان میں تجارت کر رہا ہے۔ پاکستان کو بھی اس حوالے سے اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ چین نے اسلام آباد اور کراچی میں چینی بینکوں کی دو برانچیں کھول دی ہیں۔ آنے والے دنوں میں لاہور‘ ملتان‘ فیصل آباد اور کوئٹہ میں بھی چینی بینکوں کی برانچیں کھولنے کا منصوبہ ہے۔ یہ عمل خوش آئند ہے۔ اس وقت ملک کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 20 بلین ڈالرز کو چھونے کے لیے تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہا ہے۔ صرف جنوری کے مہینے میں اڑھائی ارب ڈالرز کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ رپورٹ ہوا ہے جو کہ 2008 ء کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ پاکستانی معیشت میں خسارہ کم کرنے کے لیے ڈالرز پر انحصار کم کرنا ہی واحد حل ہے۔ اگر درآمدات پر پابندی لگائیں تو شرح نمو کم ہوجاتی ہے۔ اگر درآمدات بڑھائیں تو روپے کی قدر گرنے لگتی ہے۔ آج بھی ڈالر پاکستانی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔کرنسی ایکسچینج کمپنیوں کی تنظیم کے رہنما ظفر پراچہ کے مطابق آنے والے دنوں میں ڈالر مزید بڑھ سکتا ہے۔ یوان میں تجارتی معاہدے کر کے ڈالر کی قیمت کو باآسانی نیچے لایا جا سکتا ہے۔