لندن اجلاس، چین کے خدشات اور ملکی معیشت

وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات نے بتایا ہے کہ حکومتی وفد وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں لندن میں نواز شریف سے ملاقات کرے گا۔ اطلاعات ہیں کہ تمام کابینہ اراکین کو لندن اجلاس میں شرکت کی دعوت دی تھی مگر پیپلز پارٹی اور دیگر اتحادیوں نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ اس نازک موقع پر لندن اجلاس میں شرکت کرنا مناسب دکھائی نہیں دیتا۔ اس سے نئی حکومت کی ساکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اگر ضروری معاملات طے کرنے ہیں تو وڈیو لنک کے ذریعے کیے جا سکتے تھے لیکن شاید نواز شریف اس پر آمادہ نہیں تھے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ ایسے کون سے معاملات ہیں جنہیں طے کرنے کے لیے تقریباً آدھی کابینہ کو لندن یاترا کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے اور وڈیو لنک پر بھروسہ نہیں کیا جا رہا۔ اندرونی کہانی کیا ہے؟ اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن موجودہ حالات کے پیش نظر ایسا محسوس ہورہا ہے کہ شاید نواز شریف اس حکومت کو مزید چلانے کے حق میں نہیں ہیں اور وہ جلد از جلد انتخابات چاہتے ہیں۔ انہوں نے میڈیا کے سامنے اس خواہش کا اظہار نہیں کیا لیکن اسحاق ڈار صاحب کئی انٹرویوز میں یہ کہہ چکے ہیں کہ میاں صاحب بھی سمجھتے ہیں کہ انتخابات جلد ہونے چاہئیں۔ آج تک میاں صاحب نے اس دعوے کی تردید نہیں کی۔ میں یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ مصدقہ اطلاعات کے مطابق تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد بھی میاں صاحب حکومت بنانے کے حق میں نہیں تھے۔ ان کا مطالبہ نئے انتخابات کروانے کا تھا۔ بعض اہم ذرائع نے یہ بھی کنفرم کیا تھا کہ جب عمران خان کا انئے لیکشن کرانے کا آپشن پی ڈی ایم کے پاس پہنچا تو آصف علی زرداری کے علاوہ تقریباً سبھی فریق الیکشن کرانے کے حق میں تھے۔ عوامی سطح پر یہ رائے تقویت اختیار کرتی جا رہی ہے کہ پیپلز پارٹی برے معاشی حالات کا بوجھ نون لیگ کے کندھوں پر ڈالنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ آصف علی زرداری عدم اعتماد ڈیل کے تحت بلاول کو وزیراعظم بنوا سکتے تھے لیکن ممکنہ طور پر انہیں اندازہ تھا کہ اس وقت جو بھی وزیراعظم بنا‘ اسے شدید معاشی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا جو اس کے لیے مشکل ہو سکتا ہے اور اس کا نقصان اگلے انتخابات میں ہوگا۔ اس حکمتِ عملی کا سیاسی فائدہ پیپلز پارٹی کو اگلے انتخابات میں ہو سکتا ہے۔ شاید یہی خدشات میاں صاحب کے بھی ہیں جس کی وجہ سے وہ جلد اگلے انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
نون لیگ کی لندن یاترا کی ایک وجہ چین کا شدید ردعمل بھی ہو سکتی ہے۔ چینی آئی پی پیز نے حکومت کو تنبیہ کی ہے کہ جلد از جلد 3 سو ارب روپوں کی ادائیگی کو ممکن بنایا جائے۔ عدم ادائیگی کی صورت میں تقریباً 25 چینی آئی پی پیز نے رواں ماہ بجلی کے پلانٹس بند کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ پیر کو ہونے والے اجلاس میں چینی سرمایہ کاروں اور حکومتی عہدیداروں نے ویزہ ملنے میں مشکلات، ٹیکس کے مسائل اور سکیورٹی سے متعلق معاملات پر شکایات کے انبار لگا دیے۔ حکومت چین سے ڈالر ادھار لینے کی خواہاں تھی لیکن ممکنہ طور پر لینے کے دینے پڑ گئے۔ چین نے مزید فنڈز اور سہولتیں دینے کے بجائے پچھلا قرض واپس مانگ لیا ہے۔ مبینہ طور پر احسن اقبال صاحب نے پیر کو سی پیک اجلاس کی صدارت کرنے کے بعد ہاتھ کھڑے کر دیے۔ اگر چین کے ساتھ مذاکرات کامیاب نہ ہو سکے تو ملک میں بجلی کا شدید بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ ادھر سکھر‘ ملتان موٹروے تیار کرنے والی کمپنی نے بھی احتجاج ریکارڈ کرایا ہے کہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے ابھی تک ادائیگی نہیں کی‘ چین میں ہماری سروس کو اے گریڈ دیا گیا لیکن پچھلی حکومت نے ہم پر کرپشن کے الزامات لگائے۔
ملک کی کمزور معاشی صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جس ملک کے ساتھ ہماری دوستی پہاڑوں سے بلند اور سمندروں سے گہری تصور کی جاتی ہے‘ وہ بھی ہماری معیشت پر اعتبار کرنے سے گریزاں ہے۔ شاید ان کے خدشات درست ہیں کیونکہ اس وقت تقریباً 10 ارب ڈالرز کے زرمبادلہ کے ذخائر ہیں۔ مئی میں تقریباً 5 ارب اور جون میں بھی تقریباً 5 ارب ڈالرز کے قرضے واپس کرنے ہیں۔ اگر فوری طور پر چین اور سعودی نے قرضوں کی مدت نہ بڑھائی اور آئی ایم ایف نے مزید قرض نہ دیا تو ڈیڑھ ماہ میں ملک ڈیفالٹ کر سکتا ہے۔ جہاں ہم آج کھڑے ہیں، سری لنکا ڈیفالٹ ہونے سے دو ماہ پہلے اسی جگہ کھڑا تھا۔ پاکستان کو اس وقت مزید دس ارب ڈالرز کی ضرورت ہے۔معاشی حالات کی نزاکت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر دس ارب ڈالرز مل جاتے ہیں تو بھی پاکستان چار سے پانچ ماہ تک ہی گزارہ کر سکتا ہے۔ اس کے بعد حالات دوبارہ آج کی صورتحال پر لوٹ سکتے ہیں۔
اطلاعات ہیں کہ چین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ پہلے آئی ایم ایف کی ساتھ معاملات درست کیے جائیں۔ فی الحال آئی ایم ایف پروگرام معطل ہے اور جب تک پروگرام بحال نہیں ہو گا‘ معیشت پر مزید بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ آئی ایم ایف سے پاکستان کو فوری طور پر تقریباً ایک ارب ڈالرز مل سکتے ہیں لیکن اس کے بعد تقریباً نو ارب ڈالرز دیگر اداروں اور ممالک سے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ تحریک انصاف نے بھی آئی ایم ایف کے مطالبات ماننے میں تاخیری حربے استعمال کیے جس سے معیشت کو نقصان پہنچا‘ اب نئی حکومت بھی اسی راستے پر چلتی دکھائی دے رہی ہے جو کہ تشویشناک ہے۔ اس کے علاوہ ایف بی آر آئی ایم ایف کے طے کردہ سالانہ ٹیکس ہدف 6100 ارب روپے اکٹھا کرنے میں بھی کامیاب ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ ذرائع کے مطابق ڈیپارٹمنٹ نے ٹیکس ہدف 5800 ارب روپے تک محدود کر لیا ہے جس پر آئی ایم ایف کو تحفظات ہیں۔ نئے مالی سال کے لیے ٹیکس اہداف 7100 ارب روپے طے کیے جانے کی خبر ہے۔ اگر پچھلے ٹیکس اہداف حاصل نہ کیے جا سکے تو آئی ایم ایف کی نئی شرائط مزید سخت ہو سکتی ہیں۔ یہ صورتحال کافی تشویش پیدا کر رہی ہے۔ یہاں سوال یہ بھی ہے کہ حکومت نے منی بجٹ میں تقریباً پونے چار سو ارب روپے کے نئے ٹیکسز لگائے تھے‘ اس کے باوجود بھی ٹیکس اہداف حاصل نہ کر سکنا ادارے کی پالیسیوں کے غیر مؤثر ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ چین اور آئی ایم ایف کے مبینہ طور پر ملکی معیشت پر عدم اعتماد کی ایک وجہ ایف بی آر کا مسلسل غیر مؤثر ہونا بھی ہو سکتی ہے۔
ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ آئی ایم ایف اور وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل ایک پیج پر نہیں آ پا رہے۔ عالمی ادارہ مفتاح اسماعیل سے ڈیل کرنے میں ہچکچاہٹ کاشکار دکھائی دیتا ہے۔ مبینہ طور پر تکنیکی اعتبار سے ان کے پاس ایک بھی جواز ایسا نہیں جس سے وہ آئی ایم ایف سے اپنے مطالبات منوا سکیں لیکن اس حوالے سے امریکی حمایت نئے راستے آسان کر سکتی ہے۔ یہ وقت چین اور روس کے بجائے امریکا سے تعلقات بہتر کرنے کا ہو سکتا ہے۔ فی الحال آئی ایم ایف سے ڈیل نہ ہونے کی وجہ سے سٹاک ایکسچینج شدید گراوٹ کا شکار ہے۔ ڈالر تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ سرمایہ کاروں کا اعتماد روز بروز گرتا جا رہا ہے۔ اس پر اسحاق ڈار صاحب کے بیان نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ تیل کی قیمتیں نہیں بڑھائی جا رہیں‘ آئی ایم ایف سے نیا معاہدہ کرنا ہو گا جو نئے انتخابات کے نتیجے ہی میں ممکن ہے۔ اس بیان سے بے یقینی کی کیفیت میں اضافہ ہوا ہے۔ موجودہ صورتحال کے پیشِ نظر یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ اگر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے آئی ایم ایف پروگرام بحال ہو سکتا ہے تو اس پر فوری عمل درآمد کیا جائے۔ سیاسی مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے ملکی مفادات کو پسِ پشت ڈالنا مناسب نہیں۔ عوامی سطح پر بھی یہ حقیقت تسلیم کی جا رہی ہے کہ ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے کی ضرورت ہے۔ سرکارکا حکمت اور دوراندیشی سے فیصلہ کرنا ہی ملک کے مفاد میں ہو سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں