اقتدار کے ایوانوں سے لے کر گھروں کے ڈرائنگ رومز تک‘ اس وقت چیئرمین تحریک انصاف کے مریم نواز کے حوالے سے دیا گیا حالیہ بیان زیرِ بحث ہے۔ عمران خان کے اس بیان کو سوشل میڈیا پر سخت تنقید کا سامنا ہے۔ سوشل میڈیا کو تحریک انصاف کی طاقت سمجھا جاتا ہے۔ ان پلیٹ فارمز سے اس بیان کو ڈیفینڈ نہ کیا جانا یہ پیغام دیتا ہے کہ پاکستانی قوم ابھی اخلاقی سطح پر ناقابل برداشت حد تک گراوٹ کا شکار نہیں ہوئی۔ ہمارے معاشرے خواتین کے احترام و عزت کو سیاسی وابستگیوں سے بالاتر سمجھا جاتا ہے لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ عوام تو اپنی ذمہ داریوں کا مظاہرہ کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن سیاستدان کب اپنی ذمہ داری کا احساس کریں گے؟ شاید سیاسی سطح پر شعور کی کمی ہو۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نامناسب الفاظ استعمال کرنے پر معذرت کی جاتی لیکن ایسا ہونا ناممکن دکھائی دیتا ہے۔
دوسری طرف اگر کارزارِ سیاست پر نظر دوڑائیں تو یہ بات سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی کہ اقتدار کی ہواؤں کا رخ بدلنے کے لیے زیادہ وقت درکار نہیں ہوتا۔ ایک فیصلہ صورتحال کو مکمل طور پر تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ حکومتی اتحاد کی خواہشوں کے برعکس حالیہ چند فیصلوں نے بے یقینی کی صورتحال کو بڑھا دیا ہے۔ اس کے علاوہ مریم نواز کا حالیہ ایک جلسے سے خطاب بھی یہ اشارہ دے رہا ہے کہ پچھلی حکومت کی ناکامیوں کا بوجھ موجودہ حکومت کے کندھوں پر ڈالنے سے بہتر ہے کہ حکومت چھوڑ دی جائے۔ یہ بیانیہ ملکی معیشت کے لیے کیسا ہے؟ اس پر آگے چل کر بات کروں گا لیکن انتخابات کے لیے یہ بیانیہ انتہائی کامیاب ہو سکتا ہے۔ اگر پی ڈی ایم بالخصوص مسلم لیگ (ن) حکومت ختم کر کے عوام کی عدالت میں پیش ہو جائے اور انہیں یہ یقین دلانے میں کامیاب ہو جائے کہ اس نے عوام پر مہنگائی کا بوجھ ڈالنے کے بجائے اقتدار کو خیرباد کہنے کو ترجیح دی تو عوام کی بڑی سپورٹ اسے حاصل ہو سکتی ہے۔ ملکی معیشت کے لیے بھی یہ فیصلہ درست ہو سکتا ہے۔ انتخابات کا اعلان کر کے نگران حکومت سے سخت فیصلے لیے جا سکتے ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ملک کے استحکام کے لیے ضروری دکھائی دے رہا ہے۔ اگرچہ یہ عوام پر بوجھ ہے لیکن پٹرول کی قیمتیں 150 بلکہ 160روپے فی لیٹر تک پہنچنے میں بھی عوام نے صبر کا مظاہرہ کیا اور ان دھچکوں کو برداشت کیا۔ امید ہے کہ نیا اضافہ بھی حالات کو زیادہ متاثر نہیں کرے گا۔ پاکستانی معیشت پٹرولیم مصنوعات میں اضافے کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ کاروبار کرنے والے حضرات یہ بوجھ عوام کو منتقل کریں گے۔اصل مسئلہ تنخواہ دار طبقے کا ہے کیونکہ ان کے پاس مہنگائی کا بوجھ کسی اور پر منتقل کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ وہ یا تو زندگی گزارنے کے معیار میں کمی لائیں گے یا اپنا معیارِ زندگی برقرار رکھنے کے لیے ڈبل نوکریاں کریں گے۔ مہنگائی بڑھنے کے ساتھ اگر سرکار تنخواہ دار طبقے کی تنخواہوں میں معقول اضافے کو یقینی بنائے تو صورتحال زیادہ کشیدہ ہونے سے بچ سکتی ہے۔
اطلاعات ہیں کہ دوحہ میں آئی ایم ایف سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے معاملات طے پا چکے ہیں۔ آئی ایم ایف بضد ہے کہ مذاکرات ختم ہونے سے پہلے قیمتیں بڑھا دی جائیں۔ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق آئندہ ہفتے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے کا اعلان ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ بجٹ بھی 10 جون تک پیش کرنے کی اطلاعات ہیں جس میں عوام کے لیے ریلیف کی توقع کرنا مشکل ہے۔ حکومت دعویٰ کر رہی ہے کہ عوام دوست بجٹ پیش کیا جائے گالیکن آئی ایم ایف کی شرائط شاید اسے عوام دوست نہ رہنے دیں۔ وزارتِ خزانہ کے ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف درآمدات پر پابندی سے ٹیکس آمدن میں کمی کو مزید ٹیکسز لگا کر پورا کرنے کا خواہاں ہے۔ بجٹ سے پہلے لگژری اشیا کی درآمدات پر پابندی لگا دی گئی ہے تاکہ کرنٹ اکائونٹ خسارہ کم کیا جا سکے۔ میں نے کئی کالموں میں اس پابندی کی اہمیت پر بات کی ہے۔ دیر آید درست آید! اس فیصلے نے ڈالر کی اڑان کی رفتار کو کم کیا ہے لیکن پابندی لگنے والے لگژری سامان کا درآمدات میں حصہ 5 فیصدسے بھی کم ہے‘ تقریباً 41 اشیا پر پابندی لگی ہے‘ جن کی درآمدات کی مالیت تقریباً 6 سو ملین ڈالرز ہے۔ پاکستان کی درآمدات 6.6 بلین ڈالرز ہیں‘ صرف لگژری آئٹمز پر پابندی لگانے سے ڈالرز کی پرواز روکنا مشکل ہے‘ اس سے وقتی طور پر کچھ ٹھہرائو آ سکتا ہے‘ جیسا کہ 20 مئی کو ڈالر کی پرواز پچھلے دنوں کی نسبت کم رہی‘ لیکن روپے کو لمبے عرصے تک مضبوط رکھنے کے لیے ایسی عارضی پابندیاں لگانے کے بجائے سیاسی عدم استحکام کا ختم ہونا ضروری ہے۔
پنجاب سے پی ٹی آئی کے 25 اراکین کی نااہلی کے فیصلے نے ایک مرتبہ پھر بے یقینی کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ ڈالر مافیا اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سٹہ لگا رہا ہے جو ڈالر کی قدر بڑھنے کی بڑی وجہ ہو سکتی ہے۔ذرائع کے مطابق ڈالر کی اصل قیمت 175 روپے سے زیادہ نہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ مافیاز کو روکنے کا کوئی مؤثر طریقہ زیرِ بحث نہیں۔ اس کے علاوہ پابندیاں لگانے کے بعد اشیا کی سمگلنگ کے راستے بھی بند کرنے کی ضرورت ہے۔ افغانستان سے قالینوں کی درآمدات کے راستے کھلے ہیں‘ قالینوں کے نام پر لگژری آئٹمز براستہ افغانستان درآمد ہونے کے خدشات ہیں اور ڈالر غیر قانونی طریقے سے بیرونِ ملک سمگل ہو سکتا ہے۔ کمزور حکمت عملی فائدے کے بجائے نقصان کی وجہ بن سکتی ہے۔ موجودہ بحران سے نکلنے کے لیے حکومت اگر بات کرے تو زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کے لیے ایکسچینج کمپنیاں اپنا کردار ادا کرنے کو تیار دکھائی دیتی ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ جو سہولتیں اور ڈسکائونٹس بینکوں کو دیے جاتے ہیں‘ اگر ان میں سے آدھی سہولتیں بھی ایکسچینج کمپنیوں کو دی جائیں تو وہ ایک سال میں کم ازکم مزید 4 بلین ڈالرز پاکستان لا سکتی ہیں۔ ڈالرز کو باہر جانے سے روکنے کی نسبت ڈالرز کو ملکی خزانے میں لانے کے لیے اقدامات کیے جانے کی ضرورت ہے۔
ورلڈ بینک کے ماہر معیشت گنزالو نے درآمدات پر پابندی کے حوالے سے مختلف رپورٹ پیش کی ہے۔ انہوں نے حکومت پاکستان کے درآمدات کی پابندیوں کے فیصلے کو معیشت کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ درآمدات پر پابندی کرنٹ اکائونٹ خسارہ کم کرنے کے لیے مناسب قدم نہیں ہے‘ یہ برآمدات میں کمی کا باعث بن سکتی ہے۔ گو کہ صنعتوں کے خام مال پر پابندی نہیں لگائی گئی لیکن ایسے فیصلوں سے برآمدات تیار کرنے والی صنعتیں چلانے والے درآمدات کی رفتار سست کر سکتے ہیں کیونکہ ایسی صورتحال میں یہ خدشہ برقرار رہتا ہے کہ حکومت کسی بھی وقت دیگر اشیا کی درآمدات پر پابندی لگا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ مقامی سطح پر پیداوار کرنے والے صنعتکار اشیا کی قیمتوں میں اضافہ کر سکتے ہیں لہٰذا مہنگائی کم ہونے کے بجائے بڑھ سکتی ہے‘ جو تشویش ناک ہے۔بیلنس آف پیمنٹ کو قابو میں رکھنے کے لیے دونوں پہلوئوں کو مد نظر رکھنا ضروری ہے۔ مسٹر گنزالو کی رائے درست ہو سکتی ہے لیکن پاکستان جیسی معیشت کے لیے لگژری اشیا کی درآمدات پر پابندی شاید وقت کی اہم ضرورت تھی۔ اس سے مقامی صنعت کو فروغ مل سکتا ہے اور بہتر معیار کی چیزیں پاکستان میں بنانے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے بلکہ درآمدات میں مزید کمی لانے کے لیے آن لائن طرزِ زندگی کو فروغ دیا جا سکتا ہے تا کہ بجلی اور ایل این جی کی کھپت بھی کم ہو جن کا درآمدات میں سب سے بڑا حصہ ہے۔ ایک دن گھر سے کام اور ہفتہ‘ اتوار کو چھٹی جیسے منصوبے لاگو کیے جانے چاہئیں۔ بجلی بنانے کے لیے مہنگی ایل این جی کی خریداری میں صرف مئی کے مہینے میں حکومت کو ساڑھے سات ملین ڈالر خرچ کرنا پڑ رہے ہیں۔ بجلی کی ڈیمانڈ کو کم کیے جانے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے سولر انرجی کو پروموٹ کرنا فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ملک میں اگر مسائل ہیں تو ان کا حل بھی موجود ہے۔ ضرورت صرف مستقل مزاجی اور سیاسی استحکام کی ہے۔