میں جمعرات کو ایک چینل کے پروگرام میں مدعو تھا، موضوعِ بحث معیشت تھا۔ گھر سے چینل کی راستے میں تمام پٹرول سٹیشنوں پر لمبی قطاریں لگی تھیں۔ میں نے وجہ جاننے کے لیے جب سوشل میڈیا کا رخ کیا تو پتا چلا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 30 روپے فی لٹر کااضافہ ہو چکا ہے۔ میں چینل کے دفتر پہنچا تو وہاں کا سٹاف کافی مایوس دکھائی دیا۔ میں پہلے بھی کئی مرتبہ مختلف پروگرامز میں شرکت کے لیے آتا رہا تھا لیکن جو پریشانی اس بار ان کے چہرے پر تھی‘ میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ پروڈیوسر نے پوری آنکھیں کھول کر اور دونوں ہاتھ اٹھا کر مجھے کہا کہ میاں صاحب! پٹرول 30 روپے فی لٹر بڑھ گیا ہے۔ اب کیا ہو گا؟ تنخواہ دار طبقہ کیسے گزارہ کرے گا؟ میں نے اسے تسلی دی اور پروگرام میں بیٹھ گیا۔ میرے ساتھ مسلم لیگ (ن)، مسلم لیگ (ق) اور تحریک انصاف کے سیاسی رہنما پروگرام میں شریک تھے۔ معیشت کے حوالے سے میں نے اپنی رائے کا اظہار تو کر دیا لیکن افسوس اس وقت ہوا جب تحریک انصاف اور مسلم لیگ کے رہنما پروگرام میں قہقہے لگاتے ہوئے خوشی کا اظہار کر رہے تھے کہ اب مسلم لیگ (ن) مشکل میں پڑ گئی ہے۔ سیاستدان خوش تھے اور انہیں عوام کی تکلیف کی ہر گز پروا نہیں تھی۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ تو ہو گیا لیکن سوال یہ ہے کہ اس کے ملکی معیشت پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟ ممکنہ طور پر ملک ڈیفالٹ سے بچ جائے گا لیکن عوام کے دیوالیہ ہونے کے خدشات بڑھ سکتے ہیں۔ میں یہاں بتانا چاہتا ہوں کہ حکومت نے یہ فیصلہ ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچانے کے لیے کیا ہے لیکن پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھ جانے کے بعد آئی ایم ایف سے فوری قرض کی قسط ملنے کی امید کم دکھائی دیتی ہے۔ حکومت نے ابھی سبسڈی مکمل طور پر ختم نہیں کی۔ابھی پٹرول مزید مہنگا ہو سکتا ہے۔ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ اب بھی تقریباً 56 روپے سبسڈی دے رہے ہیں۔ حکومت نے جو معاہدہ کیا ہے‘ اس کے مطابق مکمل سبسڈی ختم کرنا ہو گی۔ معاملہ صرف یہاں پہ ہی رکتا دکھائی نہیں دیتا بلکہ اگلے بجٹ کے حوالے سے بھی آئی ایم ایف کی جانب سے سخت شرائط رکھے جانے کی اطلاعات ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ پرائمری خسارے کو پرائمری سرپلس میں تبدیل کیا جائے جس کا معاہدہ پچھلی حکومت کر چکی ہے۔ اس پر عمل درآمد کے نتیجے میں حکومت کو اپنے اخراجات قرضوں کے بجائے آمدن سے پورے کرنا ہوں گے۔ آئی ایم ایف کا مطالبہ ہے کہ چاروں صوبے کیش سرپلس کویقینی بنائیںجو حکومت کے لیے ایک بڑا ہدف ہو گا۔اس کے لیے نئے ٹیکسز لگانا ہوں گے اور مزید قرض لینے پر پابندی بھی لگ سکتی ہے۔ بجٹ میں کئی شعبوں پر سیلز ٹیکس اور اِنکم ٹیکس لگنے کے امکانات ہیں۔ ٹیکس ریٹس بڑھائے جا سکتے ہیں۔ ٹیکس چھوٹ بھی ختم کی جا سکتی ہے۔ ایف بی آر پچھلے سال کے ٹیکس اہداف حاصل نہیں کر سکا تھا۔ اس کی بھرپائی بھی اس سال کرنے کا معاہدہ زیرِ غور ہے۔ تنخواہ دار طبقے پر اِنکم ٹیکس دوگنا کرنے کی تجویز ہے۔ صنعتوں کو ملنے والی سبسڈی ختم کرنے پر بھی بات ہو رہی ہے ۔ کُل ملا کر اگلا بجٹ کسی بھی طرح عوام دوست دکھائی نہیں دے رہا۔
یہاں سوال یہ ہے کہ ان حالات کی ذمہ دار آئی ایم ایف پر عائد ہوتی ہے یا ہمارے حکمران اس کے ذمہ دار ہیں۔ یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ آئی ایم ایف جس ملک میں جاتا ہے وہاں کے عوام مشکلات کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ یہ تاثر درست دکھائی نہیں دیتا کیونکہ آئی ایم ایف خود کسی ملک کے پاس نہیں جاتا بلکہ مشکلات میں پھنسے ممالک آئی ایم ایف کا رخ کرتے ہیں اور وہ ان ملکوں میں معاشی اصلاحات نافذ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ عمومی طور پر ترقی پذیر ممالک کے حکمران کرپشن روکنے اور شاہ خرچیوں پر سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ ایڈوائزرز کے نام پر 25 لاکھ روپے ماہانہ پہ ایسے افراد کو بھرتی کر لینا معمولی بات ہے‘ جن کی بظاہر کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ دو لاکھ تنخواہ لینے والے سرکاری ملازم کو ایک کروڑ روپے کی گاڑی اور ایک ہزار لٹر پٹرول غریب عوام کے ٹیکس سے دینے کی روایت قائم ہے۔ ان شاہ خرچوں کو کم کر کے بھی آئی ایم ایف کے ریونیو اہداف حاصل کرنے میں مدد مل سکتی ہے لیکن حکمران شاید عوام پر بوجھ ڈالنے ہی کو آسان حل سمجھتے ہیں۔ یہ بوجھ آئی ایم ایف نے نہیں ڈالا بلکہ ہمارے حکمرانوں کی طرف سے مسلط کیا جاتا ہے۔ آئی ایم ایف ہماری معیشت کو کامیاب اصولوں کے مطابق چلانے کا خواہاں ہے۔شاید وہ ہمارا محسن ہے اور ہمیں اس کا شکریہ ادا کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ وہ مشکل وقت میں ہمارے ساتھ کھڑا ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ حکومت نے درآمدات پر پابندی لگا رکھی ہے لیکن آئی ایم ایف اس سے خوش نہیں۔ اس کے مطابق عوام کو اصل ایکسچینج ریٹ کے مطابق اپنی ضروریات کو مینج کرنا چاہیے۔ اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ پاکستان ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کا ممبر ہے جس کے مطابق جن ممالک کو برآمدات کی جاتی ہیں‘ ان کی درآمدات پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی اور ڈیوٹی بھی ایک خاص حد سے زیادہ نہیں بڑھائی جا سکتی۔ اس کے علاوہ جو ممالک آئی ایم ایف کو فنڈز دیتے ہیں‘ وہ بھی نہیں چاہتے کہ ان کی اشیا کی پاکستان میں درآمدات پر پابندی لگے۔ڈالر ریٹ میں اضافے اور شرحِ سود میں اضافے کے حوالے سے حکومت پہلے ہی آئی ایم ایف کے مطالبات پر عمل درآمد کر چکی ہے۔ ڈالر 202 روپے کی حد پار کر چکا ہے اور شرحِ سود میں مزید 150 پوائنٹس کا اضافہ کر دیا گیا ہے جسے آئی ایم ایف نے سراہا ہے لیکن معاملات یہاں رکتے دکھائی نہیں دے رہے۔
اطلاعات ہیں کہ حکومت نہ صرف مکمل سبسڈی ختم کرنے پر آمادہ ہے بلکہ پٹرولیم مصنوعات پر مزید ٹیکسز لگانے کا بھی ارادہ رکھتی ہے۔ سابق وزیرِ خزانہ شوکت ترین صاحب نے 30 روپے فی لٹر پٹرولیم لیوی لگانے کا معاہدہ کر رکھا ہے‘ اس سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں تقریباً 300 روپے فی لٹر تک پہنچنے کا اندیشہ ہے۔نقصان میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری بھی زیرِ غور ہے۔ان تمام مطالبات پر عمل درآمد کے بعد بھی آئی ایم ایف سے قرض کی اگلی قسط جولائی سے پہلے ملتی دکھائی نہیں دے رہی۔ آئی ایم ایف ایکسپورٹرز اور صنعتوں کو دی جانے والی سبسڈی کے خلاف ہے لیکن ٹارگٹڈ سبسڈی کے حق میں ہے۔ شاید اسی لیے وزیراعظم صاحب نے ہر ماہ 28 ارب روپے کی سبسڈی دینے کا اعلان کیا ہے جس کے تحت کم آمدن والے تقریباً ایک کروڑ چالیس لاکھ گھرانوں کو دو ہزار روپے ماہانہ دیے جائیں گے‘ حکومتی دعوے کے مطابق اس سے ایک تہائی‘ یعنی آٹھ کروڑ پاکستانی مستفید ہوں گے۔ موٹر سائیکل، رکشہ اور آٹھ سو سی سی گاڑیاں رکھنے والے افراد کے لیے بھی پٹرولیم سبسڈی کامنصوبہ زیرِ غور ہے۔ اس فیصلے کے مثبت نتائج نکل سکتے ہیں اور مہنگائی کی چکی میں پستے عوام کو کسی حد تک ریلیف مہیا ہو سکتا ہے۔
حکومتی اقدامات ایک طرف‘ لیکن زمینی حقائق تلخ دکھائی دیتے ہیں۔ ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ آنے والے دن پاکستانیوں کے لیے مزید مشکلات لا سکتے ہیں کیونکہ اگلے مرحلے میں پٹرول بیس سے تیس روپے تک دوبارہ بڑھانے کی اطلاعات ہیں۔ جون کے مہینے میں شرحِ سود مزید بڑھ سکتی ہے اور ڈالر کے 230 روپے تک بڑھنے کی خبریں بھی گردش کر رہی ہے۔ یہ وقت ملکی آمدن بڑھانے کا ہے۔ برآمدات میں اضافہ، بیرونی سرمایہ کاری کی راہ ہموار کرنا اور ٹیکس ریفارمز کے ذریعے آمدن کے اہداف حاصل کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ زرعی آمدن، ریئل اسٹیٹ آمدن اور ریٹیل ٹیکسیشن پر کام کر کے ملکی آمدن بڑھائی جا سکتی ہے۔
وزیراعظم صاحب نے ایک مرتبہ پھر میثاقِ معیشت کے لیے تمام پارٹیوں کے پاس جانے کا اعلان کیا ہے جو خوش آئند ہے۔ تحریک انصاف کو بھی اس میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔ سیاسی اختلاف اور معیشت کو الگ رکھ کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ اس سے نہ صرف معاشی مسائل حل ہو سکتے ہیں بلکہ بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھانے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔