نیا بجٹ اور عوامی خدشات

لاہور چیمبر آف کامرس کی ایک تقریب میں شریک تھا جہاں باوثوق ذرائع نے بتایا کہ آج کے دن سینکڑوں فیکٹریاں بند ہوئی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ایک ماہ میں 40 ہزار سے زیادہ چھوٹی بڑی فیکٹریاں بند ہو چکی ہیں۔ گیس کی سپلائی نہ ہونے، بجلی کی بدترین لوڈ شیڈنگ اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے نے فیکٹری مالکان کے لیے اس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں چھوڑا کہ پلانٹس بند کر دیے جائیں۔ ایسی صورتحال میں نہ صرف بے روزگاری بڑھنے کے خدشات تقویت پکڑتے جا رہے ہیں بلکہ برآمدات میں بھی نمایاں کمی ہو سکتی ہے۔ کووِڈ کی صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان نے ٹیکسٹائل کی برآمدات کے لیے جو آرڈرز حاصل کیے تھے وہ دوبارہ بھارت اور بنگلہ دیش منتقل ہو سکتے ہیں۔ آج سے تقریباً اڑھائی ماہ قبل کی ملاقات میں یہ چہرے ہشاش بشاش تھے اور اس امید کا اظہار کرتے دکھائی دیتے تھے کہ اگر انہی پالیسیوں پر ملک چلتا رہا تو شرحِ نمو 7 فیصد سے بھی تجاوز کر سکتی ہے لیکن آج ان چہروں پر وہ امید دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ اس کے علاوہ حالیہ دو فصلوں کی پیداوار بھی توقع سے کم رہی ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ کوئی بے برکتی پڑ گئی ہے۔
آلو کی فصل میں شدید نقصان کی اطلاعات ہیں۔ مکئی کی فصل بھی مطلوبہ پیداوار نہیں دے سکی ہے۔ مونجی لگانے کے لیے پانی کی قلت کا سامنا ہے۔ پچھلے تین ماہ سے ڈیموں میں مطلوبہ مقدار میں پانی نہیں آ سکا۔ ڈیزل کی قیمت بڑھ جانے سے ٹیوب ویل چلانے میں بھی مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ خصوصاً چھوٹے کسانوں کے پاس اتنا سرمایہ نہیں کہ فصل لگائی جا سکے۔ زیادہ فکر کی بات یہ ہے کہ اس صورتحال میں قوم سرکار کی جانب دیکھ رہی ہے لیکن وزیر خزانہ صاحب کا رویہ غیر ذمہ دارانہ دکھائی دیتا ہے۔ قہقہے لگاتے ہوئے تیل کی قیمتیں مزید بڑھانے کی طرف اشارہ دینا عوام کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔ میڈیا پر سارا دن تیل کی قیمتیں مزید بڑھنے کی خبریں چلتی رہیں لیکن وزارتِ خزانہ اور وزارتِ اطلاعات نے بروقت اس کی تردید نہ کر کے ملک میں ایک ہیجان کی کیفیت پیدا کیے رکھی۔ اگر فوراً تردید آ جاتی تو حکومت پر اس قدر تنقید نہ ہوتی۔ بعض ماہرین کا دعویٰ ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ ہو چکا تھا لیکن عوامی ردعمل کی وجہ سے پروگرام ملتوی کرنا پڑا۔ میرے لیے یہ اطلاع حیران کن تھی کیونکہ سرکار کو عوامی ردعمل کی اگر اتنی ہی پروا ہوتی تو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک ہی ہفتے میں ساٹھ روپے فی لٹر اضافہ نہ کیا جاتا۔ اگر حقائق پر بات کریں تو ساٹھ روپے فی لٹر اضافے کے بعد عوام نے اسے ایسے چپ چاپ قبول کر لیا کہ جیسے مہنگائی ہے ہی نہیں۔ مہنگائی کے خلاف جلسوں اور جلوسوں میں عوام کی متاثر کن جھلک نہیں دکھائی دی۔ شاید سرکار کو یقین ہو گیا ہے کہ عوام 300 روپے فی لٹر پٹرول بھی برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ حالاتِ حاضرہ کے پیش نظر یہ اندازہ درست ہوتا دکھائی دیتا ہے۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید کتنا اضافہ ہوتا ہے‘ اس کا علم چند دنوں میں ہو جائے گا لیکن عوامی سطح پر جو نیا اضطراب دکھائی دے رہا ہے وہ نئے مالی سال کا بجٹ ہے‘ جس میں حکومت سخت فیصلے لینے کا عندیہ دے چکی ہے۔ وزارتِ خزانہ کے ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف نے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس ریٹس بڑھانے کا مطالبہ کر رکھا ہے اور ممکنہ طور پر بجٹ میں اس شرط پر عملدرآمد ہو سکتا ہے۔ تنخواہ دار طبقے کی ٹیکس سلیب میں 10 لاکھ سالانہ سے زیادہ تنخواہ لینے والوں پر ٹیکس بڑھ سکتا ہے اور ٹیکس فری تنخواہ کی حد 6 لاکھ سے بڑھا کر 10 لاکھ کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ کاروباری طبقے کے لیے بھی زیادہ اچھی خبریں آتی دکھائی نہیں دے رہیں۔ انڈسڑی ایمنسٹی سکیم کو ختم کرنے کی اطلاعات ہیں۔ ٹیکسٹائل سیکٹر کو بجلی پر ملنے والی سبسڈی ختم کی جا سکتی ہے۔ اس وقت تقریباً 800 اشیا کی درآمدات پر پابندی ہے جس میں سے بہت سی مصنوعات ایسی ہیں جو فیکٹریوں میں بطورِ خام مال استعمال ہوتی ہیں۔ بزنس کمیونٹی کا مطالبہ ہے کہ بجٹ میں درآمدات پر سے پابندیاں ہٹائی جائیں لیکن اطلاعات یہ ہیں کہ سرکار نے پابندیاں ہٹانے کے بجائے مزید مصنوعات کی درآمدات پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ پچھلی پابندی کے مثبت اثرات ابھی تک دکھائی نہیں دیے۔ اس سخت فیصلے کا مقصد ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت کو روکنا تھا لیکن حکومت ابھی تک اس میں بھی کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف کے دبائو میں آ کر ماضی میں ٹیکس ریفنڈز لینے والی کمپنیوں کو نوٹسز جاری کیے جارہے ہیں کہ ٹیکس ریفنڈ خزانے میں واپس جمع کرائے جائیں۔ اس سے سرمایہ بیرونِ ملک منتقل ہونے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ نئے بجٹ میں کسانوں کے لیے فی الحال کوئی پرکشش پالیسی سامنے نہیں آ سکی جس کے باعث ماضی کی یہ رائے تقویت اختیار کرنے لگی ہے کہ مسلم لیگ (ن)کے دورِ حکومت میں کسان کی مشکلات کم ہونے کی بجائے بڑھ جاتی ہیں۔ یہ موقف کس حد تک درست ہے‘ اس کا فیصلہ چند دنوں تک ہو جائے گا۔ فی الحال حکومت کا ہدف ٹیکس آمدن میں اضافہ کرنا ہے جس کے لیے مثبت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
ایف بی آر نے مالی سال 2021-22ء کے گیارہ مہینوں میں تقریباً 5350 ارب روپے ٹیکس اکٹھا کیا ہے جبکہ پچھلے مالی سال میں یہ رقم 4163ارب روپے تھی۔ تقریباً 28 فیصدسے زیادہ کا اضافہ متاثر کن ہے اور یہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ ٹیکس کولیکشن ہے لیکن یہ ٹیکس آمدن اِن ڈائریکٹ ہے‘ جس کا بڑا حصہ درآمدات سے حاصل کیا جاتا ہے جو معاشی ترقی کے لیے موزوں نہیں ہے۔ اگر حساب کتاب پر نظر دوڑائی جائے تو پچھلے دس ماہ میں درآمدات میں تقریباً 58 فیصد اضافہ ہوا ہے لیکن ان درآمدات سے حاصل ہونے والی ٹیکس آمدن میں اضافہ تقریباً 34 فیصد ہے۔ یہ فرق ایف بی آر کے نظام پر کئی سوالات اٹھانے کا سبب بن رہا ہے۔ وزیر خزانہ اور چیئرمین ایف بی آر سے گزارش ہے کہ بجٹ میں عوام پر مزید ٹیکسز لگانے کے بجائے مبینہ ٹیکس چوری کو روکنے کے لیے اقدامات کریں۔ مالی سال2020-21ء میں اِن ڈائریکٹ ٹیکسز کا شیئر تقریباً 64 فیصد تھا جو موجودہ مالی سال کے اختتام پر بڑھ کر تقریباً 66 فیصد ہو جائے گا۔ گو کہ وزیراعظم نے براہِ راست ٹیکس لینے کی پالیسیاں بنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے لیکن مطلوبہ نتائج پالیسیوں کو ان کی اصل روح کے مطابق لاگو کرنے ہی سے حاصل ہو سکتے ہیں۔ پچھلے سال آئی ایم ایف کا ٹیکس ہدف 6100 ارب روپے تھا جو نئے بجٹ میں 19 فیصد اضافے کے ساتھ 7255 ارب روپے ہو سکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس کو حاصل کیسے کیا جائے گا۔
اطلاعات ہیں کہ نئے بجٹ میں بینکوں کی آمدن پر ٹیکس ریٹ بڑھایا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں بینکوں کی گروتھ متاثر کن ہے لیکن ٹیکس آمدن میں ان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگر ریئل اسٹیٹ کے شعبے پر نظر دوڑائی جائے تو لگژری ٹیکس لگنے کے امکانات زیادہ ہیں۔ یہ ماضی کے ویلتھ ٹیکس جیسا ہو سکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق دو کنال سے بڑے گھروں پر لگژری ٹیکس لگایا جا سکتا ہے۔ زمینوں کے ڈی سی ریٹس بھی بڑھ سکتے ہیں۔ زراعت سے حاصل شدہ آمدن بھی سرکار کے ریڈار پر ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن ملکی آمدن میں زرعی ٹیکس کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کی ایک وجہ زرعی آمدن کے ٹیکس ریٹرن معاملات میں الجھاؤ پیدا کرنا بھی ہے۔ سابق چیئرمین ایف بی آر ڈاکٹر اشفاق نے اس مسئلے کے حل کے لیے مثبت اقدامات کیے تھے جنہیں جاری رکھے جانے کی ضرورت ہے۔ ٹیکس اکٹھا کرنے کے لیے پی او ایس نظام فائدہ مند دکھائی دیتا ہے۔ ایف بی آر ذرائع کے مطابق اس سال کے ٹیکس اہداف حاصل کرنے میں پی او ایس نظام کا بڑا حصہ ہے۔ نئے بجٹ میں اس کا دائرہ وسیع کیا جا سکتا ہے۔ یہ قدم حوصلہ افزا ہے‘ اس سے نہ صرف ٹیکس اہداف حاصل کیے جا سکتے ہیں بلکہ اکانومی ڈاکیومنٹ ہونے میں بھی مدد مل سکتی ہے جو جدید معاشی نظام کی طرف بڑھنے کا درست راستہ ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں