پاکستان میں اس وقت انتخابات کا ماحول گرم ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ شاید پورا ملک ضمنی انتخابات کے نتائج کے انتظار میں ہے۔ یہ ایک طرح کا ٹیسٹ کیس بھی ہو سکتا ہے۔ تحریک انصاف کا مؤقف رہا ہے کہ پورے ملک میں نئے انتخابات کروائے جائیں تاکہ عوامی رائے سامنے آ سکے۔ اگر ان انتخابات میں تحریک انصاف مطلوبہ سیٹیں نکالنے میں کامیاب نہیں ہوتی تو اس کے منفی اثرات سامنے آسکتے ہیں۔ میں یہاں اس بات کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں انتخابات کی جیت اور ہار میں عوامی مقبولیت کا زیادہ عمل دخل نہیں رہا ہے۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ مقبول عوامی جماعت مجموعی طور پر زیادہ ووٹ لے کر بھی حکومت نہیں بنا پاتیں۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ موجودہ ضمنی اور ممکنہ طور پر اگلے سال ہونے والے جنرل انتخابات میں بھی تحریک انصاف کو اچھی تعداد میں ووٹ پڑیں گے‘ لیکن وفاقی حکومت شاید انہیں نہ مل سکے۔ ویسے تو آج کل عمران خان کے بیانات روز ایک نئی سمت کی طرف اشارہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کبھی وہ ساتھ چلنے کی بات کرتے ہیں۔ کبھی نمبر اَن بلاک ہونے کی خبر دیتے ہیں اور کبھی متنازع تعیناتی کے حوالے سے صفائیاں دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ حقیقت میں چاہتے کیا ہیں‘ اس کا اندازہ لگانا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ بعض ذرائع کا یہ دعویٰ ہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ اپنے اوپر بننے والے کیسز ختم کروانا چاہتے ہیں۔ کیونکہ شاید انہیں 17جولائی کے بعد گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ اگر ایسا ہو گیا تو اس کے ملک پر کیا اثرات مرتب ہوں گے‘ اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ لیکن ماضی کو سامنے رکھا جائے تو یہ نتیجہ اخذ کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی کہ پارٹی سربراہان کے جیل جانے کے باوجود بھی عوام مطلوبہ تعداد اور جوش کے ساتھ سڑکوں پر نہیں نکلتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو‘ بے نظیر بھٹو کے جیل جانے کے باوجود بھی مطلوبہ احتجاج دیکھنے کو نہیں ملا تھا۔ میاں نواز شریف اور مریم نواز صاحبہ کو جیل میں بند کرنے کے بعد عوام سڑکوں پر نہیں نکلے تھے۔ اگر عمران خان پر یہ وقت آتا ہے تو حالات کیا رخ اختیار کریں گے‘ اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ لیکن اپنے معاملات خود سلجھانے اور عوام سے زیادہ توقع نہ رکھنے میں ہی سمجھداری دکھائی دیتی ہے۔
ایک طرف سیاسی ماحول نازک ہے اور دوسری طرف معاشی اعداد و شمار زیادہ بہتر دکھائی نہیں دے رہے۔ حکومت نے حال ہی میں چین سے تقریباً دو ارب تیس کروڑ ڈالرز قرض لیا تھا جس سے زرمبادلہ کے ذخائر تقریباً گیارہ بلین ڈالرز تک پہنچ گئے تھے۔ جو کہ چند دنوں میں دوبارہ دس بلین ڈالرز کی سطح سے نیچے آ گئے ہیں۔ یہ صورتحال تشویش ناک ہے۔ سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے ایک مرتبہ پھر ملک کے دیوالیہ ہونے کے خدشے کا اظہار کر دیا ہے۔ انہوں نے حکومت کے اس تاثر کو بھی غلط قرار دیا کہ پاکستان روسی تیل کو ریفائن کرنے کی سہولت نہیں رکھتا۔ ان کے مطابق اٹک ریفائنری روسی تیل کو ریفائن کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔ حکومت شوکت ترین صاحب کے سوالات کا سامنا کرنے اور ان کے جوابات دینے سے قاصر دکھائی دیتی ہے۔ اس حوالے سے ابھی تک واضح حکومتی موقف سامنے نہیں آ سکا ہے۔ حکومت کی اس وقت زیادہ توجہ نیشنل سولر انرجی پالیسی بنانے کی طرف دکھائی دے رہی ہے۔ حالات کے پیش نظر یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ بلاشبہ ملک کو سولر انرجی کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں سولر انرجی پر کام کر کے اگلے سال تک تقریباً 9700 میگا واٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ چین بھی پاکستان کی مدد کرنے کو تیار دکھائی دیتا ہے۔ اس حوالے سے 2020ء میں کیے گئے معاہدے پر کام تیز کرنے کی اطلاعات ہیں۔ ذہن نشین رکھیے کہ دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک اپنی ضروریات کا بڑا حصہ سولر انرجی پر منتقل کر چکے ہیں۔ چین 131 گیگا واٹ بجلی پیدا کر کے دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ امریکہ 51 گیگا واٹ کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ اسی طرح جاپان 49 گیگا واٹ، جرمنی42‘ اٹلی19‘ انڈیا18‘ برطانیہ12‘ فرانس8‘ آسٹریلیا 7 اور سپین 5 گیگا واٹ انرجی سولر سسٹم سے حاصل کر کر رہا ہے۔ پاکستان میں سولر پلانٹس کے پہلے مرحلے میں دو ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی جانے کی اطلاعات ہیں۔ سندھ حکومت پانی پر پانچ سو میگا واٹ کپیسٹی کا سولر پلانٹ لگانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ سرکاری عمارتوں کو سولر پلانٹس پر منتقل کیا جائے گا۔ وزیراعظم ہاوس کو ایک ماہ میں سولر انرجی پر منتقل کیا جانے کا منصوبہ ہے۔ پارلیمنٹ ہاوس کو سولر پر منتقل کرنے سے کروڑوں روپوں کا فائدہ ہوا ہے۔ یہ تجربہ کامیاب رہا اور امید ہے کہ نئی پالیسی بھی کامیاب ثابت ہو سکتی ہے۔ حکومت کے دعوے درست ہیں یا نہیں اس بارے میں واضع طور پر کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ لیکن شاید تصویر کا دوسرا رخ دیکھنا بھی ضروری ہے۔ اطلاعات ہیں کہ سولر انرجی منصوبے کی آڑ میں ڈالر سمگلنگ کا نیا راستہ کھلنے کا خدشہ بڑھ سکتا ہے۔ سولر پینلز پر زیرو ٹیکس ہونے کی وجہ سے درآمدکندگان پانچ لاکھ کا سامان منگوانے کے لیے دس لاکھ کی ایل سی کھلواتے ہیں۔ انوائس کی رقم بڑھا کر پیش کی جاتی ہے جس پر مطلوبہ چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ پانچ لاکھ کے سامان کے بدلے قانونی طور پر دس لاکھ ڈالرز ملک سے باہر بھیجے جا سکتے ہیں۔ جو کہ تشویش ناک ہے۔ پہلے ہی ملکی ڈالر ذخائر ایک مرتبہ پھر دس ارب ڈالرز سے نیچے آگئے ہیں۔ نئی پالیسی کو اس پہلو سے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ سندھ حکومت نے بھی سولر انرجی کے لیے الگ اتھارٹی بنانے کا اعلان کیا ہے۔ اگر یہ سب کچھ ملکی مفاد میں ہو رہا ہے تو اس کی پذیرائی کی جانی چاہیے لیکن ماضی کے پیش نظر اس سے ملکی مسائل میں کمی ہونے کے امکانات کم دکھائی دیتے ہیں۔ سندھ حکومت نے ماضی میں اسی طرح آر او پلانٹس بھی لگائے تھے۔ اتھارٹی قائم کی گئی۔ اربوں روپوں کے بجٹ خرچ ہوئے لیکن وہ منصوبے بھی مبینہ طور پر صرف کاغذوں کی نظر ہو گئے۔ حکومت کو اپنی پوزیشن واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ سولر پلانٹس درآمد کرنے کے بجائے چین یا کسی اور ملک سے معاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ جس کے تحت غیرملکی کمپنیاں اپنے سرمائے سے پاکستان میں سولر پلانٹس لگائیں اور دس سال تک بجلی کے بلوں کے ذریعے اپنی رقم وصول کر لیں۔ اس سے ڈالر ذخائر بھی کم نہیں ہوں گے اور سستی بجلی بھی عوام کو ملنے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ اطلاعات کے مطابق چین اس طرح کے معاہدے کرنے کے لیے تیار ہے لیکن شاید ہمارے سیاستدانوں کی اس میں دلچسپی نہیں ہے۔
شاید یہ بات درست ہے کہ ملک کو سولر انرجی کی طرف منتقل کرنا ناگزیر ہو گیا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں انرجی بحران پیدا کیسے ہو گیا۔ جس حکومت نے ملک میں مہنگی بجلی پیدا کرنے کے پلانٹس لگائے وہی اب سولر پلانٹس لگانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ اگر 2015ء میں ہی سولر انرجی کے پلانٹس لگائے جاتے تو شاید موجودہ ڈالرز اور انرجی بحران پیدا نہ ہوتا۔ نئے منصوبے لگانے سے پہلے پچھلی ناکامیوں کا حساب دینا بہتر فیصلے لینے کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ یاد رہے کہ سولر پلانٹس لگانے کے بعد بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں سے جو مہنگے معاہدے کیے گئے ہیں ان کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ کیونکہ معاہدے کے مطابق ملک بجلی استعمال کرے یا نہ کرے اسے چارجز ادا کرنے ہوں گے۔ اس کے علاوہ سولر پینلز کی درآمد روپے پر بڑا بوجھ بن کر سامنے آ سکتی ہے۔ ممکنہ طور پر سولر انرجی کا اصل فائدہ اس وقت ہو سکتا ہے جب سولر پینلز ملک میں تیار کیے جائیں گے۔ پاکستان کے پاس پینلز تیار کرنے کا خام مال وافر مقدار میں موجود ہے۔ اگر حکومت حقیقی معنوں میں عوام کا فائدہ سوچ رہی ہے تو نیشنل سولر انرجی پالیسی میں مقامی سطح پر ان کی تیاری سے متعلق واضع لائحہ عمل پیش کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ دوسری صورت میں یہ منصوبہ بھی سفید ہاتھی ثابت ہو سکتا ہے۔