ایسے وقت میں جب پاکستان میں سیاسی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے‘ دنیا ایک نئے تجربے کے نتائج سے لطف اندوز ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ گزشتہ سال دسمبر میں 10 ارب ڈالر کی خطیر رقم سے تیار کی جانے والی جیمز ویب ٹیلی سکوپ کو خلا میں روانہ کیا گیا تھا۔ امید تھی کہ یہ ٹیلی سکوپ خلا میں کائنات کے نئے راز افشا کرنے میں مددگار ثابت ہو گی۔ ناسا نے اس خلائی دوربین سے حاصل ہونے والی پہلی تصاویر جاری کر دی ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ تصاویر کائنات کا اب تک کا سب سے گہرا اور تفصیلی انفراریڈ نظارہ پیش کرتی ہیں جس میں کہکشاؤں کی ایسی روشنی دکھائی دیتی ہے جس نے اربوں سال کی مسافت طے کی ہے۔ ناسا کے ایڈمنسٹریٹر بل نیلسن کے مطابق ''روشنی 1 لاکھ 86 ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہے اور جو روشنی دیکھی گئی ہے وہ 13 ارب سال کی مسافت طے کر کے یہاں تک پہنچی ہے جبکہ ٹیلی سکوپ اس سے بھی پیچھے جا رہی ہے۔ یہ تقریباً 13 ارب سال پیچھے تک جا رہی ہیں جبکہ کائنات 13 اعشاریہ آٹھ ارب سال پرانی ہے تو دراصل ہم کائنات کے آغاز پر پہنچ رہے ہیں‘‘۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے اس موقع پر کہا کہ ''یہ تصاویر دنیا کے لیے ایک یاد دہانی ہیں کہ امریکا اب بھی بڑے کام کر سکتا ہے اور امریکی عوام خصوصاً ہمارے بچوں، کے لیے یہ ثابت کرتی ہیں کہ ہم اپنی صلاحیت سے کچھ بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ہم وہ ممکنات دیکھ سکتے ہیں جو آج سے پہلے کسی نے نہیں دیکھیں، ہم ان مقامات تک پہنچ سکتے ہیں جہاں آج تک کسی نے رسائی حاصل نہیں کی‘‘۔ امریکا، یورپ، کینیڈا، چین سمیت دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں جشن کا سماں دکھائی دے رہا ہے لیکن شاید ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں کے لیے کائنات کی تسخیر زیادہ اہم نہیں ہے۔ وہ عوامی بلکہ انتخابی حلقے تسخیر کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ ہمارے سیاستدانوں کے لیے دنیا میں انقلاب برپا کر دینے والا یہ سائنسی واقعہ شاید اتنی اہمیت بھی نہیں رکھتا کہ وہ اس سے متعلق کوئی مبارکباد کا پیغام ہی ریکارڈ کرا دیں‘ کوئی ٹویٹ ہی کر دیں یا وزارتِ سائنس اور ٹیکنالوجی کے کسی عہدیدار کی جانب سے بیان ہی دلا دیں۔ اس وقت مریم نواز اور عمران خان بھرپور عوامی جلسے کر رہے ہیں‘ ان کی جانب سے بھی دو بول اس واقعے سے متعلق نہیں بولے گئے۔ فواد چوہدری سائنس اور ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر رہے ہیں اور جدید ریسرچ کے حوالے سے حوصلہ افزا دعوے بھی کرتے رہے ہیں لیکن وہ بھی ابھی تک خاموش ہیں۔ پاکستانی معاشرے کے لیے بظاہر یہ بات اتنی اہم نہیں لگتی۔ ممکنہ طور پر اس کی وجہ عوامی عدم دلچسپی بھی ہو سکتی ہے۔ شاید اس شعور کو پیدا کرنے کے لیے کئی سال‘ کئی دہائیاں درکار ہوں گی لیکن جن معاشروں میں تعلیم سب سے اہم مدعا ہوتی ہے‘ وہاں اس طرح کے واقعات حکومتیں بنانے اور توڑنے میں بھی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ممکنہ طور پر صدر جو بائیڈن اس کامیابی کو الیکشن مہم میں ووٹ حاصل کرنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں کئی سالوں تک الیکشن مہم چور، ڈاکو، کرپشن، غدار اور بھگوڑوں کے نعروں ہی سے گونجتی رہی ہے۔ مثبت اور تعمیری سیاست کب شروع ہو گی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
یہ بھی ممکن ہے کہ اہلِ اقتدار کی سائنسی ریسرچ اور ترقی میں دلچسپی شاید اس وقت بڑھے جب عوام کے بنیادی مسائل پر کسی حد تک قابو پا لیا جائے اور مافیاز پر چیک اینڈ بیلنس مضبوط ہو جائے۔ میں نے پچھلے کالمز میں سگریٹ مافیا کے حوالے سے معلومات قارئین تک پہنچائی تھیں۔ کئی سالوں سے اس پر قابو پانے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن ابھی تک مطلوبہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ ٹیکس آمدن بڑھانے اور سمگلنگ کو روکنے کے لیے فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے تمباکو کمپنیز پر بھی ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم لگانے کا سلسلہ شروع کیا ہے لیکن کمپنیوں نے اس فیصلے کے خلاف عدالت میں ایف بی آر کے خلاف کیس کر دیا ہے جس سے سگریٹ کی قیمتیں بڑھنے میں تاخیر ہو سکتی ہے اور ٹیکس آمدن بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ اس سے پہلے بھی 12 کمپنیاں ٹیکس سے بچنے کے لیے مختلف تاخیری حربے استعمال کر کے ایف بی آر کے لیے مشکلات پیدا کرنے میں مصروف رہی ہیں۔ پچھلے ہفتے تمباکو کمپنیوں کے خلاف فیصلہ آنے کے بعد ڈیپارٹمنٹ نے دوبارہ کارروائی کا آغاز کیا تو مزید نئی کمپنیوں نے عدالت میں کیس کر کے اس عمل کو روک دیا جو تشویش ناک ہے۔ مصدقہ ذرائع کے مطابق پاکستان میں اس وقت 40 سگریٹ بنانے والی کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں جن میں سے صرف 21 آپریشنل ہیں اور ان میں سے صرف 3 کمپنیاں ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کے ساتھ منسلک ہیں۔ بقیہ اٹھارہ کمپنیوں کو 30 جون تک کی مہلت دی گئی تھی۔ رجسٹریشن نہ کرانے پر ان کی سیل کو وقتی طور پر بند کر دیا گیا ہے۔ ادارے کی جانب سے یہ عمل حوصلہ افزا ہے اور اس کی پذیرائی کیے جانے کی ضرورت ہے۔
شوگر، سیمنٹ، فرٹیلائزر اور تمباکو‘ چار بڑے شعبوں پر یہ نظام نافذ کرنے کی پالیسی بنائی گئی تھی۔ تحریک انصاف کی حکومت نے 2021ء میں شوگر انڈسٹری پر ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم نافذ کر دیا تھا جس کی وجہ سے شوگر انڈسٹری سے سیلز ٹیکس آمدن میں پچھلے سال کی نسبت 34 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ فرٹیلائزر پر بھی یہ نظام کامیابی سے نافذ ہو رہا ہے اور سیمنٹ سیکٹر پر اکتوبر تک نافذ ہونے کی اطلاعات ہیں۔ امید کی جا رہی ہے کہ سگریٹ انڈسٹری پر یہ نظام نافذ کرنے سے ٹیکس آمدن میں پچھلے سال کی نسبت 100 فیصد یا اس سے بھی زیادہ اضافہ ہو سکتا ہے۔ حکومت سے گزارش ہے کہ پچھلی حکومت کے اس اقدام کو جاری رکھے اور جتنا جلدی ہو سکے کیسز ختم کرانے کی راہ ہموار کرے۔ اس سے ایک طرف ٹیکس آمدن میں اضافہ ہو گا اور دوسری طرف ایک دوسرے پر تمباکو مافیا کا نمائندہ ہونے کے الزام کی اہمیت بھی کم ہو گی۔
ان حالات میں ایک اچھی خبر بھی سامنے آئی ہے۔ شنید ہے کہ ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ عالمی مارکیٹ میں پٹرول کی قیمت میں 25 ڈالر فی بیرل تک کمی ریکارڈ کی جاچکی ہے جبکہ ڈیزل کی قیمتوں میں بھی کمی آئی ہے۔ فی بیرل پٹرول جو مارچ میں 127 ڈالر کی بلند ترین سطح تک پہنچ گیا تھا‘ اب 100 ڈالر تک کم ہو چکا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت اس کمی کا پورا فائدہ عوام تک منتقل کر سکے گی؟ آئی ایم ایف معاہدے کے مطابق حکومت ہر ماہ دس روپے پٹرولیم لیوی کی مد میں بڑھانے کی پابند ہے اور لیوی بڑھانے کی صورت میں عوام کو عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کا پورا فائدہ پہنچنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ اگر حکومت نے آئی ایم ایف معاہدے کے خلاف جا کر عوام کو ریلیف دینے کی کوشش کی تو آنے والے دن پاکستان کے لیے زیادہ مشکلات لانے کا سبب بن سکتے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ انتخابات سے قبل پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کااطلاق کیا جا سکتا ہے۔ اس سے شاید ممکنہ سیاسی فائدہ تو حاصل ہو جائے لیکن آئی ایم ایف کی شرائط مزید سخت ہونے کاخدشہ بڑھ سکتا ہے۔ ابھی تک آئی ایم ایف نے پاکستان کے ساتھ معاہدے کی توثیق نہیں کی۔ پہلے ہی پاکستان کے ڈالر کے ذخائر دس ارب ڈالر کی سطح سے نیچے گر گئے ہیں۔
اس وقت مہنگائی کی شرح تقریباً 23 فیصد تک پہنچ چکی ہے اور شرحِ سود ملک کی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ ٹیکسٹائل کی صنعتیں بند ہو رہی ہیں۔ پچاس ہزار سے زیادہ ورکرز بے روزگار ہونے کی اطلاعات ہیں۔ایک ارب ڈالربرآمدات کے آرڈرز منسوخ ہو چکے ہیں اور مزید آرڈرز نہیں مل رہے۔ ان حالات میں ہر قدم انتہائی احتیاط سے اٹھانے کی ضرورت ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمیں بھی سری لنکا جیسی معاشی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے۔