پنجاب کے ضمنی انتخابات میں تو تحریک انصاف نے معرکہ مار لیا مگر شاید اس سیاسی عدم استحکام کے اثرات ملکی معیشت پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ اس وقت ہر جانب ایک غیر یقینی کی سی صورتحال ہے۔ چین سے قرض ملنے اور آئی ایم ایف کی جانب سے سٹاف لیول معاہدے جیسی خبروں نے ڈالر کی قیمت کو تقریباً 204 روپے تک محدود کر دیا تھا اور توقع کی جا رہی تھی کہ آنے والے دنوں میں ڈالر دو سو روپے سے بھی نیچے آ سکتا ہے لیکن سرکار کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے اعلان کے بعد ڈالر کی اڑان تھمتی دکھائی نہیں دے رہی۔ عمومی طور پر توقع کی جا رہی تھی کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کرنے سے حکومتی اتحاد پنجاب کے انتخابات میں فتح حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ اس سے وفاق کو بھی تقویت مل سکتی ہے اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو سکتا ہے لیکن تحریک انصاف کی جیت نے معاشی میدان میں منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ تحریک انصاف کی قیادت اور سپورٹرز اس جیت پر خوشی منا رہے ہیں مگر سرمایہ دار طبقے کا خیال ہے کہ شاید حکومتی اتحاد کی الیکشن میں جیت کا نتیجہ مختلف ہوتا۔ اس سیاسی جھمیلے میں ڈالر مافیا کی خوب چاندی ہو گئی اور حکومتی اتحاد کی شکست سے ڈالر مافیا نے تین دنوں میں کھربوں روپے کما لیے۔
موجودہ سیاسی عدم استحکام کی صورتحال میں کسی بھی سمت سے معیشت کے لیے اچھی خبریں آتی دکھائی نہیں دے رہیں۔ پاکستان کے ڈیفالٹ کرنے کے خدشات کا اظہار اب تواتر سے کیا جانے لگا ہے۔ 2022ء میں ممکنہ طور پر ڈیفالٹ کرنے والے ممالک میں پاکستان کو چوتھا نمبر دیے جانے کی اطلاعات ہیں۔ بین الاقوامی مارکیٹ میں پاکستانی بانڈز پر سے اعتماد اٹھتا دکھائی دے رہا ہے۔ معاشی ادارے پاکستان کو منفی ریٹنگ دے رہے ہیں۔ عالمی سطح پر یہ رائے عام ہونے لگی ہے کہ حکومت بانڈز پر انٹرسٹ ادا نہیں کر سکے گی۔ عمومی طور پر پرانے بانڈز کی ادائیگی نئے بانڈز جاری کر کے کی جاتی ہے لیکن اگر معاشی حالات جوں کے توں رہے تو دسمبر میں تقریباً ایک ارب ڈالر کے بانڈز کی ادائیگی بھی زرمبادلہ کے ذخائر میں سے کرنا پڑ سکتی ہے اور یہ بھی صرف اسی صورت ممکن ہو سکے گا جب سٹیٹ بینک کے پاس ڈالر کے ذخائر وافر مقدار میں موجود ہوئے۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے گر رہے ہیں۔اگلے ہفتے تک یہ آٹھ ارب ڈالر تک گر سکتے ہیں۔ آئی ایم ایف کا اجلاس اگست کے تیسرے ہفتے میں ہونے کی خبر ہے۔ اس میں پاکستان کو قرض کی نئی قسط کی ادئیگی کا فیصلہ کیا جاتا ہے یا نہیں‘ اس بارے کچھ بھی مکمل یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔ اگلا پورا مہینہ پاکستان کے لیے معاشی اعتبار سے کافی بھاری ثابت ہو سکتا ہے۔
خدشہ ہے کہ آئی ایم ایف قسط کی وصولی تک ملکی معیشت کو مزید کئی جھٹکے لگ سکتے ہیں اور ڈالر کے 250 روپے تک جانے کی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سی طاقتیں ہیں جو اس نازک صورتحال میں بھی ملک کی بہتری کا سوچنے کے بجائے اپنے خزانے بھرنے کو ترجیح دے رہی ہیں۔ کون لوگ ہیں جو ڈالر خرید رہے ہیں اور ملک میں ڈالر کی طلب اور رسد میں مصنوعی فرق پیدا کر رہے ہیں۔ باوثوق ذرائع کے مطابق کچھ نجی بینک ڈالر خرید رہے ہیں۔ منی ایکسچینج کمپنیز پر کنٹرول مضبوط ہونے کی وجہ سے وہ شاید ڈالر ریٹ پر زیادہ اثر انداز نہیں ہو سکتیں مگر ایک بات تو طے ہے کہ ڈالر پر سٹہ کھیلا جا رہا ہے۔مبینہ طور پر کچھ بینکوں کی جانب سے درآمد کنندگان کو تین ماہ کے لیے ڈالر ریٹ فکس کروانے پر قائل کیا جا رہا ہے جسے روکے جانے کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر سٹیٹ بینک کا کردار زیادہ اہمیت اختیار کرتا دکھائی دیتا ہے۔ مگر مرکزی بینک کی صورتحال یہ ہے کہ ابھی تک اس کا مستقل گورنر ہی تعینات نہیں کیا جا سکا۔ اس سے یہ خدشات تقویت اختیار کر جاتے ہیں کہ یہ حالات جان بوجھ کر پیدا کیے جا رہے ہیں۔
میں یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ڈالر بڑھنے کے اثرات زندگی کے ہر شعبے پر پڑ سکتے ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مزید بڑھ سکتی ہیں۔ گیس اور بجلی کی قیمتوں میں بڑا اضافہ ہو سکتا ہے۔ شرحِ سود میں مزید اضافہ کیا جا سکتا ہے‘ جو پہلے ہی اس وقت ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ نتیجتاً مہنگائی کی شرح میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ آنے والے دن مہنگائی کا ایک اور سونامی لا سکتے ہیں تو شاید غلط نہ ہو گا۔ یہاں سوال یہ ہے کہ آخر ان مسائل کا حل کیا ہے؟ کیا ملک اسی طرح چلتا رہے گا یا پھر بہتری کی کوئی امید پیدا ہو سکتی ہے۔ اس حوالے سے فلپائن کی معاشی پالیسیاں پاکستان کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہو سکتی ہیں۔
2005ء میں فلپائن کی صورتحال پاکستان کے موجودہ حالات سے مختلف نہ تھی۔ اس کا انحصار بھی بیرونِ ملک آباد فلپائنیوں سے حاصل ہونے والے زرمبادلہ پر تھا۔ ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے اس نے آئی ایم ایف سے رجوع کیا۔ آئی ایم ایف کی سخت شرائط نے عوام کے مسائل میں مزید اضافہ کر دیا۔ ملکی صدر کی جانب سے آئی ایم ایف سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے دنیا بھر سے معاشی ماہرین کا ایک ایسا گروپ تشکیل دیا گیا جن کا کسی سیاسی گروہ سے تعلق نہیں تھا۔ ان ماہرین نے فلپائن کے لیے نئی معاشی پالیسیاں تشکیل دیں‘ سخت فیصلے لیے گئے‘ پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس بڑھا کر معیشت کو سہارا دیا گیا‘ سرمایہ کاروں کو یقین دلایا گیا کہ کوئی بھی سرکار آئے یا جائے‘ ملکی معاشی پالیسیاں معاشی ماہرین کی آزادانہ ٹیم ہی بنائے گی۔ اس ٹیم کی تشکیل کے لیے ایک شفاف نظام تشکیل دیا گیا جو سیاسی مداخلت سے مکمل آزاد تھا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 2006ء میں‘ تقریباً ڈیڑھ سال کے عرصے میں فلپائن نے آئی ایم ایف سے مکمل چھٹکارا حاصل کر لیا اور اس کے بعد فلپائن نے کبھی آئی ایم ایف پروگرام نہیں لیا۔ پاکستان میں بھی شاید ایک ایسا ادارہ بنائے جانے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کے معاشی فیصلے یہ آزاد ادارہ کرے جس میں دنیا بھر کے معاشی ماہرین موجود ہوں اور وہ ادارہ ایک کمرشل باڈی کی طرز پر کام کرے۔ ایسا ادارہ بنانے کے لیے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر مل بیٹھنے کی ضرورت ہے۔
میں کئی مرتبہ میثاقِ معیشت کی بات کر چکا ہوں اور اس حوالے سے تجاویز بھی مقتدر حلقوں کے سامنے رکھی ہیں۔ شاید یہ سب سے زیادہ مناسب وقت ہے کہ ملک کو مزید مسائل میں دھکیلنے کے بجائے اسے بچانے کا منصوبہ مل کر تیار کیا جائے۔ اگر میثاقِ معیشت کے تحت ایک آزاد اور متوازن معاشی ادارہ قائم کر لیا گیا جس کی پالیسیاں حکومتوں کے آنے یا جانے سے تبدیل نہ ہوں بلکہ معاشی فیصلے ملکی فائدے اور نقصان کی بنیاد پر ہوں تو جلد ہی ملک کی درست سمت کے تعین میں مدد مل سکتی ہے۔ سیاسی قیادت اس تجویز کو کس قدر سنجیدگی سے لیتی ہے اس کا علم آنے والے دنوں میں ہی ہو سکے گا۔ فی الحال موجودہ صورتحال مایوس کن دکھائی دیتی ہے۔ ایک دن میں روپیہ تقریباً تین فیصد گر گیا مگر حکومتی اتحاد کے قائدین قہقہے لگاتے دکھائی دیے جو عوام کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔ حکمران اتحاد تحریک انصاف کے فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ جلد ہونے پر زور دے رہا ہے اور تحریک انصاف اپنی توجہ تختِ پنجاب پر مبذول کیے ہوئے ہے۔ وزیر داخلہ صاحب ایم پی ایز کو غائب کرنے کی بات کر رہے ہیں اور تحریک انصاف کے رہنما اداروں بالخصوص الیکشن کمیشن کے حوالے سے سخت زبان استعمال کرنے میں دلچسپی لیتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان معاملات میں معیشت کس سمت جا رہی ہے‘ سیاسی قیادت کی اس میں دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے اور شاید ملکی مسائل کی اصل وجہ بھی یہی ہیں۔