قومی اثاثوں کی نیلامی کے معاشی اثرات

پنجاب میں وزیراعلیٰ کے انتخاب پر بات کی جائے تو یہ کہنا شاید زیادہ مناسب ہوگا کہ تحریک انصاف شاید مستقبل کا درست حساب کتاب لگانے میں بظاہر ناکام رہی ہے۔ وہ شاید اسی بات پر مطمئن ہو گئی تھی کہ ضمنی انتخابات جیت کر سب سے بڑا سنگ میل عبور کر لیا گیا ہے۔ لیکن وہ ممکنہ طور پر یہ سمجھنے میں ناکام رہی کہ شطرنج کے کھیل میں پیادے اور گھوڑے مرنے سے جیت کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔ بادشاہ کو شہ اور مات دینے کے بعد ہی جیت ممکن ہوتی ہے۔ وہ شاید یہ اندازہ بھی نہیں لگا سکی کہ اگر تحریک انصاف کو دوبارہ پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ دینا مقصود ہوتا تو عدم اعتماد کی تحریک کوکامیاب کروانے کی کیا ضرورت تھی۔ حکومت شاید جانتی ہے کہ تحریک انصاف کی پنجاب میں حکومت بننے کے بعد وفاق کی طرف لانگ مارچ ہو سکتا تھا‘ جس کے راستے میں بظاہر کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی۔ ایسی صورتحال میں نئے انتخابات ہونے کے امکانات بڑھ سکتے تھے لیکن اس صورتحال سے بچنے کے لیے مبینہ پولیٹیکل انجینئرنگ کرنا مناسب عمل دکھائی نہیں دیتا۔ وزیراعلیٰ کے انتخاب کو مبینہ طور پر متنازع بنا کر غیریقینی کی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایسا کرنے والے شاید ملک کے ساتھ زیادہ مخلص نہ ہوں۔ اس افراتفری نے ملک میں ہیجان کی کیفیت پیدا کر رکھی ہے۔ اب معاملہ سپریم کورٹ اور پھر مبینہ طور پر سڑکوں پر آ سکتا ہے جس کے نتائج شاید زیادہ بہتر نہ ہو سکیں۔
پاکستانی سیاست میں جس طرح اتار چڑھاؤ دیکھے جا رہے ہیں یہ شاید معیشت کے لیے زیادہ موزوں نہیں ہیں۔ سیاسی ایڈونچر کبھی بھی سرمایہ کاروں کے لیے دلچسپی کا موضوع نہیں رہا ہے۔ اگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ جاننے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا کہ جن ریاستوں اور ممالک میں سیاسی ایڈونچر تواتر سے ہوتے رہے ہیں وہاں معیشت کے مسائل بڑھتے رہے ہیں۔ سرمایہ کار بھی ایسی جگہ سے جلد ہی کوچ کر جاتے ہیں جہاں کمائی کی سٹریٹجی بنانے کے بجائے ساری توجہ دکان‘ فیکٹری یا سرمایہ بچانے کی طرف مبذول ہو جائے۔ منافع کمانے کے لیے ایک مخصوص ماحول درکار ہوتا ہے۔ جیسے کشتی رانی کے لیے سمندر یا دریا کے پانی میں ٹھہراؤ لازمی ہے اسی طرح کاروبار چلانے کے لیے سیاسی ماحول میں سکون‘ ٹھہراؤ اور مستقل مزاجی لازمی ہے۔ اگر دنیا کی بڑی طاقتوں اور کامیاب معیشتوں کا مشاہدہ کیا جائے تو یہ جاننے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا کہ جن ریاستوں اور ممالک میں زیادہ لمبے عرصے تک ایک پارٹی یا فرد کی پالیسی چلتی رہی ہے انہوں نے ترقی کی منازل تیزی سے طے کی ہیں۔ مہاتیر محمد نے تقریباً تین دہائیوں تک ملائیشیا پر مستقل حکومت کی جو ممکنہ طور پر ملائیشیا کی معاشی صورتحال بدلنے کا باعث بنا۔ اسی طرح ترکی میں طیب اردوان‘ روس میں صدر پوتن‘ چین میں صدر شی جن پنگ اور بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کئی برسوں سے مستقل حکمران ہیں اور انہی کی پالیسیز چل رہی ہیں۔ جس کے باعث بیرون ممالک سے سرمایہ منتقل ہو رہا ہے اور یہ ممالک ترقی کی راہ پر گامزن دکھائی دیتے ہیں۔ جبکہ پاکستان میں حالات مختلف ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان سے الگ ہونے والا ایک کمزور ملک بنگلہ دیش آج پاکستان سے زیادہ ترقی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ بنگلہ دیش کے ڈالرز ذخائر تقریباً اُنتالیس ارب ڈالرز ہیں اور پاکستان کے صرف نو ارب ڈالرز ہیں۔ بنگلہ دیش چین کے بعد دنیا کا دوسرا بڑا ٹیکسٹائل ایکسپورٹر ہے جبکہ پاکستانی ٹیکسٹائل صنعت تنزلی کا شکار ہو رہی ہے۔ ایک بنگلہ دیشی ٹکے کی قیمت پاکستانی روپے کی نسبت تقریباً تین گنا زیادہ ہے۔ دوسری طرف پاکستان کو ملنے والے ایک ارب ڈالر برآمدات کے آرڈرز کینسل ہو چکے ہیں۔ روپے کی قدر روزانہ کی بنیاد پر گر رہی ہے۔ دنیا ہمارے بانڈز پچاس فیصد کم قیمت پر بیچ رہی ہے لیکن مبینہ طور پر کوئی لینے کو تیار نہیں ہے۔ دنیا شاید یہ ماننے لگی ہے کہ پاکستان جلد دیوالیہ ہو جائے گا لہٰذا اس کے بانڈز رکھنے کا شاید فائدہ نہ ہو سکے۔ پاکستان میں بھی عوامی سطح پر اس تاثر کو تقویت ملنے کی وجہ سیاستدانوں کا رویہ ہے۔ جو اقتدار کے حصول کے لیے شدید بیماری میں پانچ چھ گھنٹے لگاتار بیٹھ کر سیاسی معاملات طے کر سکتے ہیں لیکن اسی طرح کی ملاقات شاید مہنگائی کم کرنے‘ روپے کی گرتی قدر کو مضبوط کرنے‘ درآمدات کم کرنے اور برمدات بڑھانے کے لیے کرتے دکھائی نہیں دیتے۔ جس کے باعث نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ حکومتِ پاکستان کی جانب سے کچھ اداروں اور منصوبوں کو دوست ممالک کو بیچنے کی منصوبہ بندی کی اطلاعات ہیں۔ اس حوالے سے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل صاحب نے حالیہ پریس کانفرنس میں بتایا کہ حکومت دو پاور پلانٹس اور کچھ اداروں کے شیئرز کچھ دوست ممالک کو بیچنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ جس سے تقریباً اڑھائی ارب ڈالرز معیشت میں شامل ہو سکتے ہیں اور روپے کی گرتی ہوئی قدر کو سہارا مل سکتا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملکی منصوبے اور اثاثے بیچ کو پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچایا جا سکتا ہے؟
ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ شاید ہمارے سیاستدان ذہنی طور پر تیار ہو گئے ہیں کہ پاکستان آج نہیں تو کل دیوالیہ ہو سکتا ہے۔ شاید اسی لیے وہ مثبت اقدامات کرتے دکھائی نہیں دے رہے۔ اداروں کو بیچنا مسئلے کا حل کیسے ہو سکتا ہے۔ اگر موجودہ نجکاری سے اڑھائی ارب ڈالرز پاکستان کو مل بھی جائیں تو وہ کتنی دیر کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کو چند دن قبل چائنہ سے دو ارب تیس کروڑ ڈالرز ملے تھے جنہیں ایک ماہ سے کم عرصہ میں ہی خرچ کر لیا گیا ہے۔ نجکاری کرنے سے ممکنہ طور پر وقتی طور پر فائدہ ہو سکتا ہے لیکن وہ شاید چند دنوں سے زیادہ نہ ہو۔ اطلاعات ہیں کہ حکومت پاکستان اسٹیٹ آئل کی بھی نجکاری کرنے کا فیصلہ کر رہی ہے لیکن وہ جن شرائط پر کرنے جا رہی ہے وہ پاکستان کے حق میں زیادہ بہتر دکھائی نہیں دیتیں۔ ممکنہ طور پر دوست ملک نے پی ایس او کے شئیرز اس شرط پر خریدنے کی حامی بھری ہے کہ اگر کل کو شئیرز بیچنے کا فیصلہ کیا تو حکومتِ پاکستان اسے واپس خریدے گی اور اس کی قیمت دوست ملک طے کرے گا۔ یہ ایک طرح کا قرض ہوگا۔ اس سے پہلے بھی (ن) لیگ‘ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کی حکومتیں ملکی اثاثے گروی رکھ کر بھاری قرض لیتی رہی ہیں۔ جن میں موٹروے‘ کراچی‘ اسلام آباد ائیرپورٹس‘ ریڈیو پاکستان کی بلڈنگ اور اسلام آباد کے ایف نائن پارک کے علاوہ کئی ملکی اثاثے شامل ہیں۔ حکومت آج تک ان اثاثوں کے عوض قرض کی ادائیگی کر کے انہیں آزاد نہیں کروا سکی۔ اگر اسی طرز پر مزید قرضے لینے کی پالیسی قائم رہتی ہے تو ممکنہ طور پر پاکستان کے اثاثوں کی خریداری میں بھی ممالک دلچسپی نہیں لیں گے۔ یہ خدشات بھی بڑھنے لگے ہیں کہ دیوالیہ پن سے بچنے کے لیے اگر ملکی ایٹمی اثاثوں پر سمجھوتا کرنے کی شرط رکھ دی جاتی ہے تو ہمارے حکمران کیا فیصلہ کریں گے؟ عوامی سطح پر بھی یہ سوال اٹھایا جانے لگا ہے کہ کیا پاکستان ایٹمی اثاثوں پر سمجھوتا کرنے کی طرف جا رہا ہے۔ اس وقت پالیسی بدلے جانے کی ضرورت ہے۔ اداروں کی نجکاری کرنے کی بجائے انہیں کامیابی سے چلانے کی حکمت عملی تیار کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ وزیر خزانہ چند دن پہلے دوبارہ فرما رہے تھے کہ جو سٹیل مل لے گا اسے پی آئی اے مفت میں دیں گے۔ کیونکہ ان کے نقصانات ان کے اثاثوں سے زیادہ ہیں۔ لیکن مفتاح اسماعیل صاحب کا یہ بیان شاید حقائق کے منافی ہے۔ پاکستان سٹیل مل کے پاس کم و بیش چار سے پانچ ہزار ایکڑزمین موجود ہے۔ اس کی لوکیشن بھی پرائم ہے۔ کراچی کو ایک نئے کمرشل حب کی ضرورت ہے۔ اگر اس زمین کی پلاٹنگ کر کے کمرشل حب بنا دیا جائے تو اربوں روپے باآسانی کمائے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر آپشنز بھی موجود ہیں جن کی منصوبہ بندی کرکے پاکستان سٹیل مل کو نقصان سے منافع میں لایا جا سکتا ہے۔ بیرون ملک پاکستانیوں سے ڈالرز منگوانے کے لیے اس کمرشل حب میں انہیں ڈسکاؤنٹس کی آفر کی جا سکتی ہے۔ اور اس کے لیے شاید زیادہ محنت کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے لیکن اس کے لیے پہلے نیت کا صاف ہونا ضروری ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں