پنجاب کی سیاسی صورتحال پر بظاہر قابو پا لیا گیا ہے لیکن آنے والے دن زیادہ بہتر دکھائی نہیں دیتے۔ وفاقی حکومت کے پاس اب بھی کچھ قانونی اختیارات ہیں جو پنجاب حکومت کو مشکلات کا شکار کر سکتے ہیں جس سے عدم استحکام میں اضافے کا خدشہ بڑھ سکتا ہے۔ حکومتی اتحاد کی پنجاب میں شکست کے بعد وفاقی حکومت بظاہر کمزور دکھائی دے رہی ہے۔ یہ صورتحال ملک کے لیے خوش آئند نہیں ہے۔ ملکی اور بین الاقوامی سرمایہ کار مضبوط وفاقی حکومت کے ساتھ چلنے کے خواہاں ہوتے ہیں۔ یہ رائے تقویت اختیار کرتی دکھائی دے رہی ہے کہ پنجاب میں جیت کے بعد تحریک انصاف کا اگلا ہدف وفاقی حکومت ہو سکتی ہے۔ ممکنہ طور پر وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی جا سکتی ہے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو سکا تو اسلام آباد کی طرف ایک اور لانگ مارچ کی کال بھی دی جا سکتی ہے جو مزید عدم استحکام کا سبب بنے گی۔ کئی حلقوں کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں کو تحلیل کر کے نئے عام انتخابات کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے۔ لیکن میرے مطابق ایسا کرنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ ممکنہ طور پر چودھری پرویز الٰہی اس فارمولے پر کام نہیں کریں گے۔ اگرچہ ان کا بیان سامنے آیا کہ اگر عمران خان نے کہا تو اسمبلی توڑنے میں ایک منٹ بھی نہیں لگائوں گا مگر یہ بعد کا مرحلہ ہے۔ اسمبلی توڑنے سے تحریک انصاف کو پنجاب میں اپنے فیصلے لاگو کرانے میں مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف سیاسی تجزیہ کار یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ خان صاحب کو اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کروانے کی جو سہولت بزدار حکومت کے دوران میسر تھی‘ وہ شاید اب میسر نہ رہے۔اگر تحریک انصاف سیاسی بحران پیدا کر کے الیکشن کرانا چاہتی تو وہ یہ کام خیبرپختونخوا کی اسمبلی تحلیل کر کے اور وفاقی حکومت سے عملی طور پر اپنے استعفے منظور کروا کر بھی کر سکتی تھی لیکن ایسا کوئی فیصلہ ابھی تک سامنے نہیں آ سکا۔
موجودہ صورتحال کے پیش نظر ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے وفاق اور پنجاب میں ایک ہی پارٹی کی حکومت کا ہونا سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔ یا تو تحریک انصاف کے لیے پنجاب کے بعد وفاق میں بھی حکومت بنانے کی راہ ہموار ہو جائے یا نون لیگ کو ہی وفاق اور پنجاب میں حکومت بنانے دی جائے۔ آدھا تیتر‘ آدھا بٹیر والا معاملہ معاشی بحران پر قابو نہیں پا سکتا۔ ایسا شاید پاکستانی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ جس پارٹی کی مرکز میں حکومت ہے اس کی کسی بھی صوبے میں حکومت نہیں ہے۔ یہ حالات خودبخود تبدیل ہو رہے ہیں یا کسی منصوبہ بندی کے تحت ایسا ہو رہا ہے‘ اس بارے میں حتمی رائے دینا مشکل ہے لیکن ان حالات سے دشمن ممالک کو ملک کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کا موقع ملتا دکھائی دے رہا ہے اور مبینہ طور پر بھارت ان معاملات کو پاکستان کے خلاف لابنگ کرنے میں استعمال کر رہا ہے۔
سیاسی عدم استحکام نے ملک میں ڈالرز کا بحران بھی پیدا کر دیا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ نجی بینکوں کے پاس بھی ڈالرز کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔ درآمد کنندگان ڈالر کا ریٹ بڑھنے کے خوف سے پورے سال کے آرڈرز آج کے ریٹ پر ہی بک کروا رہے ہیں جس کے باعث ڈالر کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بینک بھی مارکیٹ ریٹ سے تقریباً چھ یا سات روپے زیادہ پر ڈالرز کی ٹرانزیکشنز کر رہے ہیں کیونکہ ڈالرز کی بیرونِ ملک ادائیگی میں تقریباً دو دن کا وقت درکار ہوتا ہے اور ان دو دِنوں میں ڈالر کتنی اونچی چھلانگ لگا لے‘ کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ اس طرح بینک ٹرانزیکشنز پر نقصان نہ کرنے کے لیے زیادہ ریٹ چارج کر رہے ہیں۔ سٹیٹ بینک نے چند روز قبل بینکوں کے صدور کی میٹنگ بلا رکھی تھی جس میں ان پہلوئوں پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔ بینکوں نے سٹیٹ بینک پر زور دیا کہ تجارتی خسارہ کم کیا جائے اور لگژری درآمدات پر پابندی لگائی جائے۔ درآمد کنندگان کو ایک مخصوص حد سے زیادہ ڈالرز خریدنے اور آرڈرز بک کرانے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے لیکن ابھی تک اس میٹنگ کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آ سکے۔ اس کے علاوہ تیل کی درآمدات بھی ڈالر کا ریٹ بڑھنے کی بڑی وجہ بتائی جا رہی ہیں۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ لوڈ شیڈنگ کرنے سے پٹرولیم مصنوعات کے بل میں مطلوبہ کمی نہیں آ سکی۔ان حالات میں سرکار نے درآمدات پر پابندی نرم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حالات کے پیشِ نظر یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ یہ وقت درآمدات سے پابندی اٹھانے کا نہیں ہے۔ بلاشبہ اس سے اکنامک ایکٹوٹی بڑھ سکتی ہے لیکن ڈالر ریٹ بڑھنے کی صورت میں ملک کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔
اس وقت ملک کی معاشی حالت خاصی نازک دکھائی دیتی ہے۔ پاکستان کو موجودہ مالی سال میں تقریباً 41 بلین ڈالرز درکار ہیں جن میں سے بڑی رقم مالی سال کے دوسرے کوارٹر میں واجب الادا ہے۔ ان حالات میں قائم مقام گورنر سٹیٹ بینک فرما رہے ہیں کہ پاکستان کے پاس زرمبادلہ کے وافر ذخائر موجود ہیں اور ملک دیوالیہ نہیں ہو سکتا۔ لیکن عوام یہ جاننے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں کہ وہ کن بنیادوں پر یہ دعویٰ کر رہے ہیں۔ اس وقت زرمبادلہ کے ذخائر دس ارب ڈالرز سے بھی کم کی سطح پر ہیں۔ آئی ایم ایف نے شرط عائد کی ہے کہ سعودی عرب سے چار بلین ڈالرز پاکستان کو ملنے کی صورت میں ہی قرض کی نئی قسط منظور کی جا سکے گی۔ وزیر خزانہ صاحب ابھی تک یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ سعودی حکومت سے اس حوالے سے کیا معاملات طے پا ئے ہیں۔ شاید ابھی تک سعودی عرب نے گرین سگنل نہیں دیا۔ حکومت سے گزارش ہے کہ تمام حقائق عوام کے سامنے رکھے جائیں تا کہ انہیں یہ سمجھنے میں آسانی ہو کہ ملک کی موجودہ معاشی صورتحال کیا ہے۔ وزیر خزانہ صاحب ہر چند دن بعد یہ بیان دے دیتے ہیں کہ آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ وہ پاکستان کو دیوالیہ ہونے نہیں دے گا لیکن آئی ایم ایف کی جانب سے اس طرح کا کوئی بیان سامنے نہیں آ سکا جس کی وجہ سے وزیر خزانہ کے مذکورہ بیان کو زیادہ اہمیت نہیں دی جا رہی۔
ان حالات میں وزیر خارجہ نے وزارتِ خزانہ سے درخواست کی ہے کہ نئے بجٹ میں بیرونِ ملک کام کرنے والے حکومت پاکستان کے ملازمین کے الائونسز پر جو ٹیکس لگایا گیا ہے‘ اسے ختم کیا جائے۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق یہ فیصلہ آئی ایم ایف کا ہے اور اس ٹیکس کو ختم کرنا حکومت پاکستان کے اختیار میں نہیں ہے۔ اس کے بعد وزیر خارجہ نے وزیراعظم کی سامنے بھی یہ معاملہ اٹھایا۔ ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق اس پر ایک کمیٹی بنا دی گئی ہے جو معاملے کا حل پیش کرنے میں مدد کرے گی۔ یہاں سوال یہ ہے کہ ایسے وقت میں جب ملک شدید معاشی بحران سے گزر رہا ہے‘سرکاری ملازمین کے لیے ٹیکس ریلیف مانگنا کیا مناسب عمل ہے؟ ایف بی آر کے مطابق یہ رقم تقریباً ایک ارب روپے بنتی ہے۔ وزارتِ خزانہ کے ذرائع کے مطابق‘ بیرونی ممالک میں کام کرنے والے حکومت پاکستان کے ملازمین بہترین تنخواہیں اور مراعات لے رہے ہیں۔ الائونسز پر ٹیکس دینے سے ان کی تنخواہوں پر معمولی سا فرق پڑے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ وزیر خارجہ کو اس مطالبے سے دستبردار ہونے کی ضرورت ہے۔ جس مدعے پر کام کرنے کے زیادہ ضرورت محسوس کی جا رہی ہے وہ دوست ممالک سے سفارتی تعلقات میں بہتری ہے۔ وزارتِ خارجہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے اگر سعودی عرب سے چار ارب ڈالرز حاصل کرنے کے لیے اقدامات کرے تو اس سے پاکستان کو حقیقی فائدہ حاصل ہونے کی امید ہے۔ جب معاشی حالات بہتر ہو جائیں گے تو مراعات پر ٹیکس والا معاملہ بھی زیرِ بحث لایا جا سکتا ہے۔ فی الحال یہ وقت مناسب دکھائی نہیں دے رہا۔ جہاں ملک کا ہر شہری بھاری ٹیکسز ادا کر رہا ہے وہاں سرکاری ملازمین کو بھی دل کھول کر ٹیکس ادا کرنے کی ضرورت ہے تا کہ ملکی فلاح و بقامیں وہ بھی اپنا بھرپور حصہ ڈال سکیں۔