پاکستان اس وقت ایک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ ملک کے بڑے صنعت کاروں نے چند دنوں میں اہم حکومتی شخصیات سے ملاقاتیں کی ہیں اور انہیں بتایا ہے کہ ملک سے سرمایہ تیزی سے نکل کر بنگلہ دیش منتقل ہو رہا ہے۔ اگر حالات میں بہتری نہ آ سکی تو جو وفد ملاقات کے لیے حاضر ہوا ہے‘ وہ بھی اپنا سرمایہ پاکستان سے منتقل کر سکتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق انہیں یقین دہانیاں کروائی گئی ہیں کہ جلد ہی آئی ایم ایف کا پروگرام شروع ہو سکتا ہے جس سے عدم استحکام کے خدشات دور کرنے میں مدد مل سکے گی۔ سرمایہ کار کس حد تک مطمئن ہوئے ہیں‘ اس حوالے سے کوئی واضع خبر نہیں آ سکی ہے لیکن ملک کو مزید معاشی عدم استحکام کا شکار ہونے سے بچانے کے لیے شاید سنجیدہ کوششیں شروع کر دی گئی ہیں۔ دفتر خارجہ کے مطابق آرمی چیف نے امریکہ سے اپیل کی ہے کہ آئی ایم ایف کو قائل کیا جائے کہ پاکستان کو قرض کی قسط جلد از جلد جاری کرے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب اور چین سے بھی مدد کی درخواست کی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق اگست کا مہینہ گزارنا پاکستان کے لیے مشکل ہو سکتا ہے۔ اگر آئی ایم ایف اگست کے آخری ہفتے میں اجلاس بلانے کے فیصلے پر نظر ثانی نہیں کرتا اور دوست ممالک بھی مدد کے لیے آگے نہیں بڑھتے تو ممکنہ طور پر ملک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ سکتا ہے۔ حال ہی میں سعودی عرب کی جانب سے تین ارب ڈالرز کے قرضوں کی مدت میں توسیع نہ ہوتی اور چین کی جانب سے دو ارب تیس کروڑ ڈالرز نہ دیے جاتے تو پاکستان کے ڈالر ذخائر اس وقت صرف تین بلین رہ جاتے اور ممکنہ طور پر ملک آفیشل طور پر ڈیفالٹ ڈکلیئر کر دیا جاتا۔ سری لنکا کے پاس جب زرمبادلہ کے ذخائر دو ارب ڈالرز کے قریب رہ گئے تھے تب انہوں نے ملک کے دیوالیہ ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔پاکستانی معیشت کا حجم سری لنکا کی نسبت زیادہ ہے‘ اس حساب سے زرِمبادلہ کے ذخائر پانچ ارب ڈالرز تک گرنے کی صورت میں پاکستان کو دیوالیہ ڈکلیئر کیا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ پاکستانی روپے کی گرتی ہوئی قدر بھی ملک کے دیوالیہ ہونے کی افواہوں کو تقویت دے رہی ہے۔ سری لنکن کرنسی 2022ء کے چار مہینوں میں تقریباً 78فیصد گری اور پاکستانی کرنسی پچھلے تین مہینوں میں تقریباً 45 فیصد گر چکی ہے۔ ڈالر روزانہ کی بنیاد پر بڑھ رہا ہے لیکن یہ کیوں بڑھ رہا ہے اور اسے کون بڑھا رہا ہے‘ اس بارے میں کوئی بھی ادارہ واضع ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔ منی ایکسچینجرز کے مطابق ڈالر کی قیمت بڑھنے کے پیچھے بینکس ہیں۔ بینکس کے مطابق درآمد کنندگان ڈالر کا ریٹ بڑھانے کے ذمہ دار ہیں۔ درآمد کنندگان کا کہنا ہے کہ سٹیٹ بینک ڈالر کا ریٹ بڑھا رہا ہے اور سٹیٹ بینک کے ذرائع نے بتایا ہے کہ ڈالر ریٹ بڑھانے کے لیے آئی ایم ایف کا دباؤ ہے۔ جبکہ عالمی مالیاتی ادارے ڈالر کی قیمت بڑھنے کی وجہ سیاسی عدم استحکام اور ڈالر سمگلنگ کو قرار دیتے ہیں۔ آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ڈالر بڑھنے کے اصل ذمہ دار کون ہیں۔
ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری کے مطابق ''منی ایکسچینجرز کے پاس اتنے ڈالرز نہیں ہوتے کہ وہ ڈالر کی قیمت پر اثر انداز ہو سکیں۔ ڈالرز کے زیادہ ذخائر نجی بینکس کے پاس ہیں اور ان کے پاس اتنی طاقت ہے کہ وہ ڈالرز کی خرید و فروخت سے مارکیٹ میں ڈالر ریٹ کو اچھا خاصا متاثر کر سکتے ہیں۔ اطلاعات ہیں وہ درآمد کنندگان کو بتا رہے ہیں کہ مستقبل میں ڈالر مزید بڑھے گا لہٰذا آج کی تاریخ میں ڈالر کی زیادہ خریداری کر لی جائے۔ ان ٹرانزیکشنز پر وہ تقریباً نو سے دس روپے فی ڈالر منافع کما رہے ہیں۔ اپنے منافع کے لیے ملکی معیشت کو داؤ پر لگایا جارہا ہے۔ سٹیٹ بینک کو اس معاملے میں مداخلت کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔
جبکہ ایک نجی بینک کے سینئر وائس پریزیڈنٹ کے مطابق '' ڈالر کا ریٹ بڑھانے میں بینکس کا کوئی کردار نہیں ہے۔ بینکس کے پاس جو ڈالرز ہیں وہ بینکس کی ملکیت نہیں ہیں بلکہ کسٹمرز ان کے اصل مالک ہیں۔ کسٹمرز کی مرضی کے بغیر بینک ایک ڈالر بھی آگے پیچھے نہیں کر سکتا۔ جہاں تک بات ہے ڈالر ٹرانزیکشنز پر زیادہ منافع کمانے کی تو اس دعوے میں بھی سچائی نہیں ہے بلکہ وہ خود ان حالات کی وجہ سے عدم استحکام کا شکار ہیں۔ اصل قصور وار درآمد کنندگان ہیں۔ وہ مستقبل میں ڈالرز بڑھنے کے خدشے کے پیش نظر ایک سال کے درآمدات کے آرڈرز ایک ہی دن میں بُک کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے مارکیٹ میں ڈالر کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔ کچھ درآمد کنندگان ڈالرز خرید کر رکھ رہے ہیں تاکہ مستقبل میں جب ٹرانزیکشنز کرنا پڑیں تو مہنگے ڈالرز خریدنے سے بچا جا سکے‘‘۔
جبکہ درآمد کنندگان کے مطابق ''وہ ڈالرز ملک سے باہر نہیں بھیج رہے۔ بلکہ جب ڈالر کی قیمت 189 روپے تھی تب درآمدات آج کی نسبت دو گنا زیادہ تھیں۔ اور ڈالر ریٹ مستحکم تھا۔ اب خام مال کی درآمدات میں واضع کمی ہو چکی ہے تو ڈالر کی قیمت کم ہونی چاہیے۔ قانونی طریقے سے ڈالر باہر بھیجنے میں کئی مشکلات درپیش ہیں۔ حکومت نے کئی رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں۔ حکومت کی جانب سے درآمدات پر پابندیاں لگانے کے باوجود اگر ڈالر بڑھ رہا ہے تو درآمد کنندگان کے بجائے سٹیٹ بینک آف پاکستان کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے۔ کیونکہ انٹر بینک ریٹ سٹیٹ بینک کی مرضی کے بغیر نہیں بڑھایا جا سکتا۔ اگر سٹیٹ بینک مداخلت کرے تو ڈالر ریٹ کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے‘‘۔
اس حوالے سے جاننے کے لیے جب سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ذرائع سے رابطہ کیا گیا تو بتایا گیا کہ ڈالر ریٹ بڑھنے کی وجہ آئی ایم ایف کا دباؤ ہے۔ حکومت پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے میں ہے کہ روپے کی قدر کو مزید کم کیا جائے گا۔ ممکنہ طور پر آئی ایم ایف پروگرام حاصل کرنے کے لیے آنے والے دنوں میں روپے کی قدر مزید گر سکتی ہے۔ اس حوالے سے بین الاقوامی اداروں کا مؤقف مختلف دکھائی دیتا ہے۔ ان کے مطابق پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور ڈالر کی سمگلنگ کی وجہ سے ملک میں ڈالر کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔
یہ مؤقف کافی حد تک درست دکھائی دیتا ہے۔ یہ بھی شنید ہے کہ کچھ بیرونی عناصر پاکستان سے ڈالرز خرید کر دوسرے ملکوں میں سمگل کر رہے ہیں۔ پاکستان ایک چھوٹی سے مارکیٹ ہے جس کی معیشت کو کوئی بھی بڑا سرمایہ دار ملک آسانی سے متاثر کر سکتا ہے۔ منی ایکسچینجرز کے مطابق وہ پچھلے کچھ دنوں سے اوپن مارکیٹ سے ڈالر خرید کر سٹیٹ بینک کو جمع کروا رہے تھے تاکہ کچھ سہارا مل سکے۔ ایسا لگتا ہے کہ دشمنوں کو اس کا پتہ چل گیا ہے اور اب وہ گرے مارکیٹ میں ڈالر 260 روپے کا خرید رہے ہیں۔ جس سے منی ایکسچینجرز بھی بے بس دکھائی دے رہے ہیں۔ ڈالر کو اوپن مارکیٹ کے مطابق رکھنے کا فیصلہ آج گلے پڑ چکا ہے۔ دنیا کا کوئی ملک ڈالر کو اوپن رکھ کر کامیاب معیشت نہیں چلا سکا۔ ہندوستان جیسی دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بھی ڈالر کو کنٹرول کرتی ہے۔ دبئی سعودی عرب جیسے امیر ممالک میں بھی ڈالر کا ریٹ فکسڈ ہے۔ پاکستان میں بھی اسے ایک سطح پر رکھے جانے کی ضرورت ہے۔
متعلقہ سٹیک ہولڈرز کی آرا کے پیش نظر یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ پاکستان میں ڈالر کی قیمت بڑھنا بلاوجہ نہیں ہے۔ اس کے پیچھے کوئی منصوبہ بندی دکھائی دیتی ہے۔ ڈالر بحران پیدا کرنے میں بینکس یا کسی ایک سٹیک ہولڈر کا ہاتھ نہیں ہے بلکہ سب اپنی استطاعت کے مطابق اس گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔ لیکن اگر سب سے زیادہ ذمہ داری کسی پر عائد کی جا سکتی ہے تو وہ آئی ایم ایف اور سٹیٹ بینک آف پاکستان ہیں۔ کیونکہ ان کی منشا کے بغیر انٹر بینک میں ڈالر کا بڑھنا شاید ناممکن ہے۔