یومِ آزادی اور ملکی معیشت

آج 14 اگست ہے۔ ملک میں ہر طرف یومِ آزادی منانے کی تقریبات جاری ہیں۔ یہ ایک ایسا دن سے جسے بچے‘ بڑے اور بوڑھے پورے جذبۂ حب الوطنی کے ساتھ مناتے ہیں۔ ہر گھر کی چھت پر سبز ہلالی پرچم لہرانے کے ساتھ ساتھ ملکی ترقی و سلامتی کے لیے دعاؤں کا بھی خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یومِ آزادی کے موقع پر آزادی کی تقریبات کا اہتمام کرنا اور اُن میں شامل ہونا کافی ہے یا کچھ اور بھی کیے جانے کی ضرورت ہے۔ اب شاید یہ جاننے کی بھی ضرورت محسوس ہونے لگی ہے کہ جشن آزادی منانے کا درست طریقہ کیا ہے؟ یومِ آزادی قوموں کی زندگی میں انتہائی اہمیت کا دن سمجھا جاتا ہے۔ شاید یہ دن خوشیاں منانے سے زیادہ خود احتسابی کا ہے۔ جس میں یہ طے کیے جانے کی ضرورت ہے کہ ہر شخص نے اس ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے کیا کردار ادا کیا ہے اور آنے والے دنوں میں ملک کی بہتری کے لیے ذاتی حیثیت میں کیا کام کیا جا سکتا ہے۔ مجھے یہ لکھنے میں زیادہ ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہو رہی کہ ہمارے تعلیمی اداروں اور نجی و سرکاری دفاتر میں اس دن کو روایتی طریقوں سے منانے کا رجحان تو موجود ہے لیکن ایک دن کی تقریب کے بعد پورا سال اس موضوع پر بات نہیں کی جاتی کہ جو عہد 14 اگست کے دن کیا تھا‘ اس کی تکمیل کے حوالے سے کیا اقدامات کیے گئے ہیں۔ صورتحال اس وقت زیادہ غیر مناسب دکھائی دینے لگتی ہے جب ہر سال 14 اگست کے دن پچھلے سال کے اہداف یاد بھی نہیں ہوتے۔ اس کی وجہ شاید ملکی سطح پر تربیت کی کمی ہو سکتی ہے۔ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ آج کل کے نوجوان گاڑیوں پر جھنڈے لگانے‘ باجے بجانے‘ موٹر سائیکلوں کے سائلنسر نکالنے اور ون ویلینگ کرنے کو بھی جشن آزادی منانے کے لیے ضروری قرار دینے لگے ہیں۔ ان کے نزدیک جشن آزدای شاید یہی ہے۔ کسی حد تک وہ درست بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ جب تک انہیں صحیح راستہ دکھایا نہیں جائے گا تب تک وہ اپنے بنائے گئے طریقوں کو ہی درست مانتے رہیں گے۔ اور نئے راستے پر چلنے کے لیے تیار بھی نہیں ہو سکتے۔ ایسا ممکن ہے کہ نئی نسل کی مطلوبہ تربیت نہ کی گئی ہو لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ پرانی نسل یوم آزادی کس طرح مناتی ہے اور اس کے نزدیک 14 اگست کی کیا اہمیت ہے۔ پاکستان کو آزاد کروانے والوں کی تقریباً دوسری یا تیسری نسل پروان چڑھ چکی ہے۔ کچھ سرکاری عہدوں پر فائز ہیں‘ کچھ کاروبار کرتے ہیں اور کچھ سیاست کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ سیاست سے تعلق رکھنے والے پاکستانی قوم کے لیے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے ووٹرز اور سپورٹرز انہیں فالو کرتے ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہماری سیاسی قیادت یوم آزادی کو کتنی اہمیت دیتی ہے؟ کیا وہ اس دن ذاتی اَنا اور مفاد سے باہر نکل کر ملک و قوم کی بہتری کے لیے فیصلے کرتی ہے یا پھر ایک دوسرے کو چور‘ ڈاکو اور غدار جیسے القابات سے ہی یاد کیا جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ میرا اندازہ غلط ہو لیکن ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اس سال بھی 14 اگست کو ہونے والی سیاسی تقاریر میں ممکنہ طور پر نفرت‘ الزامات‘ بغض اور اقتدار کے لالچ کی جھلک دیکھنے کو مل سکتی ہے۔ جس سے یہ نتیجہ نکالنے میں شاید زیادہ دیر نہ لگے کہ ممکنہ طور پر ہمارے سیاستدانوں نے پچھلے پچھتر برسوں سے کچھ مثبت نہیں سیکھا۔ کامیاب قومیں وہ ہوتی ہیں جن کی اگلی نسل کے اقدار‘ اخلاق اور سوچ پچھلی نسل سے ایک درجہ بہتر ہو۔ جب اگلی نسل پچھلی نسل سے کم تر محسوس ہونے لگے تو یہ صورتحال نہ صرف پوری ایک نسل ضائع ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہے بلکہ یہ پیغام بھی دینے لگتی ہے کہ ممکنہ طور پر پچھتر برسوں میں جو کھویا ہے اسے پانے کے لیے 150 سال لگ سکتے ہیں۔
پاکستانی قوم نے نہ صرف اخلاقی اقدار کھوئے ہیں بلکہ معاشی بدحالی میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ فی الحال صورتحال اس قدر پریشان کن ہے کہ ایپٹما کے جزل سیکرٹری نے میڈیا کو بتایا ہے کہ موجودہ مالی سال میں ٹیکسٹائل برآمدات میں اضافے کے بجائے تین ارب ڈالر کمی ہو سکتی ہے۔ وہ اس کا ذمہ دار مہنگی بجلی‘ گیس اور ڈالر کی غیریقینی صورتحال کو قرار دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ پی ایس او کی مالی حالت اس قدر کمزور کر دی گئی ہے کہ بینکس نے اسے قرض دینے سے انکار کر دیا ہے۔ پیٹرولیم ڈویژن کے مطابق پی ایس او پر 110 ارب روپے کے بین الاقوامی قرضے واجب الادا ہیں۔ جن کو ادا کرنے کی آخری تاریخ 15اگست 2022ء ہے۔ رقم ادا نہ کرنے کی صورت میں پی ایس او ڈیفالٹ کر سکتا ہے۔ اس لیے وزیر خزانہ کی سربراہی میں منعقد ہونے والے اکنامک کوآرڈینیشن کمیٹی کے اجلاس میں پی ایس او کو 50 ارب روپے فوری فراہم کرنے کے لیے لیٹر آف کمفرٹ جاری کرنے کی منظوری دے دی گئی ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت پاکستان عوام کو پیٹرولیم مصنوعات منافع کے ساتھ بیچتی ہے‘ اس صورتحال میں بھی پاکستان سٹیٹ آئل دیوالیہ ہونے کے قریب کیسے پہنچ گیا؟ اور دوسرا سوال یہ ہے کہ حکومت نے بجٹ پیش کرنے کے ڈیڑھ ماہ بعد ہی گارنٹیز دینا شروع کر دی ہیں۔ ایک طرف حکومت کا کہنا ہے کہ سرکار کے پاس پیسے نہیں ہیں اور دوسری طرف اس طرح کی گارنٹیز جاری کی جا رہی ہیں۔ یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا ہے جب حکومت پی ایس او کے شیئرز عرب دوست ملک کو بیچنے کا ارادہ کر چکی ہے۔ کیا ایسے حالات جان بوجھ کر پیدا کیے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ای سی سی کے اجلاس میں پی آئی اے کے روز ویلٹ ہوٹل کے قرضوں کی ادائیگی کے لیے بھی بینکوں کو گارنٹی دی گئی ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ہوٹل دسمبر 2020ء سے بند پڑا ہے۔ امریکہ میں اس کی لوکیشن پرائمری ہے۔ اس کے باوجود بھی اسے چلایا نہیں جا سکا۔ سرکاری بابوؤں اور سیاستدانوں کی نااہلی کی سزا پاکستانی عوام کو کیوں دی جا رہی ہے۔ عوام کے ٹیکس کے پیسوں کو اس طرح ضائع کرنا کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے۔ کیا ایسے اداروں کو بیچ دینا اور ان کے ذمہ داروں کو کٹہرے میں لانا زیادہ ضروری نہیں ہے؟ سرکار فی الحال ان موضوعات پر بات کرنے میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتی۔ وہ ڈالر ریٹ کم ہونے پر مطمئن دکھائی دے رہی ہے لیکن وہ عوام کو یہ نہیں بتا رہی کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے پچھلے دو ماہ سے رئیل ایفیکٹو ایکسچینج ریٹ کیوں ظاہر نہیں کیا ہے؟ ایسا لگ رہا ہے کہ شاید سٹیٹ بینک کی طرف سے کچھ چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ڈالر ریٹ میں ڈرامائی تبدیلیاں بلاوجہ نہیں ہیں۔ اگر معاملے کی آزادانہ تحقیقات کروائی جائیں تو شاید ڈالر کے آزاد ہونے کے تاثر کو ختم کرنے میں مدد مل سکے گی۔ اس کے علاوہ سرکار آئی ایم ایف کی جانب سے ملنے والے لیٹر آف انٹینٹ کو اپنی کامیابی قرار دے رہی ہے۔ ایک وقت تھا جب پاکستان جرمنی کو قرض دینا اپنی کامیابی سمجھتا تھا لیکن آج آئی ایم ایف کے خط کو کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔ شاید آپ جان چکے ہوں گے کہ آزادی سے لے کر آج تک پاکستان کتنا بدل چکا ہے۔ میں یہاں ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ ابھی آئی ایم ایف کا قرض نہیں ملا ہے۔ اس کا فیصلہ اگست کے آخری ہفتے میں ہونے کی توقع ہے۔ لیکن آئی ایم ایف کا قرض مبینہ طور پر 40 ارب روپے کے نئے ٹیکسز بھی اپنے ساتھ لا رہا ہے۔ حکومت مبینہ طور پر ایک منی بجٹ کی تیاری کر رہی ہے۔ جس سے روز مرہ استعمال کی اشیائے خورونوش پر مزید نئے ٹیکسز لگائے جا سکتے ہیں۔ آج آزادی کے موقع پر اگر یہ کہا جائے کہ آنے والے دن عوام کے لیے زیادہ اچھی خبریں نہیں لا رہے تو شاید غلط نہیں ہو گا۔ ممکنہ طور پر اس سال ملک دیوالیہ ہونے سے بچ جائے گا لیکن شاید عوام کے دیوالیہ ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں