دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں اظہارِ رائے کی آزادی کو اہمیت دی جاتی ہے۔ ہر شخص کی رائے اتنی ہی اہم سمجھی جاتی ہے جتنی ایک وزیراعظم یا وزیر کی رائے اہم ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں اس قانون کو رشک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور بھرپور پذیرائی بھی کی جاتی ہے لیکن شاید دور کے ڈھول زیادہ سہانے ہوتے ہیں۔ حال ہی میں وفاقی وزیر اطلاعات کو لندن میں ''اظہارِ رائے کی آزادی‘‘ کے نام پر پریشان کیا گیا۔ نامناسب الفاظ استعمال ہوئے اور کچھ لوگوں نے اخلاقیات سے عاری جملوں کا بھی استعمال کیا۔ ایسا کرنے والوں سے متعلق برطانوی حکومت نے تو کوئی ردِ عمل نہیں دیا البتہ یہاں یہ اعتراض اٹھایا جاتا ہے کہ اگر وزیر صاحبہ کو کوئی اعتراض تھا تو وہ برطانوی پولیس سٹیشن میں شکایت درج کرا سکتی تھیں یا مدد کے لیے پولیس کو فون کر سکتی تھیں لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا جس کی وجہ سے سرکار نے ایکشن نہیں لیا۔ یہ اعتراض کسی حد تک درست ہے لیکن جو لوگ برطانیہ کے قوانین سے واقف ہیں‘ وہ یہ جانتے ہیں کہ اس طرح کی شکایات پر سخت ردِعمل سامنے نہیں آتا اور سزا کے امکانات تقریباً نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ یہ صورتحال تشویش ناک ہے کیونکہ جس انسان کو سر عام گالیاں دی جا رہی ہوں اور اس کو ذہنی اذیت سے دوچار کیا جا رہا ہو‘ اس کی شخصیت کو پہنچنے والے نقصان کے ازالے میں ریاست کا معاون نہ بننا انسانی بحران کو جنم دے سکتا ہے۔ سعودی عرب میں اسی طرح کے ایک واقعے کے خلاف شکایت درج کرائے بغیر ہی مقامی حکومت نے ایکشن لیا تھا۔ مقدمات درج ہوئے تھے اور سخت سزائیں بھی دی گئی تھیں، اس طرزِ عمل کو انسانی حقوں کی پامالی کا بہترین ازالہ سمجھا جا رہا ہے۔ ان معاملات میں شاید سعودی عرب کے قوانین برطانیہ سے بہتر ہیں۔ حکومت پاکستان نے پاکستانی نژاد برطانوی شہریوں کے خلاف کارروائی کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے لیکن وزیر اطلاعات اس کی حامی نہیں ہیں۔ ان کے مطابق‘ اصل قصوروار ان افراد کے سیاسی پیشوا ہیں نہ کہ معصوم لوگ جنہیں بیوقوف بنایا جا رہا ہے۔ اس طرح کے واقعات کا منطقی انجام تک پہنچنا از حد ضروری ہے جس طرح پاکستان میں انہیں منطقی انجام تک پہنچایا جاتا ہے۔
کچھ عرصہ قبل وفاقی وزیر احسن اقبال صاحب کے ساتھ موٹروے پر ایک فوڈ چین میں بدتمیزی کی گئی تھی اور نامناسب الفاظ استعمال کیے گئے تھے۔ حکومت نے قانونی کارروائی کا اعلان کیا تو ان افراد نے احسن اقبال صاحب کے گھر جا کر ان سے معافی مانگی اور آئندہ اس طرح کی حرکت نہ کرنے کا وعدہ کیا۔ سڑکوں پر سیاستدانوں کے ساتھ اس طرح کے سلوک کو ایک مخصوص سیاسی جماعت کے کچھ حلقوں میں سراہا جا رہا ہے اور اسے مخالفین کے لیے لمحۂ فکریہ قرار دیا جا رہا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سڑک پر سرعام کسی لیڈر یا خاتون کو پریشان کرنے سے اسے سیاسی نقصان کے بجائے سیاسی فائدہ ہی پہنچ سکتا ہے۔ لندن والے واقعے کے بعد وزیر اطلاعات کا نہ صرف پارٹی میں قد کاٹھ بڑھا ہے بلکہ ہر مناسب فورم پر ان کی حمایت کی جا رہی ہے۔ سیاسی وابستگی سے آزاد اہلِ وطن کی ہمدردیاں ان کے ساتھ ہو گئی ہیں بلکہ تحریک انصاف کے بہت سے سپورٹرز نے بھی (ن) لیگ کی وزیر اطلاعات کی حمایت کی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے سپورٹرز کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آج کے دور میں اختلاف کا مہذب طریقہ ہی کامیاب ہے۔ کسی کو برا بھلا کہنے سے ممکن ہے کہ وقتی طور پر غصہ کم ہو جائے لیکن اس سے ذاتی شہرت کے ساتھ ملک کے امیج کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ ہمارے سیاسی کارکنان اس حوالے سے کچھ سیکھتے ہیں یا نہیں‘ اس کا اندازہ مستقبل قریب میں ہو جائے گا۔
اس وقت ملکی سیاست کی سب سے بڑی خبر یہ ہے کہ اسحاق ڈار صاحب لندن سے پاکستان پہنچ چکے ہیں۔ انہوں نے سینیٹر کے ساتھ ساتھ وزیرِ خزانہ کا حلف بھی اٹھا لیا ہے۔ پانچ سال تک لندن میں مقیم ڈار صاحب کو مفرور قرار دیا جاتا رہا لیکن برطانیہ کے نظام نے ان کا احتساب کرنے کے بجائے انہیں سپورٹ کیا۔ عجیب اتفاق ہے کہ دنیا میں اکثر ایسی شخصیات جن پر کرپشن کا الزام لگتا ہے وہ برطانیہ کو اپنا دوسرا گھر بنا لیتی ہیں۔ برطانیہ کا یہ نظام کب تبدیل ہو گا‘ کچھ کہا نہیں جا سکتا لیکن اس نظام کے خلاف اب خود برطانیہ میں بھی آوازیں اٹھنا شروع ہو چکی ہیں۔ ہم پاکستانیوں کے لیے فکر کی بات یہ ہے کہ کیا ڈار صاحب پاکستانی معیشت کو سہارا دے پائیں گے؟ آئیے اس حوالے سے حالات کا جائزہ لیتے ہیں۔ 2013ء میں جب پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہوئی تھی تو پاکستان کی برآمدات 25 ارب ڈالرز سے کچھ زیادہ تھیں۔ اسحاق ڈار صاحب کے پانچ سالہ دور میں ان میں اضافہ نہیں ہوسکا تھا بلکہ کمی واقع ہوئی تھی۔ چین سے درآمدات پر انحصار کرنے کی وجہ سے سمال انڈسٹریز تقریباً بند ہو کر رہ گئی تھیں۔ اس کے علاوہ ان پر ماضی میں ڈالر کو مصنوعی طریقے سے کنٹرول کرنے کے الزامات بھی عائد کیے جاتے ہیں جن کی ملک کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔ تقریباً 35 ارب ڈالرز کے مہنگے قرضے ڈالر کو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال کیے گئے جن کی قیمت پاکستان آج بھی ادا کر رہا ہے۔
موجودہ اتحادی حکومت کو تقریباً چھ ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ بظاہر مشکل معاشی فیصلے کیے جا چکے ہیں۔ آئی ایم ایف سے قرض کی نئی قسط مل چکی ہے۔ ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور دوست ممالک سے تقریباً بائیس ارب ڈالرز پاکستان کو مل سکتے ہیں۔ ایسے موقع پر اسحاق ڈار صاحب کے وزیر خزانہ کی سیٹ سنبھالنے پر کہا جا سکتا ہے کہ انہیں قدرے آسان حالات کا سامنا ہو گا۔ مفتاح اسماعیل آئینی طور پر چھ ماہ کے لیے ہی وزیر خزانہ رہ سکتے تھے‘ اس کے بعد وزیر رہنے کے لیے ان کا قومی اسمبلی یا سینیٹ کا رکن منتخب ہونا ضروری تھا۔ اب اسحاق ڈار صاحب ان کی کرسی سنبھال چکے ہیں۔ ان کی لندن سے آمد کے ساتھ ہی ڈالر کی قدر اوپن مارکیٹ میں تقریباً دس روپے سے زیادہ گر گئی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسحاق ڈار ڈالر کی قدر میں کمی کو برقرار رکھ پائیں گے؟ ان کی پچھلی وزارتِ خزانہ میں ملکی معیشت کے حالات قدرے بہتر تھے اور بیرونی قرض بھی بہ آسانی مل رہے تھے۔ اب حالات تبدیل ہو چکے ہیں۔ اگرچہ معیشت پر نظر رکھنے والے ڈار صاحب نے پی ڈی ایم کے حکومت سنبھالنے کے بعد اعلان کیا تھا کہ پاکستان میں ڈالر کی قیمت 160 روپے ہونی چاہیے۔ اب دیکھتے ہیں کہ وزیر خزانہ بننے کے بعد وہ ایسا کر پاتے ہیں یا نہیں۔ موجودہ صورتحال میں ڈالر خرید کر مارکیٹ کو مینج کرنا مشکل دکھائی دیتا ہے کیونکہ ایک طرف آئی ایم ایف نے کڑی نظر رکھی ہوئی ہے، دوسرا سٹیٹ بینک بھی آزاد ہے، سب سے اہم کہ اب بیرونی قرضہ ملنا خاصا مشکل ہو چکا ہے۔ ڈار صاحب ایک تجربہ کار وزیر خزانہ ہیں لیکن موجودہ حالات میں جادودکھانا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ڈر ہے کہ وزیر خزانہ بننے کے بعد وہ بھی موجودہ حکومت کی طرح رہی سہی مقبولیت نہ گنوا بیٹھیں۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی سخت شرائط کے دائرے میں رہتے ہوئے کسی نئے تجربے کی گنجائش نکالنا خاصا مشکل کام ہے۔ موجودہ صورتِ حال کے پیشِ نظر یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ اسحاق ڈار صاحب کے آنے کے بعد ڈالر کی قدر میں کمی شاید عارضی ہے۔ یہ مارکیٹ کا عارضی ری ایکشن ہے جو جلد سنبھل جائے گا۔ اس وقت جن کے پاس ڈالر سٹاک میں پڑا ہے وہ اسے بیچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عام آدمی بھی ایسی صورتحال میں سب سے پہلے ڈالر بیچتا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت نے بینکوں کے خلاف بھی سخت ایکشن لیا ہے جس کے باعث ڈالر تھوڑا کمزور ہوا ہے۔ یاد رہے کہ جب پی ڈی ایم کی حکومت آئی تھی تو ڈالر تقریبا آٹھ روپے نیچے گرا تھا لیکن اس کے بعد تقریباً ساٹھ روپے اوپر گیا۔اب اسحاق ڈار کچھ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر پائیں گے یا نہیں‘ معاشی بے یقینی کے ان حالات میں اس بارے کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔