پاکستان میں سیاست کے خدوخال باقی دنیا سے مختلف دکھائی دیتے ہیں۔ سیاسی اتار چڑھاؤ کو جمہوریت کا حسن کہا جاتا ہے لیکن پاکستان کے لیے یہ ایک مسئلہ بن کر سامنے آ رہا ہے۔ کون کب حکومت میں آ جائے اس حوالے سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ عوام کی اکثریت جسے ناممکن سمجھتی ہے وہ بھی یہاں ممکن ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ جن دنوں میاں نواز شریف اور مریم نواز کو نظام عدل نے سزا سنائی تو عمومی تاثر یہ تھا کہ اب (ن) لیگ کی سیاست ختم ہو گئی ہے لیکن میں نے تب بھی اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ پاکستان میںکسی کی سیاست اس وقت تک ختم نہیں ہوتی جب تک کہ وہ خود اسے ختم کرنے کا فیصلہ نہ کرلے۔ بصورت دیگر سیاست دنیا سے جانے کے بعد بھی زندہ رہ سکتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ پاکستانی سیاست ایک عجب کھیل ہے جس میں ہیرو کو زیرو اور زیرو کو ہیرو بننے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔ یہ شاید ناممکنات کو ممکنات میں بدلنے والا ملک ہے۔ تحریک انصاف جب اقتدار میں تھی تو عوامی سطح پر یہ یقین بڑھنے لگا تھا کہ تحریک انصاف آٹھ سال کے لیے آئی ہے اور نا تجربہ کار سیاسی کارکن یہ سمجھتے رہے کہ (ن) لیگ دوبارہ اقتدار میں نہیں آ سکے گی۔ لیکن وہ شاید یہ نہیں جانتے تھے کہ سیاست میں ناممکن کچھ نہیں ہوتا۔ جس طرح اسحاق ڈار صاحب پاکستان واپس آئے ہیں‘ جس طرح مریم نواز بری ہوئی ہیں اور جس طرح نواز شریف صاحب کے متعلق مثبت خبریں سننے میں آئی ہیں اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اتنا ریلیف چند ماہ کی حکومت کو نہیں ملتا۔ اب شاید لمبی حکومت بنانے کی تیاری ہے۔ لیکن میں یہاں اس بات کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں کہ اس وقت عوامی سطح پر یہ رائے تقویت اختیار کر رہی ہے کہ تحریک انصاف کی سیاست ختم ہو گئی ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ ابھی تک قرائن یہی بتاتے ہیں کہ اگلے عام انتخابات میں تحریک انصاف واضح اکثریت سے جیتے گی لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا اور تحریک انصاف بھاری اکثریت سے اس بار کامیاب نہیں ہو پاتی تو یاد رکھیں کہ پاکستان کی سیاست ممکنات سے بھری پڑی ہے۔یہاں ہیرو کبھی بھی زیرو اور زیرو کبھی بھی ہیرو بن سکتا ہے۔تحریک انصاف کے سربراہ کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ وہ جیل جانے کے لیے تیار ہیں لیکن انہوں نے ابھی تک جیل نہیں کاٹی ہے۔اگر کسی کیس میں جیل جانے کی نوبت آتی ہے تو ممکنہ طور پر جیل میں شاید انہیں فرسٹ کلاس مل جائے لیکن جن سہولتوں کے وہ عادی ہیں ان کا جیل میں میسر ہونا شاید ممکن نہیں ہو گا۔دوسری طرف تحریک انصاف کے سربراہ اب لانگ مارچ اور دھرنوں سے بھی پرہیز کر تے نظر آ تے ہیں۔ حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔ لیڈرز تو سمجھ گئے ہیں لیکن تحریک انصاف کے ورکرز بھی اگر انہیں بروقت سمجھ لیں تو ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام میں کمی آ سکتی ہے۔
فی الحال سیاسی اور معاشی حالات (ن) لیگ کے حق میں مڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔ شاید (ن) لیگ کے اچھے دن شروع ہونے والے ہیں۔ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں گر رہی ہیں جس سے اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں کمی آ رہی ہے۔ پاکستان ایک درآمدی ملک ہے۔ عالمی مارکیٹ میں قیمتیں کم ہونے سے پاکستان کا درآمدی بل بھی کم ہوگا جس سے روپے کی قدر مزید مستحکم ہونے کی امید ہے۔ اسحاق ڈار کے آنے سے نہ صرف روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں مستحکم ہوئی ہے بلکہ سٹاک مارکیٹ میں بھی بہتری دیکھی جا رہی ہے اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی کمی ہوئی ہے۔ جبکہ درآمدات اور برآمدات کی صورتحال پرانی ہی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ماضی میں ڈالر کو جان بوجھ کر بڑھایا گیا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسحاق ڈار کو اس موقع پر کیا کرنا چاہیے اور ان کی اولین ترجیحات کیا ہونی چاہیے؟ اسحاق ڈار کو سب سے پہلے آئی ایم ایف سے قرض اور امداد بڑھانے پر بات کرنی چاہیے۔ کورونا میں پاکستان کا اتنا معاشی نقصان نہیں ہوا تھا جتنا سیلاب سے ہوا ہے۔ کورونا میں آئی ایم ایف نے پاکستان کے قرض بھی ملتوی کر دیے تھے اور اضافی فنڈز بھی جاری کیے تھے لیکن اس مرتبہ حالات مشکل دکھائی دیتے ہیں۔ اسحاق ڈارنے بطور وزیرخزانہ پہلی میٹنگ آئی ایم ایف سے کر لی ہے۔ اس میٹنگ میں بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے کی شرائط کو ملتوی کرنے پر بات ہوئی ہے لیکن آئی ایم ایف نے اس پر مثبت ردِعمل نہیں دیا ۔ آئی ایم ایف کے مطابق امریکہ میں آئی ایم ایف کی ایم ڈی نے وزیراعظم شہباز شریف سے آئی ایم ایف شرائط ملتوی کرنے کے حوالے سے کی گئی درخواست پر غور کرنے کی بات کی تھی‘ لیکن انہیں عمل درآمد کی یقین دہانی نہیں کروائی گئی تھی۔نئے وزیر خزانہ کوآئی ایم ایف قرضوں میں ریلیف کے حوالے سے موثر اقدامات کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اطلاعات ہیں کہ آئی ایم ایف نے نئی شرائط عائد کر دی ہیں۔ آئی ایم ایف نے اسحاق ڈارسے پہلی میٹنگ میں کہا ہے کہ پہلے پیرس کلب سے لیے گئے قرضوں پر ریلیف حاصل کریں۔ اس وقت پیرس کلب کے واجب الادا قرضے تقریباً دس ارب ڈالرز ہیں‘ جن میں سے تقریباً 1.1 ارب ڈالرز اس سال ادا کرنے ہیں۔ امریکہ پیرس کلب کا حصہ ہے اورامریکہ نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ پہلے چین سے قرضوں میں ریلیف حاصل کرے۔ اس کے بعد امریکہ اور پیرس کلب اس پر سوچیں گے۔ اس حوالے سے خوش آئند امر یہ ہے کہ امریکہ کے اس بیان کے بعد چین پاکستان کی پہلے سے بھی زیادہ معاونت کے لیے آمادہ ہو چکا ہے۔
قرضوں میں ریلیف کے بعد اسحاق ڈار کے لیے ڈالر کی قدر کو متوازن رکھنا سب سے پہلی ترجیح ہونی چاہیے کیونکہ پاکستان درآمدات پر انحصار کرتا ہے۔ ڈالر ریٹ کم ہوگا تو تقریباً ہر چیز کی قیمت کم ہو جائے گی اور مہنگائی کم کرنے کا ہدف بھی حاصل ہو جائے گا۔ ذہن نشین رہے کہ اب حالات مختلف ہیں۔ سٹیٹ بینک آزاد ہے۔ وزراتِ خزانہ سٹیٹ بینک کی پالیسیوں میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ آئی ایم ایف کے مطابق ڈالر ریٹ کو فکس نہیں کیا جا سکتا۔ سٹیٹ بینک براہِ راست مارکیٹ سے ڈالرز نہیں خرید سکتا۔ ماضی کی طرح قرض بھی نہیں مل رہے۔ ایسی صورت حال میں ڈالر ریٹ کم رکھنا مشکل ہے۔ لیکن اسحاق ڈار پرانے کھلاڑی ہیں۔ بڑے بڑے بینکوں میں نوکریاں کر چکے ہیں۔ منی چینجروں کے ساتھ بھی کام کر چکے ہیں اور تین مرتبہ وزیر خزانہ بھی رہے ہیں۔ اس لیے انہیں مسئلے کی جڑ تک پہنچنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ اسحاق ڈار وقت آنے پر سخت رویہ بھی اختیار کر لیتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کہاں پیار سے کام لینا ہے اور کہاں سختی دکھانی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے آتے ہی بینکوں اور ہنڈی حوالہ والوں کو خبر دار کر دیا ہے‘جس کی وجہ سے ڈالر ریٹ مسلسل گر رہا ہے۔ اس کے علاوہ ایران اور افغانستان کے راستے سے جو زرِمبادلہ ملک سے باہر جا رہا ہے اس مسئلے پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پچھلے وزرائے خزانہ نے اس پر کوئی کام نہیں کیا۔ ڈالر کو ملک سے جانے سے روکنا ڈالر کمانے کے مترادف ہے۔ اگر اسحاق ڈار اس پر توجہ دیں تو تقریباً چار ارب ڈالر ملک سے باہر جانے سے بچائے جا سکتے ہیں۔ اس حوالے سے اسحاق ڈار صاحب کیا حکمت عملی اختیار کرتے ہیں‘ اس بارے میں کوئی دعویٰ کرنا مشکل ہے لیکن امید یہی ہے کہ ڈالر کو قابو میں رکھنا ان کی پہلی ترجیح ہے۔ اور اگر وہ اس میں کامیاب ہو گئے تو آنے والے دن پاکستان کے لیے اچھی خبریں لا سکتے ہیں۔