پاکستان میں اس وقت آرٹیکل 62 ون ایف زیرِ بحث ہے۔ سیاست، اقتدار اور انصاف کے ایوانوں سے لے کر گھروں کے ڈرائنگ رومز تک اسی مدعے پر بات کی جا رہی ہے کہ اس آرٹیکل کے مضمرات کیا ہیں۔ عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ اصل اہمیت کسی بھی قانون کے مقصد کا تعین کرنے والے وقت کی ہوتی ہے۔ بسا اوقات ایک ہی آرٹیکل یا قانون کا بظاہر دو متضاد جگہوں پر نفاذ نظر آتا ہے۔ ہم جیسے لوگ تو اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں ہی مار سکتے ہیں، آئین و قانون، جرح و دلیل، عدالتی نظائر اور فیصلوں کو سمجھے بغیر‘ سرسری نظر ڈالنے پر ہی رائے قائم کر لیتے ہیں جو اکثر معاملات میں بے بنیاد ہوتی ہے؛ البتہ آئین و قانون کے ماہرین سمجھ سکتے ہیں کہ کس فیصلے میں کس قانون کی کس طرح تشریح کی گئی اور وہ یہ بات کہتے بھی نظر آتے ہیں کہ مختلف کیسوں میں ایک ہی قانون کی تشریح مختلف انداز سے کی جا سکتی ہے۔ پاکستان جیسے معاشروں میں تو یہ سوال بالخصوص اٹھایا جاتا ہے کیونکہ دیکھا گیا ہے کہ یہاں کچھ بھی حتمی نہیں ہوتا۔ ایک شخص جو آج آئین و قانون کی نظر میں ملزم ہے‘ کل کو وہ ملک کے اہم ترین ریاستی منصب پر بھی فائز ہو سکتا ہے۔
اس وقت سیاسی حالات تیزی سے کروٹ لے رہے ہیں۔ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کی رو سے مریم نواز کو ان کا پاسپورٹ واپس کیا جا چکا ہے اور وہ پاسپورٹ ملتے ہی اپنے والد سے ملاقات اور سرجری کے لیے لندن روانہ ہو گئی ہیں۔ شنید ہے کہ میاں نواز شریف بھی ان کے ساتھ پاکستان واپس آنے کی منصوبہ بندی کر چکے ہیں۔ گو کہ بعض حلقے میاں صاحب کو ابھی پھونک پھونک کر قدم رکھنے کا مشورہ دے رہے ہیں لیکن بظاہر حالات میاں صاحب کے حق میں نظر آتے ہیں۔ ان حالات میں تحریک انصاف کنفیوژن کا شکار اور حکومت بوکھلاہٹ کا شکار دکھائی دیتی ہے۔ گو کہ حکومت کی راہ میں بظاہر کوئی رکاوٹ نہیں ہے لیکن اب بھی اعتماد کا فقدان دکھائی دیتا ہے۔ مسلم لیگ نون کے ایک اعلیٰ عہدیدار یہ کہتے نظر آئے کہ تحریک انصاف کے سربراہ کی گرفتاری کے بغیر حکومت مستحکم نہیں ہو سکے گی مگر یہ گرفتاری اتنا آسان کام بھی نہیں ہے کیونکہ کہا جا رہا ہے کہ کہ کچھ اہم حلقے اس میں رکاوٹ ہیں۔ اس کے علاوہ جو شدید عوامی ردعمل آئے گا‘ حکومت کو اس کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ دوسری طرف تحریک انصاف لانگ مارچ کے لیے پر تول رہی ہے۔ وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے لانگ مارچ کا راستہ روکنے کے لیے تیاریاں مکمل کر لی ہیں۔ اسلام آباد میں سڑکیں کھود کر مورچے بنانے کی بھی اطلاعات ہیں۔ ماضی میں تحریک انصاف کے لانگ مارچ اور دھرنے بظاہر ناکام رہے ہیں، یہ ممکنہ لانگ مارچ تحریک انصاف کو مثبت نتائج دے سکے گا یا نہیں‘ اس بارے حتمی طور پر کچھ کہا نہیں جا سکتا لیکن حالات کی تیزی سے تبدیلی کے پیشِ نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف کو ایک مرتبہ پھر مایوسی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔موجودہ حالات کی ذمہ داری تحریک انصاف کی قیادت پر ہی عائد ہوتی ہے۔ سیاسی کشیدگی کا سارا فائدہ اس وقت مسلم لیگ نون کو مل رہا ہے۔
اطلاعات کے مطابق لیگی قیادت پُرعزم ہے کہ اگر اسے مکمل آزادی دی جائے تو وہ ملکی معیشت کو راہِ راست پر لا سکتی ہے۔ شنید ہے کہ اسحاق ڈار ڈالر کی قدر کم کر کے مہنگائی پر قابو پانے کے لیے کمر کس چکے ہیں۔ اگر وہ اس میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ووٹرز بھی رام ہو جائیں گے اور ممکنہ طور پر اگلی ٹرم میں نون لیگ دوبارہ حکومت بھی بنا سکے گی۔ موجودہ حالات کے پیشِ نظر یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اسحاق ڈار صاحب اپنا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ ڈالر کی قدر میں مستقل کمی ہو رہی ہے اور ڈار صاحب اسے دو سو روپے سے نیچے لانے کا اعلان کر چکے ہیں۔ ڈالر کی قدر کم ہونے سے مہنگائی کی شرح میں بھی کمی ہو گی جس کا نون لیگ کوسیاسی فائدہ ہو گا۔ اس وقت آرمی چیف ایک ہفتے کے دورے پر امریکہ میں ہیں لہٰذا پاکستان کو قرضوں پر ریلیف ملنے کے بھی امکانات خاصے روشن ہیں۔ سیلاب کو مدعا بنا کر ڈار صاحب بھی پندرہ بلین ڈالرز کے قرضوں کو گرانٹ میں تبدیل کرانے کے خواہاں ہیں۔ باقی قرض کو ملتوی کرنے پر بھی بات چیت کی جا رہی ہے۔ اگر ان حالات میں کوئی بڑا ریلیف مل گیا تو یہ دعویٰ ایک بار پھر تقویت پکڑ سکتا ہے کہ مسلم لیگ نون نے ملک کو معاشی بحران سے نکالا ہے۔
میں یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ عوام کے سامنے یہ حقائق بھی لائے جائیں کہ ملک واقعی معاشی بحران کا شکار ہوا ہے یا دانستہ طور پر معاشی بحران پیدا کیا گیا ہے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے فنانس کے مطابق ملک میں ڈالر کا بحران پیدا کرنے کے الزام کے پیش نظر آٹھ بینکوں کو نوٹسز جاری کیے گئے ہیں۔ سٹیٹ بینک کے مطابق تین ماہ میں بینکوں نے فارن ایکسچینج کی مد میں مبینہ طور پر تقریباً ستائیس ارب روپے کا منافع کمایا ہے جو پچھلے ایک سال میں کمائے گئے فارن ایکسچینج منافع سے بھی زیادہ ہے، یعنی ڈالر ریٹ کے اتار چڑھائو میں سب سے زیادہ فائدہ بینکوں کو ہوا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ایک ہی دن میں تین سے چار ریٹس دیے گئے۔ اس طریقہ کار میں مبینہ طور پر دو‘ تین بینک مل کر غیر حقیقی ریٹ پر ڈالر کی خریداری کرتے ہیں جس سے مارکیٹ میں تنائو آتا ہے۔ امپورٹرز گھبرا کر مہنگے ریٹ پر ڈالر خرید لیتا ہے اور اس کا فائدہ بینک کو پہنچتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ستائیس ارب کے فائدے کے لیے ملک پر اربوں کا قرض چڑھا دیا گیا تو غلط نہیں ہو گا۔ عوام مہنگائی کے سونامی میں بہہ گئے ہیں۔ قرض دینے والوں نے ناک سے لکیریں نکلوا دی ہیں۔ ملک کو ڈیفالٹ کے دہانے پر لے جایا جا رہا ہے۔ کیا حکومت ذمہ داران کا کڑا احتساب کر سکے گی۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے فنانس میں نوٹسز بھیجنے کا تو ذکر ہوا ہے لیکن نوٹسز کب بھیجے گئے، ان کا کیا جواب آیا، کن بنیادوں پر نوٹسز بھیجے گئے اور کب تک تحقیقات مکمل ہوں گی‘ ان ایشوز پر کوئی بات نہیں ہوئی بلکہ کئی اعلیٰ عہدیدار نوٹسز کی مخالفت کرتے دکھائی دیے۔ وزیر خزانہ صاحب سے گزارش ہے کہ اس معاملے کی بے لاگ تحقیقات کی جائیں اور عوام کے سامنے حقائق لائے جائیں اور ذمہ داروں کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے۔ اس حوالے سے مفتاح اسماعیل بھی کسی حد تک ذمہ دار دکھائی دیتے ہیں جنہوں نے کئی ماہ تک گورنر سٹیٹ بینک کا تعین نہیں کیا اور بینکوں کو اپنی مرضی کرنے دی۔ مفتاح صاحب ڈالر کی شرح تبادلہ اور مہنگائی پر قابو نہیں پا سکے اور اب بھی بیان بازی سے اپنی پارٹی کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہیں اس وقت سنبھل کر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ شاید یہ نہیں جانتے کہ آئی ایم ایف کی ہر بات ماننے کے لیے نہیں ہوتی۔ اپنی صلاحیتوں اور تجربے کی بنیاد پر آئی ایم ایف کو قائل کیا جا سکتا ہے۔ اسحاق ڈار چوتھی مرتبہ ملک کے وزیر خزانہ بنے ہیں اور اس میدان میں خاصے تجربہ کار ہیں۔ امید ہے کہ وہ اس مرتبہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے احسن طریقے سے آئی ایم ایف کا پروگرام مکمل کریں گے جیسے وہ ماضی میں بھی کرتے رہے ہیں۔
اس وقت برآمدات کا شعبہ بھی بری طرح متاثر ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ تجارتی خسارہ کم ہوا ہے لیکن برآمدات میں بھی کمی ہو رہی ہے۔ ٹیکسٹائل ملز مالکان نے اپنی فیکٹریاں بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ مالی سال کی برآمدات کا ہدف تقریباً 37 بلین ڈالرز طے کیا گیاہے جس میں تقریباً نو ارب ڈالرز کمی ہونے کا خدشہ ہے۔ برآمدکنندگان کو مطلوبہ سبسڈی نہیں دی جا رہی۔ بجلی مہنگی کر دی گئی ہے اور گیس فراہم نہیں کی جا رہی۔ برآمدات کرنے والوں کو خام مال کی درآمدات میں بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے جس سے ایکسپورٹ آرڈرز وقت پر مکمل نہیں کیے جا رہے۔ وزیر خزانہ کی ایکسپورٹرز سے میٹنگ طے پا چکی ہے۔ امید ہے کہ وزیر خزانہ ان کے مسائل سنیں گے اور جائز مطالبات کو تسلیم بھی کریں گے کیونکہ برآمد کنندگان اس ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہیں۔ مہنگائی کم ہو جائے تب بھی ملکی معیشت کو بچانے کے لیے برآمدات کا بڑھانا گزیر ہو چکا ہے۔