پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین نے بالآخر لانگ مارچ کا اعلان کر دیا ہے۔ مہذب معاشروں میں اپنے جائز مطالبات منوانے کیلئے لانگ مارچ اور احتجاج کرنا ایک صحت مند سیاسی سرگرمی ہے۔ امریکہ، یورپ و برطانیہ سمیت تمام ترقی یافتہ جمہوری معاشروں میں اپنے موقف کے اظہار کیلئے احتجاج اور لانگ مارچز ہوتے ہیں اور حکومتیں انہیں سپورٹ کرتی ہیں۔
جب تحریک انصاف کی وفاق میں حکومت تھی تو پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے چار لانگ مارچ کیے تھے اور حکومت نے انہیں جزوی آزادی بھی فراہم کر رکھی تھی۔ امید ہے کہ وفاقی حکومت بھی لانگ مارچ کے راستے میں رکاوٹیں نہیں ڈالے گی اور کسی ناگوار واقعے کے پیش آنے کا ماحول نہیں بنائے گی۔ پی ڈی ایم کو وسیع القلبی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ وفاقی وزرا یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ یہ لانگ مارچ ناکام ہو گا۔ اگر تحریک انصاف ایک مہینے کے لیے بھی اسلام آباد میں آکر بیٹھ جائے تو انہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ یہاں سوال یہ ہے کہ اگر حکومت کو کوئی خوف نہیں ہے تو اسلام آباد کو قلعے میں تبدیل کرنے کی کیا وجوہات ہیں اور شرکا کو اسلام آباد میں داخلے سے روکنے کے لیے منصوبہ بندی کیوں کی گئی ہے ۔یہ پیشِ نظر رکھنا بھی نہایت ضروری ہے کہ لانگ مارچ کے سب شرکا پاکستانی ہی ہیں اور تحریک انصاف ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے۔ خیبر پختونخوا، پنجاب، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں اس وقت بھی اس کی حکومتیں ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ لانگ مارچ ملک کی اکثریت کی نمائندگی کرتا ہے تو غلط نہ ہو گا۔ لانگ مارچ کو اشتعال دلانے کا نقصان اپوزیشن کے بجائے وفاقی حکومت کو ہو سکتا ہے۔ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہوں گے اور توقع کی جا سکتی ہے کہ حکومت کی جانب سے طاقت کا استعمال نہیں کیا جائے گا۔ پنجاب کے مشیرِ داخلہ نے بھی اعلان کیا ہے کہ حدود میں رہ کر احتجاج کرنا جمہوری حق ہے لیکن اگر کسی نے قانون کو ہاتھ میں لینے کی کوشش کی تو اس سے سختی سے نمٹا جائے گا، اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ خود تحریک انصاف بھی لانگ مارچ کو پُرامن رکھنے کی تیاریاں کر رہی ہے۔کسی بھی ایڈونچر کی صورت میں کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا اور بعض حلقے اس طرف سنجیدگی سے اشارہ کر رہے ہیں۔ حالات کے پیشِ نظر یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ یہ لانگ مارچ تحریک انصاف کے ماضی کے تمام لانگ مارچز کی نسبت زیادہ کامیاب ہو سکتا ہے۔ اس کی وجہ تحریک انصاف کے چیئرمین کی حکمت عملی ہے۔ سینئر صحافی ارشد شریف کے ساتھ پیش آنے والے سانحے کے اثرات بھی لانگ مارچ میں نظر آسکتے ہیں۔ ممکنہ طور پر عوامی رد عمل میں شدت دیکھنے میں آ سکتی ہے۔ ارشد شریف کے معاملے پر کیا حقائق سامنے آتے ہیں‘ اس کا اندازہ چند دنوں میں ہو جائے گا لیکن لانگ مارچ کے نتائج فوری طور پر تحریک انصاف کے حق میں آتے دکھائی نہیں دے رہے اور ممکنہ طور پر چیئرمین تحریک انصاف کو کسی مصلحت کی بنا پر واپسی کا راستہ اختیار کرنا پڑ سکتا ہے۔ کسی حد تک نتائج اس بات پر بھی منحصر ہیں کہ عوامی ردعمل کیا رخ اختیار کرتا ہے۔ یہ بات تو طے ہے کہ عوامی سمندر کے سامنے حکومتیں اور طاقتور حلقے زیادہ مزاحمت نہیں کر سکتے۔بے شمار مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔تحریک انصاف کے سپورٹرز کا اسلام آباد پہنچنا اور وہاں مستقل قیام کرنا‘ یہ دو مختلف مرحلے ہیں۔ نتائج کا زیادہ انحصار چیئرمین تحریک انصاف اور پارٹی سپورٹرز کی مستقل مزاجی پر ہے۔
پی ڈی ایم کے حکومت بنانے کے بعد سے جہاں ملک کے سیاسی حالات میں بے یقینی بڑھتی دکھائی دے رہی ہے وہاں ملک کے معاشی حالات بھی عدم استحکام کا شکار ہیں۔ وزیر خزانہ نے چین سے درخواست کی ہے کہ اگلے آٹھ ماہ میں واجب الادا چھ ارب تیس کروڑ ڈالرز کے قرضوں کو ری شیڈول کیا جائے۔ حکومت اس وقت قرض ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے‘ اس لیے چین سے تعاون کی ضرورت ہے۔ چینی حکام نے اس حوالے سے ابھی تک ہامی نہیں بھری کیونکہ چینی آئی پی پیز کے تقریباً تین سوارب روپوں کی ادائیگی ابھی تک نہیں کی جا سکی۔ اس کے علاوہ قرضوں کو مکمل طور پر ری شیڈول کرنا بھی ممکن نہیں کیونکہ تقریباً تین ارب تیس کروڑ ڈالرز چینی کمرشل بینکوں سے لیے گئے ہیں جنہیں ری شیڈول نہیں کیا جا سکتا۔ اگر زیادہ مہربانی دکھائی گئی تو ان قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید قرض جاری کیے جا سکتے ہیں۔ کمرشل بینکوں کو ادائیگی کے بعد ان سے دوبارہ قرض لیا جا سکتا ہے لیکن اس کارروائی میں تقریباً تین سے چار ماہ درکار ہوں گے۔ مارچ میں چین کو واپس کیے گئے تقریباً اڑھائی ارب ڈالرز جولائی میں دوبارہ بصورتِ قرض لے لیے گئے تھے لیکن اب معاشی حالات شاید اس تاخیر کو برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ اس وقت فوری کیش ڈالرز کی ضرورت ہے۔ سٹیٹ بینک کے ڈالر ذخائر تقریباً ساڑھے سات ارب ڈالرز کی سطح پر پہنچ چکے ہیں جن میں سے تین ارب ڈالرز چین نے سٹیٹ بینک کے اکائونٹ میں استعمال نہ کرنے کی شرط پر رکھوائے ہوئے ہیں۔ اگر چینی قرضوں کو ری شیڈول نہیں کیا جاتا تو اس قرض کی ادائیگی کے بعد ڈالر کے ذخائر محض ایک ارب ڈالر کی سطح پر پہنچ جائیں گے۔ اس سے آگے کا سوچنا بھی دشوار ہے۔
ان نازک حالات میں وزیراعظم پاکستان ایک مرتبہ پھر سعودی عرب کے دورے پر گئے ہیں تاکہ مالی امداد کی درخواست کی جا سکے۔ سعودی عرب پہلے ہی دسمبر میں واجب الادا تین ارب ڈالرز کے قرض کو ایک سال کے لیے ری شیڈول کر چکا ہے۔ موجودہ حالات میں سعودی کیش ڈالرز ملنے کے امکانات کم دکھائی دیتے ہیں۔ ممکنہ طور پر آئل ریفائنری کے ماضی کے کیے گئے منصوبوں پر کام کرنے پر پیشرفت ہوسکتی ہے۔ گلف ممالک چونکہ اب اسرائیل سے تعلقات بڑھا رہے ہیں‘ اس لیے انہیں سکیورٹی کی بھی اُتنی ضرورت نہیں ہے جتنی ماضی میں تھی۔ اس لیے بھی مطلوبہ کیش امداد حاصل کرنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پچھلے پانچ ماہ میں وزیراعظم دوسری مرتبہ سعودی عرب گئے ہیں۔ سعودی عرب سے واپسی پر وہ نومبر کے پہلے ہفتے میں چین کا دورہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن اس سے پہلے آئی پی پیز کے مسئلے کو حل کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے جو بظاہر مشکل مرحلہ دکھائی دیتا ہے کیونکہ اگر حکومت چینی آئی پی پیز کے پیسے ادا کرنے کی پوزیشن میں ہوتی تو چین سے مزید قرض مانگنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔
ایک طرف ملک چلانے کے لیے مطلوبہ ڈالرز اکٹھے نہیں ہو رہے اور دوسری طرف آئی ایم ایف نے وزیر خزانہ کو حالیہ دورۂ امریکہ کے دوران تقریباً چھ سو ارب روپوں کے نئے ٹیکسز لگانے کا کہا ہے۔ آئی ایم ایف کا موقف ہے کہ مہنگائی کی شرح تقریباً ساڑھے گیارہ فیصد طے کی گئی تھی جو پچیس فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ اگر ایف بی آر سات سو پچاس ارب روپوں کا ٹیکس ہدف حاصل کر بھی لے تو تقریباً ساڑھے نو فیصد کی ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح تک نہیں پہنچ سکتا اس لیے مزید چھ سو ارب روپوں کے نئے ٹیکسز لگائے جانے پر زور دیا جا رہا ہے۔ وزیر خزانہ نے بظاہر آئی ایم ایف کی نئی شرائط پر عمل درآمد کرنے سے معذرت کی ہے لیکن حالات کے پیش نظر یہ کہنا غلط نہیں کہ آئی ایم ایف کی شرائط کو اسی طرح ماننا پڑ سکتا ہے جس طرح حال ہی میں پٹرولیم لیوی بڑھانے سے متعلق شرائط کو ماننا پڑا ہے۔ آئی ایم ایف کا جنوری 2023ء تک پٹرول اور مارچ 2023ء تک ڈیزل پر لیوی پچاس روپے تک بڑھانے کا مطالبہ ہے۔ فی الحال پٹرولیم پر سنتالیس اور ڈیزل پر سات روپے لیوی چارج کی جا رہی ہے۔ اب ممکنہ طور پر ڈیزل لیوی بڑھائی جائے گی جس سے مہنگائی کا ایک نیا سونامی آنے کا خطرہ ہے۔ شاید حکومت اس معاملے پر زیادہ تذبذب کا شکار نہیں اور عوامی حلقوں میں گرتی مقبولیت کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ پی ڈی ایم کی زیادہ دلچسپی اپنے کیسز ختم کرانے اور اہم تقرری تک ہے لیکن وہ اس حقیقت کا ادراک نہیں کر پارہی کہ عوامی ووٹ کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے اور جب تک عوام کی اکثریت ساتھ نہ دے‘ حکومت بنانا اور چلانا مشکل ہوتا ہے۔